ہفتہ وار کالمز

کچھ بھی پیغام محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں” !

21 اپریل اس کا جنم دن ہے جس کیلئے ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مصورِ پاکستان تھا، اس نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا!
تو یہ حق بحق دار رسید کے مترادف ہے کہ ہم حکیم الامت، اقبال کو ان کے یومِ وفات پر وہ خراجِ عقیدت و احترام پیش کریں جس کے وہ حقدار ہیں۔لیکن یہ کمزوری یا بیماری شاید پاکستانی قوم کے خمیر میں رچ بس گئی ہے کہ ہم اپنے کسی محسن کے احسان کو یاد نہیں رکھتے اور اس کے احسان کا بدلہ اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے ہم نے اقبال کے تصورِ پاکستان کو الٹی چھری سے ذبح کرکے دیا ہے اور ان کے خواب کو ایسی تعبیر بخشی ہے جو بھیانک بھی ہے اور کرب انگیز بھی۔ اقبال کی روح عالمِ بالا میں کیسی مضطرب اور پشیمان ہوگی کہ انہوں نے کیا خواب دیکھا تھا اور ان کی قوم نے اس کا کیسا ڈراؤنا روپ تعبیر کی صورت میں پیش کیا ہے !
میں نے اپنے شہر ٹورنٹو کی ایک ادبی محفل میں جہاں سخن و شعر کے شائقین جمع تھے سامعین سے سوال کیا کہ کیا انہیں علم ہے کہ 21 اپریل کا دن کس حوالہ سے ہماری ملی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے ؟
میرا گمان تھا کہ ادب کے پرستاروں کی محفل میں حاضرین کی اکثریت جواب دے گی کہ یہ حکیم الامت علامہ اقبال کی رحلت کا دن ہے جب وہ اپنے خواب کی تعبیر دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے سدھار گئے تھے۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی جب مجمع میں صرف دو تین ہی افراد کو یاد تھا کہ یہ دن کس اہمیت کا حامل ہے اور ہم سے، بطور پاکستانی کیا تقاضہ رکھتا ہے !
جس قوم کے افراد کو اپنے محسنوں کی تاریخِ پیدائش یا وفات ہی یاد نہ ہو اس سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان کے احسانات کو یاد رکھے گی یا اسے یہ احساس ہوگا کہ اپنے بزرگوں کے اقوال کو یاد رکھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان اقوال کی تہہ میں جو فکر کارفرما تھی اُسے اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا جائے تاکہ ملت کا سفر کامرانی کی سمت رواں رہے اور محسنوں کی تعلیمات کی روشنی اس سفر کو آسان بنادے اور صعوبتوں سے محفوظ رکھے ۔
اقبال کا پیغام بہت سیدھا سادہ اور آسان تھا۔ اس پر عمل کرنے کیلئے نہ ہاتھی گھوڑے درکار تھے نہ ہی کسی اور تام جھام کی ضرورت تھی۔ اقبال کا پیغام، قوم کے تمام امراض کیلئے یہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کو اس پیغام کے سانچے میں ڈھال لیں جو پیغمبرِ اسلام، ہمارے پیارے نبی حضور سرورِ کونین ﷺ کا قیامت تک کیلئے سرخرو اور کامیاب و کامران رہنے کا نسخہء بیمثل تھا اور وہ یہ کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کی حکمت اور رسولِ اکرم ﷺ کی سیرت کے آئینہ میں زندگی کی تشکیل و تعمیر کی جائے۔ اسے انہوں نے اللہ سے اپنے ہی شکوہ کے جواب میں یوں کہا تھا :؎
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!
اقبال کا تجویز کردہ نسخہء حکمت تھا کہ ملت کے نوجوان شاہین صفت ہوجائیں اور حریت کا وہ جذبہ اپنے میں بیدار کرلیں جس کے بعد ہر پرواز بلندی اور رفعت کی سمت ہوتی ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں!
لیکن ہم نے آزاد مملکت بنانے کے بعد کیا عمل کیا کہ ہم نے کرگسوں اور زاغوں کے طریق کو اپنا لیا۔ اقبال کی تلقین تھی کہ مسلمان پیغامِ محمدﷺ کی روح کے اعتبار سے ایک جسد، ایک بطن تھے لیکن ہم نے اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے دائروں میں بانٹ لیا اور انہیں دائروں میں قید بھی ہوگئے اور اقبال کے اس خدشہ کو درست ثابت کردیا کہ
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟
یہی کرگسوں کا شعار تھا اور یہی تفرقہ تھا جس نے قائد اور اقبال کے ایک پاکستان کو دولخت کیا اور یہ اسلئے ہوا کہ اقبال کی اس امید کو ہم نے پارہ پارہ کردیا کہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیﷺ دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!
اور ستم بالائے ستم یہ ہے، المیہ پر المیہ، کہ ہم نے بطور ملت اپنی بھیانک اور وطن دشمن غلطیوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا، کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم اسی غلطی کو، ملت کو پارہ پارہ کرنے والی روش کو آج بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور تباہی کے کھڈ میں گرنے کی سمت میں آنکھیں بند کرکے بڑھے چلے جارہے ہیں۔
وہی ملت کش قوت آج بھی پاکستان کی مالک و مختار بنی ہوئی ہے جس کے کالے کرتوت مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ دار تھے۔
کل اگر یحییٰ جیسا بدمست اور رنگیلا آمرپاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک تھا تو آج اس کا جانشین، عاصم منیر، اپنی نخوت و تکبر سے پاکستان کو برباد کر رہا ہے اور اس روش پہ گامزن ہے جس کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ جعلی حافظ جسے اتنی بھی تمیز نہیں کہ قرآن کی کس آیت کو کہاں نقل کرنا یا ادا کرنا چاہئے عمران خان کی دشمنی میں ایسا اندھا ہوچکا ہے کہ اسے عمران کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا اور عمران کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے جنون میں مبتلا یہ ذہنی مریض بچے کچھے پاکستان کو بھی اپنے سماراجی آقاؤں اور ساہوکاروں کی ہوس کی نذر کر رہا ہے۔ بقولِ اقبال:
کون ہے تارکِ آئین رسولِ مختارﷺ
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
ہوگئی کس کی نظر طرزِ سلف سے بیزار!
عمران کا سب سے تعمیری اور دیر پا کارنامہ یہی تو ہے کہ اس نے قوم کے سامنے ان بدبخت، ملت فروش اور طالع آزما ہوس گزیدہء اقتدار جرنیلوں کو ننگا اور بے لباس کردیا ہے اور عوام کی آنکھوں پر غفلت یا عدم دلچسپی کے جو پردے پڑے ہوئے تھے انہیں اٹھا دیا ہے۔
قوم کے افراد کو اب کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ملک کو لوٹنے اور تاراج کرنے والے وہی ڈکیت ہیں، وردی پوش، جن کا زعم یہ ہے کہ وہ ملک کے محافظ ہیں اور ان سے بڑھ کرنظریہء پاکستان کا وفادار اور کوئی نہیں!
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان ملک دشمن جرنیلوں کے مکروہ اور کریہہ چہرے بخوبی دیکھ لینے کے باوجود قوم کی بے حسی کا جمود ایسا ہے کہ وہ ٹوٹتا ہی نہیں۔ قوم ان ملک دشمن جرنیلوں کے ساتھ ساتھ ان ضمیر فروش سیاسی گماشتوں کو بھی اپنے کندھے پر لئے ہوئے ہے جو کردار و افعال کے اعتبار سے اسفل السافلین کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو قوم زرداری جیسے ڈکیت کو دوبار صدرِ مملکت کے روپ میں برداشت کرسکتی ہےاور نامی لٹیروں اور چوروں کا وہ ٹولہ جو شریف خاندان کے زن و مرد کا ہے اسے گوارا کرسکتی ہے تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔
کل اقبال کو قوم کے حق میں اللہ سے گلہ تھا لیکن قوم کے کرتوت دیکھنے کے بعد آج اقبال کو اس قوم سے گلہ ہے جس کیلئے انہوں نے تصور اور منشورِ حیات پیش کیا تھا۔
ہم نے آج سے 40 برس پہلے علامہ اقبال کے یومِ ولادت پر ایک نظم کہی تھی، "شکوہء اقبال” کے عنوان سے۔ وہ نظم آج بھی اتنی ہے ملک و قوم کے حالات سے من و عن مطابقت رکھتی ہے جتنی چلایس سال پہلے تھی اسلئے کہ ہمارے حالات تو یون لگتا ہے جیسے وقت کی قیدِ دوام میں گھر کے رہ گئے ہوں۔ چالیس برس پہلے جو نقشہ تھا من و عن وہی آج بھی ہے۔ وہی طالع آزمائی ہے بدمست بونا پارٹ کی جس نے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ یحیی کا زعم بھی یہی تھا کہ وہ ڈنڈے کی طاقت سے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی نسل بدل دے گا اور آج کا یحیی ثانی، عاصم منیر بھی اسی وہم کا شکار ہے کہ وہ پاکستان کو ایک طاقت آزما، بقول اس کے "ہارڈ اسٹیٹ” بناکر اور بندوق کی نوک پر بلوچستان میں لگی آگ کو ٹھنڈا کردے گا۔ جتنا غلط یحیی تھا اتنا ہی بھٹکا ہوا عاصم منیر ہے۔
ہمار وہ نظم طویل تھی جس کے چند اقتباسات ہم یہاں آپ کی فکر و سوچ کیلئے نقل کر رہے ہیں:
پہلے اقبال کو شکوہ تھا خدا سے ۔۔۔ لیکن
روح، اقبال کو شکوہ ہے اب اس امت سے
جس کی بربادی لہو اس کو رلاتی تھی کبھی
جس کی خاطر اسے شکوہ تھا خدائی سے کبھی
جس کی فریاد پہ قدسی بھی لرز اٹھے تھے !

روحِ اقبال کو شکوہ ہے کہ اس کا پیغام
خود گری، خود شکنی، خود نگری کا اعلام
وہی میثاقِ ازل، قوتِ بیدار کانام
خاک سے جس کی اٹھا کرتے ہیں قوموں کے امام
بوذری جس کو کہیں یا کہیں غفاری مقام
جو کسی قم کو مل جائے تو پھر اس کیلئے
کوئی حاجت نہیں رہتی ہے کسی نعمت کی
اسے ملتا ہے وہ سرمایہء نایاب جسے
اہلِ حکمت کہا کرتے ہیں طلاء عظمت کی !

اب نہ اقبال دلوں میں نہ خودی باتوں میں
دام ہیں حرص کے صیاد چھپے گھاتوں میں
اب نہ احساس زیاں باقی نہ فردا کا خیال
قوم بیہوش و بد اندیش ہے، بد مست، بدحال

اب سبھی ڈوبے ہیں پندار کی میخواری میں
منہ پہ اسلام ہے دل خوار ہیں زناری میں
اب تو لگتا ہے اگرصور بھی پھونکا جائے
عین ممکن ہے ہمیں ہوش نہ جب بھی آئے !

اقبال بھی یہی گلہ کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے تھے کہ
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں!
اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم بھی صدا بہ صحرا ہوئے جارہے ہیں لیکن ہماری قوم ہے کہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے اور بے حسی میں اسے کوئی احساس نہیں کہ ایک اور بنگلہ دیش دستک دے رہا ہے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button