معیشت کی بوسیدہ عمارت

ہمارے اس پُر عذاب معاشرے میں صرف دکھاوے کے لئے اپنی مصنوعات کو جن میں کپڑوں سے لے کر گھروں اور فلیٹوں تک میں سچائی کی رمق تک نہیں ہوتی مگر اُسے ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ضرورت مند اور سادہ لوح ان کی لفاظی اور اشتہاری فلموں میں دکھائی گئی دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ جن اشیاء میں جو چیز موجود ہی ہوتی یعنی جو گولی متعلقہ بیماری پر اثر ہی رکھتی اُسی کو اشتہارات میں اپنے جملوں میں بیان کر کر کے عوام کی توجہ کسی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں چاہیئے تو یہ کہ جو اشتہار انسانی صحت یا ضروریات ِ زندگی سے متعلق اشیاء کی خوبیاں اُس کے اثرات کی گارنٹی دینے والا کوئی ادارہ ہونا چائیے اُس ادارے کی این او سی کے بعد اس متعلقہ چیزوں کو اشتہاروں میں یا مارکیٹ میں آنا چائیے الیکٹرونک میڈیا کے پھیلائو سے یہ دھوکہ دہی کے اشتہارات بھی اسی رفتار سے نظر و سماع میں قیام پذیر رہتے ہیں جن سے یہ سیانے لوگ اپنے ایمان کو تھوڑے سے نا پائیدار مفاد کی خاطر دائو پر لگانے سے دریغ نہیں کر رہے ہیں دیگر کئی عوامل کے ساتھ ساتھ ہماری تجارتی اشیاء اسی لئے بیرون ممالک میں وہ ساکھ نہیں رکھتیں جو دوسرے غیر مہذب ممالک کی تیار کردہ اشیاء رکھتیں ہیں اندرون ملک بھی اسی بے ایمانی دھوکہ دہی سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر اُن سے پیسہ اینٹھا جارہا ہے ہماری صداقتوں میں جھوٹ اور امانتوں میں خیانتوں کی وارداتیںبڑی بڑی سیاسی جماعتوں سے لے کر عام آدمی تک ان جرائم میں ملوث ہے ہمارا واسطہ اپنے معاشرے کے ان مافیاز سے دن رات پڑتا ہے مگر ہماری آواز کو سننے والے نہ حاکم موجود ہیں کہ ان کی عدل جہانگیری کی زنجیر ہلا کر ظلم کی داستان بیان کریں اور نہ ایسا کوئی ادارہ جو انھیں قرار واقعی سزا دے کر آنے والی نسل کے لئے سبق آموز بنائے چار و ناچار اپنے ہی بال نوچ کر اپنا ہی سینہ پیٹ کر ماتم کناں رہنا عادت سے بنا لی ہے کیونکہ کوئی سننے والا ہی نہیں ۔ایسے دور ِ نا پُرساں میں جہاں قلم کی عظمت اجڑی ہے وہیں زبان کا زور ِ بیاں بھی سکوت کی نذر ہو چکا ہے بد اعمالیوں کے اس طوفان میں گھری اخلاقی قدریں بھی برہنہ ہیں اور قرضوں پر چلنے والی معیشت بھی محتاج ِ زمانہ ہے بہتری کی فضا تقریروں میں پریس کانفرنسز میںبڑے دعوئوں کے ساتھ سننے کو ملتی ہیں مگر جب غریب کے یا ایک عام آدمی کے دسترخوان پر نظر پڑتی ہے تو ان کی بڑھکوں کی قلعی کھل جاتی ہے ہندسوں میں کھیل کی مہارت رکھنے والے ہمارے معاشی ماہرین معیشت کی جو صورت حال غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے اکثریتی طبقے کو سناتے ہیں وہ صرف اُمید کے دیئے کی چھوٹی سی کرن ہوتی جسے مہنگائی کا ہلکا سا تھپیڑا اُلٹ کے رکھ دیتا ہے پٹرول 7روپے سستا کر کے پھر 10روپے لیٹر مہنگا کر دیا جاتا ہے آٹا چینی گھی کی قیمتوں میں عروج دیکھنے کو ملتا ہے مگر کبھی کمی نہیں دیکھی راوی نے ایک روپے کی 9روٹیاں والا وقت اپنے ہوش وحواس میں دیکھا جو آج بھی یادوں میں محفوظ ہے اور آج جبکہ ایک سادہ روٹی 20روپے کی ہے اسے کبھی کم ہوتے نہیں دیکھابجلی کی قیمتوں کو بڑھتے ہی دیکھا ہے تو مہنگائی کم ہونے کے یہ غلط ،جھوٹے دعوے کرنا کسی مسلمان ریاست کے حکمرانوں کو زیب دیتا ہے ؟انھیں تو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ اسلامی ریاست میں سودی معیشت کو پروان چڑھائیں مگر بد قسمتی سے یہ سودی نظام معیشت 1959سے چل رہا ہے جس کی بنیاد ایوب خان کے دور ِ حکومت میں رکھی گئی تھی جس سے معیشت کی بوسیدہ عمارت آج تک مضبوطی سے ہمکنار نہ ہو سکی اور نہ ہی عوام آسودہ حال ہوئے دل غم و خوشی کے ملے جلے رحجانات سے بغلگیر ہوا جب یہ بات علم میں آئی کہ پشین سے تعلق رکھنے والے ایک 70سالہ شخص فیض الحق نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا ٹھیک ہمت مرداں مدد ِ خدا مگر وطن ِ عزیز کو وجود میں آئے 77 سال ہونے کو ہیں لیکن یہ اپنے پیروں پر کھڑا کے قابل ہی نہیں قرضوں کی بیساکھیوں کے بغیر اس کا چلنا مشکل ہے آئی ایم ایف کے جن ڈاکٹروں کے پاس ہماری اس بیمار معیشت کو زیر ِ علاج رکھا گیا ہے اس کی حالت سنورنے کی بجائے مزید بگڑ رہی ہے مگر نہ جانے کیوں ہمارے حکمراں و معاشی ماہرین اس بات پر بضد ہیں کہ بیمار معیشت کا علاج ان ہی سے کروانا ہے 25کروڑ کی آبادی رکھنے والا ملک ہر سال 50سے60لاکھ تک کا اپنی آبادی میں اضافہ بھی کر رہا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ موجودہ معیشت کی بوسیدہ عمارت میں موجود افراد کا بوجھ اُٹھانا خاصا مشکل ہے اس میں نئے آنے والوں کو جگہ دینے سے پہلے اُن کی بودو باش کے لئے معاشی بنیادوں کی مضبوطی کو یقینی بنانا ضروری امر ہے کراچی کی تو 51عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے مگر ہماری معیشت کی بوسیدہ عمارت اللہ نہ کرے گری تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا لہٰذا آج عمل میں آئیں کہ کل بہتر ہو سکے ۔