ہفتہ وار کالمز

ٹرمپ مودی ‘ بڑھتی ہوئی کشیدگی!

صدر ٹرمپ نے یہ بات اگر دو چار مرتبہ کہی ہوتی تو نریندر مودی اسے برداشت کر لیتے مگر اب انڈین میڈیا کے مطابق وہ یہ بات چوبیس مرتبہ کرچکے ہیں اس لیے یہ ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ یہ بات دس مئی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ جنگ کے اختتام پر شروع ہوئی تھی۔ اسکے ایک دن بعد صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا ” We stopped the war after a long night of talks mediated by Washington.” کشمیر کے تنازعے پر انڈیا کی طویل عرصے سے یہ پالیسی ہے کہ وہ کسی کی ثالثی قبول نہیں کریگا۔ صدر ٹرمپ کشمیر کے بارے میں کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرنے پر آمادہ ہیں۔ چند ماہ پہلے تک تو نریندر مودی اس بات کو نظر انداز کرتا رہا مگر اب اسکے لیے اپوزیشن کے بڑھتے ہوے دبائو کی وجہ سے خاموش رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی انڈین نیشنل کانگرس اور اسکی اتحادی جماعتیں اس لیے برافروختہ ہیں کہ امریکہ انڈیا تعلقات کی نوعیت ویسی نہیں رہی جیسی کہ چھ ماہ پہلے جوزف بائیڈن کے دور میں تھی۔ ان دنوں انڈیا کی اہمیت ا س لیے زیادہ تھی کہ بائیڈن انتظامیہ اُسے چین کے خلاف ایک مدِ مقابل کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی۔ صدر بائیڈن نے تو امریکہ‘ آسٹریلیا‘ انڈیا اور جاپان پر مشتمل Quadکے نام سے Indo-pacific ممالک کا ایک اتحاد بھی بنا دیا تھاجسکا مقصد ممبر ممالک کو چین کے خلاف صف آرا کرنا تھا۔ صدر بائیڈن کی وائٹ ہائوس سے رخصتی کے بعد اس اتحاد کا نام کبھی سننے میں نہیں آیا۔
امریکہ انڈیا تعلقات میں کشیدگی کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں ۔ ان میں گذشتہ تین برسوں میںکینیڈا اور امریکہ میں سکھ رہنمائوں پر ہونیوالے قاتلانہ حملے شامل ہیں۔ اٹھارہ جون 2023 کو کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کے شہر Surrey میں سکھ فار جسٹس نامی تنظیم کے سربراہ ہر دیپ سنگھ نجار کو گرو نانک سنگھ گردوارہ کے پارکنگ لاٹ میں نا معلوم حملہ آوروں نے قتل کردیا۔ کینیڈا کی حکومت نے اس قتل میںOttawa میں انڈیا کے سفارتخانے اور اسکی خفیہ ایجنسی راء کو ملوث قرار دیاتھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس حد تک بگڑے کے دونوں نے اپنے تمام سفارتکار واپس بلا لئے۔ بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا کی اہمیت کے پیش نظر اس شعلے کو زیادہ بھڑکنے نہ دیا مگر انڈیا کی شہرت پر ایک کاری ضرب لگ چکی تھی۔ قاتلانہ حملوں کا یہ سلسلہ اگر یہیں رک جاتا تو شائد وقت اس نقصان کا ازالہ کر دیتا مگر راء خالصتان تحریک کے بیرون ملک رہنے والے رہنمائوں کے خلاف سر گرم عمل رہی۔ اس کے ایجنٹوں نے گیارہ اگست 2024 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر Sacramentoکے مضافات میں سکھ فار جسٹس تنظیم کے لیڈر ستیندر پال سنگھ راجو پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ بری طرح زخمی ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ اس مرتبہ خاموش نہ رہ سکی اور اس نے بھرپور انڈیا سے بھرپور احتجاج کرنے کے علاوہ یقین دہانیوں کا تقاضا بھی کیا کہ انڈیا آئندہ ایسی وارداتوں سے گریز کرے گا۔ نریندر مودی حکومت نے اگر چہ کہ ان وارداتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیاہے مگر امریکی اور کینیڈین میڈیا کے مطابق ان حملوں میں انڈیا کے سینئر سرکاری افسروں کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔
امریکہ انڈیا تعلقات میں ایک بڑی دراڑ اسوقت پڑی جب نیو یارک کی عدالت میں انڈیا کے ارب پتی بزنس مین گوتم اڈوانی پر پانچ جرائم میں ملوث ہونے پر فرد جرم عائد کی۔ ان میں امریکہ کی سٹاک مارکیٹ کے قوانین کی خلاف ورزی‘ آف شور کمپنیوں کے کاروبار میں بڑے پیمانے پر شرکت اور انڈیا کی حکومت کو 250 ملین ڈالر ز دے کر مختلف ریاستوں میں ٹھیکے حاصل کرنے کے الزامات شامل تھے۔ گوتم اڈانی نے یہ رقم امریکی کمپنیوں سے حاصل کی تھی اور انہیں بتائے بغیر اسے انڈیا کی حکومت کو بطور رشوت دے دیا تھا۔ گوتم اڈوانی نریندر مودی کا قریبی دوست ہے اور اسکی گرفتاری کا مسئلہ بھی امریکہ اور انڈیا کشیدگی کا ایک اہم باب سمجھا جاتا ہے۔
ان تین واقعات کے علاوہ انڈیا نے امریکہ چین کشمکش میں کھل کر امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ انڈیا کی اس بے اعتنائی کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے یہ امید قائم رکھی کہ مودی حکومت چین کے مقابلے میں اسکا ساتھ دے گی۔ مگر صدر ٹرمپ اس خوش فہمی میں مبتلا نظر نہیں آتے۔ انہیں انڈیا سے یہ شکایت بھی ہے کہ وہ روس سے تیل اور اسلحہ خرید کر ماسکو کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کو غیر مئوثر کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسے تمام ممالک کی برآمدات پر سو فیصد ٹیرف لگا دیں گے جو روس سے تجارت کر رہی ہیں۔ ایسااگر ہو جاتا ہے تو امریکہ انڈیا تعلقات نہایت مخدوش ہو جائیں گے ان دونوں ممالک کے تعلقات میں پاکستان انڈیا حالیہ جنگ کے بعد جو کشیدگی آئی ہے اسکا اندازہ لوک سبھا میں کانگرس پارٹی کے ایک ممبر جے رام رامیش کے حالیہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ رامیش نے کہا ہے ’’ ٹرمپ چوبیس مرتبہ کہہ چکا ہے کہ اس نے جنگ بندی کرائی ہے۔ اس نے انڈیا کو تجارت میں نقصان پہنچانے کی دہمکی بھی دی ہے۔ اب وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے پانچ طیارے گرائے ہیں۔کانگرس پوچھتی ہے کہ مودی نے انڈیا کے وقار کا سمجھوتا کیوں کیا ہے۔ ‘‘ جے رام رامیش نے یہ بھی کہا کہ’’ ٹرمپ بولتا رہتا ہے اور مودی خاموش ہے۔ ‘‘ ٹائمز آف انڈیا کی انیس جولائی کی اشاعت کے مطابق رامیش نے مودی سے لوک سبھا میں آ کر اپوزیشن سے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ سات مئی کا آپریشن سیندور مودی حکومت کے گلے کی پھانس بن چکا ہے۔ تنزل کے اس سفر کا انجام جلد یا بدیر سامنے آ جائیگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button