ہفتہ وار کالمز

چھٹ بھیؤں کا دعویء مسیحائی ؟!

ابھی چند لمحوں پہلے ہم نے جو خبر پڑھی اسے پڑھنے کے بعد وطنِ مرحوم کے ضمن میں ہر حسنِ ظن ہوا کی طرح اڑ گیا !ویسے بھی ہم تو عرصہء دراز سے اس بات کے قائل ہیں کہ نام کی اسلامی جمہوریہ میں دینِ اسلام اور اس کے شعائر کی جو توہین ہورہی ہے وہ شاید ہی دنیا میں کہیں اور ہوتی ہو! تو ہمیں اس موقع پر مرزا غالب معا” یاد آگئے کہ ان کے کلام کی سب سے نمایاں خصوصیت یہی ہے کہ زندگی سے متعلق ہر موقع اور محل کیلئے ان کی بیاض میں کوئی نہ کوئی موتی مل ہی جاتا ہے۔ غالب نے ہمارے ہی لئے کہا تھا کہ
؎جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی!
تو غالب یوں یاد آئے کہ خبر یہ ہے کہ اسلام آباد میں محکمہء صحت نے چھاپہ مار کے ایک گودام سے 25 من گدھے کا گوشت برآمد کیا ہے اور مزید یہ کہ موقعۂ واردات سے پچاس کے قریب زندہ گدھے بھی پکڑے گئے ہیں جو چھری کے نیچے تا حال نہیں آئے تھے۔ یہ گوشت دارالحکومت اسلام آباد میں گائے کے گوشت اور بکرے کے گوشت کے نام سے بیچا جارہا تھا۔
چھاپہ تو آج مارا گیا ہے لیکن یہ کاروبار تو نہ جانے کب سے ہورہا تھا۔ تو اب محلِ نظر یہ ہے کہ اس تمام عرصہ میں نہ جانے کتنے من یا ٹن گدھے کا گوشت اسلام آباد کے باسیوں کو کھلادیا ہوگا؟
ہر صاحبِ علم و دانش جانتا ہے کہ جو پیٹ میں جاتا ہے اس کا کھانے والے کی فطرت اور شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ اسی لئے ہمارے دین نے جو دینِ فطرت ہے سور کے گوشت کو کھانے کی سختی سے ممانعت کی ہے اور یہ تو عام مشاہدہ کی بات ہے کہ جو قومیں لحمِ خنزیر کھاتی ہیں ان کے کردار و افعال میں اس کی عادتیں اور عیوب سرایت کرجاتے ہیں !
تو ہم جب اپنے وطنِ مرحوم کا موجودہ احوال دیکھتے ہیں اور اس کے شب و روز پر جب ہماری نظر جاتی ہے تو یقین کرنے کو دل چاہتا ہے کہ اسلام آباد کیا ملک کے کثیر الاتعداداد لوگوں میں گدھے کی فطرت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور اسلام آباد کا تو کیا ہی کہنا کہ اس پر تو گذشتہ تین سوا تین برس سے گدھے حکومت کر رہے ہیں اور ان سے بھی بڑے اور طاقتور گدھے ان کی سرپرستی کر رہے ہیں اور یوں کر رہے ہیں کہ دونوں کی فطرت ایک ہے ، دونوں کے مزاج میں ہم آہنگی ہے اور دونوں پاکستان کو تباہی اور بربادی کے اس عمیق کھڈ کی سمت لئے جارہے ہیں جس میں ایکبار گرنے کے بعد پھر اس سے نکلنا ناممکن ہوگا !
تو گدھوں کی انجمنِ ستائشِ باہمی کارہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہے اور پاکستان کو دنیا میں ہر سطح پر ایک مذاق بنانے کی ہر ممکن کاوش کر رہی ہے !
ابھی دو دن ہوئے اسلام آباد سے سرکاری اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل چارلس کوریلا کو پاکستان کا دوسرا بڑا فوجی اعزاز دیا گیا ہے، یعنی انہیں نشانِ امتیاز (ملٹری) سے نوازا جارہا ہے۔
شاید گدھوں کو یہ علم نہیں کہ جنرل کوریلا امریکی کمانڈ میں اسرائیل کا سب سے بڑا مداح اور حمایتی ہے اور اسی معنی میں وہ غزہ اور فلسطین کے مظلوموں کا سب سے بڑا دشمن بھی ہے !
لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا کہ عقل و خرد سے عاری چور اور ڈکیت حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں کو اس شخص کے ریکارڈ کا علم ہے یا نہیں جسے اعزاز و اکرام سے نوازا جارہا ہے۔ بات اصل یہ ہے کہ وہ جو اماں اللہ بخشے کہا کرتی تھیں کہ سیر کے برتن میں سوا سیر پڑجائے تو چھلک اٹھتا ہے۔
سو اب یزیدِ وقت، خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر، کو اس روپ میں پیش کرنے کی کوشش بلکہ مہم کا آغاز ہوگیا ہے جس میں ایک بونے کو قامت کے اعتبار سے بلند قامت اور ایک مسیحا کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو باور کروایا جاسکے کہ ان کے ہر مرض کا علاج اس مسیحائے وقت کے پاس ہے !
عاصم منیر وہ شخص ہے جسے پاکستانی فوج میں کمیشن بھی کاکول کی ملٹری اکیڈیمی کے راستے سے نہیں بلکہ اس طرح ملا تھا جسے غیر منقسم ہندوستان میں وایا بھٹنڈا کہا جاتا تھا ۔
وہ اسکول اب بند کردیا گیا جہاں سے، یعنی آرمی ٹریننگ اسکول کی پگڈنڈی پر چلنے والوں کو فوج میں کمیشن مل جاتا تھا لیکن انہیں ہمیشہ دوسرے درجہ کا افسر مانا جاتا تھا! لیکن بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور عاصم منیر نام کے شریفوں سے ساز باز کرکے اپنے ریٹائر ہونے کے بعد بھی فوج کا سپہ سالار بن گیا! بس پھر کیا تھا۔ بندر کے ہاتھ ادرک لگ گئی، گنجے کو ناخن مل گئے تو وہ جو مرحوم محسن بھوپالی نے کہا تھا کہ
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے !
تو پاکستانی قوم کی ہتک ہی تو ہے کہ ایک اسلام دشمن امریکی جرنیل کو پاکستان کا نشانِ امتیاز دیا جارہا ہے!
پاکستان کے محب وطن عوام کی توہین ہی تو ہے ناں کہ عاصم منیرکے بھاگوں جب سے چھینکا ٹوٹا ہے اور اسے وہائٹ ہاؤس میں لنچ کھلاکے ٹرمپ نے پاکستان کے مفاد کے خلاف جو ترپ یا ٹرمپ کا پتہ حاصل کیا ہے یہ مسلمان دشمن امریکی جرنیل کو پاکستان کے نشانِ امتیاز سے نوازنے کا کارنامہ اسی ترپ کے پتے کا شاخسانہ ہے !
اور یہ تو پہلی چال ہے جو پاکستانی شطرنج کی بساط پر چلی گئی ہے۔ آگے آگے دیکھئے کیا ہونے والا ہے۔ عاصم منیرجیسا کم اوقات، یہ سمجھتا ہے کہ جیسے موسی آگ لینے کوہِ طور پہ گئے تھے اور پیغمبری پاکے آگئے تھے اسی طرح وہائٹ ہاؤس کے لنچ نے اسے پاکستان کا بے تاج بادشاہ بنا دیا ہے !
تو اب ایک طرف تو سامراج کے گروگھنٹال کے ہاتھ میں عاصم منیر نے جو ترپ کا پتہ دیا ہے اس کے عوض خدمتِ سرکار کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اگلا اقدام یہ ہوگا کہ گرو گھنٹال کو پاکستان کی وہ قیمتی معدنیات طشتری میں رکھ کے پیش کردی جائینگی جن کی ترسیل چین نے سامراجی گرو کو بند کردی ہے۔ چین کی قیادت غیرتمندوں کے ہاتھ میں ہے اسلئے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتی جس سے چین کے قومی مفاد کو زک پہنچ سکتی ہو۔
لیکن پاکستان کے عسکری طالع آزماؤں کی تاریخ یہی رہی ہے کہ سامراجی آقاؤں کے مفاد پر پاکستان کا قومی مفاد اور غیرت و حمیت آنکھ بند کرکے قربان ہوتا رہا ہے۔ رنگیلے راجہ پرویز مشرف نے اپنے سامراجی آقا کو پاکستان کی سرزمین پر جو فوجی اڈے دئیے تھے ان میں پاکستانی افواج کے چھٹ بھیئےافسروں کو قدم رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی ! ملت فروشی اس سے سوا اور کیا ہوسکتی ہے ؟
ادھر جو سیاسی گماشتے، نون لیگ کے ، جو عسکری طالع آزما عاصم منیر نے اپنی سہولت کیلئے اقتدار کی بساط پہ بٹھائے ہیں وہ الگ سامراجی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے کوشاں ہیں!
پاکستان کے دفترِ خارجہ، جس سے یہ حقیر 36 برس وابستہ رہا ہے، کی اس سے بڑھکر اور کیا ہتک ہوسکتی تھی کہ ایک نیم خواندہ منشی، اسحاق ڈار کو وزیرِ خارجہ بناکر اس پر مسلط کردیا جائے۔ یہی نہیں کہ یہ جاہل لٹھ ملک کی خارجہ پالیسی کا نقیب بنا ہوا ہے بلکہ، ستم بالائے ستم، اسے نائب وزیرِ اعظم کے منصب سے بھی نوازا گیا ہے اور پاکستانی قوم کے سینے پر مونگ دلنے کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہوسکتی تھی کہ اس جاہل منشی کو اس منصب سے نوازا گیا ہے جس کا پاکستان کے آئین میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے !
تو اس منشی نے اپنے طور پہ یہ کارنامہ کیا ہے، اپنے حالیہ دورہء امریکہ میں ، کہ اس نے عمران خان کی ناجائز حراست اور قید کو جائز قرار دینے کی جاہلانہ کوشش میں اس نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ناجائز سزا کو، جو وہ امریکہ کی جیل میں گذشتہ بیس برس سے بھگت رہی ہیں، جائز قرار دے دیا !
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
ملک و قوم کی غیرت اور عزت کو نیلام کرنے کا ہر کارنامہ، پاکستان کی تاریخ میں، یا تو عسکری طالع آزماؤں کا رہا ہے یا ان کی سیاسی کٹھ پتلیوں کا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پرویز مشرف نے سامراجی آقا کو بیچا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے اجمل کانسی کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بیچا تھا۔ سامراج کی خدمت میں جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں دونوں ہی نے بہتی گنگا میں خوب خوب اشنان کیا ہے، کمال بے غیرتی اور حمیت کے فقدان کے ساتھ !
پاکستانی قوم کی غیرت اور حمیت کو یزیدِ وقت کے اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے بے دریغ سامراج کے ہاتھوں ایک طرف نیلام کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اب یزیدِ وقت کو مسیحا کے روپ میں قوم کے سامنے پیش کرنے کی مہم بھی زور شور سے شروع ہوچکی ہے۔
عاصم منیر کے ایک کورس میٹ، یا آرمی ٹریننگ اسکول میں ہم جماعت ایک ریٹائرڈ میجر ہیں نوید الرحمان نام کے جنہوں نے عاصم منیر کی قامت بڑھانے کی مہم میں دیوار کا پہلا پتھر رکھا ہے۔ ان کا یہ پیغام سوشل میڈیا پہ وائرل ہوگیا ہے کہ خود ساختہ فیلڈ مارشل ایسے خضوع و خشو کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے کہ نماز پڑھتے پڑھتے سجدے میں ہی سوجایا کرتے تھے !
بہ الفاظِ دیگر ان کی نماز اس مجاہد کی نماز ہوا کرتی تھی جس نے عبادت کیلئےہر آرام تج دیا تھا۔ اے سبحان اللہ !
میجر صاحب نے مزید اپنے دوست کی دینداری کی توصیف میں فرمایا کہ وہ، یعنی فیلڈ مارشل صاحب، یہ کہا کرتے تھے کہ اپنی یونیفارم، یا وردی، وضو کرکے پہنا کرو کہ یہ وردی ہی ہمارا رزق اور کفن بھی ہے !
اے سبحان اللہ، واری صدقے جائیے اس دینداری کے۔ لیکن فیلڈ مارشل صاحب سے کوئی یہ پوچھے کہ جس قرآنِ حکیم کو آپ حفظ کرنے کے دعویدار ہیں وہ یہ کہتی ہے کہ ظلم کرنے والا اللہ کی عدالت سے کبھی بری نہیں ہوگا اور اس چھٹ بھیے فیلڈ مارشل نے ملک پر جو فسطائیت مسلط کی ہے اس کی پاکستان کی داغدار تاریخ میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
تو ایک طرٖف عاصم منیر کی شخصیت سازی، جسے فسطائیت کی زبان میں پرسنلٹی کلٹ کہا جاتا ہے، کی جارہی ہے تو دوسری طرف سیاسی چھٹ بھیٔے، جاہل اسحاق ڈار جیسے، عمران خان کی ناجائز قید اور بدترین پابندیوں کو جائز قرار دینے کی مہم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر روا رکھے جانے والے ظلم کو جائز کہہ کے اپنے عسکری آقا کو بھی خوش کرنے کے جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں اور سامراجی گرو گھنٹال کی خدمت بھی بجا لارہے ہیں !
قومے فروختن وچہ ارزاں فروختن !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button