ہفتہ وار کالمز

کرپشن کیسے پروان چڑھی؟

پاکستانیو! ہمارا ملک جو کہ جنت کی نظیر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ کیوں جہنم کی تصویر بنتا دکھائی دیتا ہے؟ کیا ہمارے پاس قدرت کا ہر تحفہ موجود نہیں ہے؟ اونچے پہاڑ، گلیشیر، وادیاں، دریا، صحرا، سمند ر، میدانی علاقے، ہر طرح کے پھل، پھول اور نباتات، اور 25کروڑ لوگ جو دنیا کے اور ملکوں میں جا کر انتہائی جان فشانی سے اور ایمانداری سے کام کرتے ہیں، اپنے ملک میں کام کر کے کیوں نہیں اس کو جنت نظیر بنا سکتے؟ اس لیے کہ انہیں ایماندار اور محنت کرنے والے قائدین نہیں ملے۔ان پر کرپٹ حکمرانوں نے ستر سال حکومت کی۔ ان میں سول اور ملٹری دونوں شامل تھے۔ قْدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں رقمطراز ہیں کہ’ رشوت دینے کا رواج انگریزوں کے دور میں پڑ گیا تھا ‘، پاکستان میں اس کو دن دگنی رات چوگنی افزائش ملی۔ سب سے پہلے پولیس کا ادارہ اس کی آماجگاہ بنا۔ پولیس کے بڑوں نے کہا کہ اگر ہم پولیس کی تنخواہ نہیں بڑھا سکتے تو ان کو کسی طرح گذارہ تو کرنا ہو گا؟ ۔ پاکستان میں کرپشن کے احیاء پر ایک سابق پولیس کے انسپکٹر جنرل، مرحوم محمود علی خان چودھری، کی سوانح عمری ’’ان تمام برسوں کے بارے میں‘‘(Of All Those Years) جو 1906ء میں شائع ہوئی، سے پڑھئے، جسے کہہ سکتے ہیں ’’”From the Horse’s Mouth، پاکستان کی شروعات سے پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے قائدین نے کیا کیا گل کھلائے۔پاکستان کے بانی قائدین، جیسے قائد اعظم، خان لیاقت علی خان، ملک فیروز خان نون، سہروردی، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، آئی آئی چندریگر، یہ سب جب ریٹائر ہوئے تو ان کے نام نہ کوئی بڑی دولت تھی اور نہ جائدادیں۔ان پر کبھی بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا تھا۔ ان کو اقتدار میں بٹھانے والی نوکر شاہی تھی، اس لیے سوائے چوہدری محمد علی کے کسی نے جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔باقیوں نے نوکر شاہی کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دی۔نوکر شاہی اس قدر بے قابو ہو گئی تھی کہ ایوب خان کی ریٹایرمنٹ کو بار بار ملتوی کر دیا جاتا تھا۔ اور جب 1958ء میںعام انتخابات کا وقت آ پہنچا، تو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا۔ایوب خان جس کا ایک چھوٹا سا گھر ایبٹ آباد میں تھا، اس نے بڑی بڑی جائدادیں بنا لیں۔اس کے بچوں نے بھی جنہوں نے فوج میں معمولی عہدوں پر کام کیا تھا۔اس کے ایک داماد نے جو بطور میجر ریٹائر ہوا تھا، گرینڈ ٹرنک روڈ پر چونگی بنا کر ہر آنے جانے والے بجری کے ٹرک سے جعلی محصول لینا شروع کر دیا۔جب ایک معززشہری فاروق شیح نے ہزارہ کے قریب سیمنٹ کی فیکٹری بنائی تو میجر صاحب نے اسے اونے پونے پر خریدنے کی پیشکش کر دی۔ اس نے جب بیچنے سے انکار کیا تو اس پر کئی قسم کے فوجداری مقدمات بنا دیئے۔ جب وہ اپنی فریاد لیکر ایوب خان کے پاس گیا تو اس کو جھاڑ پلا دی گئی۔
جب فوجی افسروں نے ایوب کے کنبہ کو دولت کماتے دیکھا تو سب اس طرف چل پڑے۔ایک نیوی کے کمانڈر نے سب میرین کی خریداری میں خوب کمیشن بنایا، اور ریٹائرمنٹ لیکر کسی غیر ملک میں اس لوٹ کے مال سے گل چھرے اڑانے شروع کر دیئے۔ اس کمانڈر کو پکڑلیا گیا، لیکن وہ سودے بازی کر کے چھوٹ گیا۔اسی روش میں بہت سے سیاستدانوں نے بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لیے جن کو واپس کرنے کی کوئی نیت نہیں تھی۔ جب ان پر نالش ہوئی تو سب ، بغیر کچھ ادا کیے چھوٹ گئے اور بینکوں نے سیاسی مراعات کے بدلے وہ سب قرضے معاف کر دیئے۔
اس لوٹ مار میں سیاستدان کیا اور نوکر شاہی کیا، سب ہی شامل تھے۔ایک عہد کی لوٹ مار دوسری نسل کو شان و شوکت کے ساتھ دکھائی جاتی تھی۔ یہ طریق کار اتنا بڑھا کہ اب یہ اور مضبوط اور زندگی کا طریقہ بن چکا ہے۔بین الاقوامی سطح پر پاکستان ، کرپشن میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ زیادہ دیر کی بات نہیں کہ ایک با اثر امریکن جریدہ نے دنیا کے سب سے بڑے دولتمندوںکی فہرست چھاپی، جس میںپاکستانی فوج اور نیوی کے جرنیلوں کے نام تھے۔ 1965کی جنگ میں ہم اس عزم کے ساتھ لڑے کہ آخری گولی اور آخری سپاہی۔ اور1971ء کی جنگ میںہم اپنی خندقوں میں دبک کر بیٹھے رہے اور بھارتی فوجی مزے سے پاس سے گزر تے ڈھاکہ پہنچ گئے۔
بطور ایک ادارے کے پاکستا نی فوج کو بڑے پیمانے پر صنعتی ادارے بنانے سے کافی نقصان پہنچا ہے، جیسے کہ بینک، اورجائداد کی خرید و فروخت۔ ان کاروباروں سے لازماً فوجی پیشہ ورانہ کی اعلیٰ صلاحیتوں پر برا اثر پڑے گا ، جو بطور ایک ٹیکس دہندہ پاکستانی کیلئےلمحۂ فکریہ ہے۔ تازہ ترین فوجی جرنیلوں کا حکومت پر قبضہ کرنے سے بہت پہلے میں ریٹایئر ہو چکا تھا اس لیے مجھے نئے حالات کا ذاتی مشاہدہ نہیں ہے۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ عدالتی فیصلہ کہ’ مارشل لاء وقت کی ضرورت ہے بے معنی ہے اور جمہوری عمل کو ختم کرنے کے لیے جائز نہیں، خواہ اس میں جمہوری قیادت، صدر، وزیر اعظم ، پارٹی یا گروہ نے کوئی بھی غلطی کی ہو۔
یہ مارشل لاء کو جائز نہیں بنا سکتی۔بالآخر، ایسے افراد کو ان کے جرائم کیلئے کئی طریق کار موجود ہیں ، پارلیمان میں،اعلیٰ عدالتوں میں ۔ ہمارا آئین ان جرائم پر سزا دینے کی شق رکھتا ہے۔آئین تھوڑی مدت کے لیے، ہنگامی حالت کو سنبھالنے کے لیے، حکومت کو اپنی امداد کے لیے فوج کو بلانے کی اجازت دیتا ہے مگر یہ مدت معینہ ہوتی ہے۔ اگر فوج اس مدت کے بعد بھی ڈٹی رہے تو یہ بلا شبہ ایک نا جائز قبضہ کہلائے گا۔
اب یحییٰ خان کی مثال لے لیں، کے اس نے 25مارچ 1969ء سے لیکر 20مارچ 1971 تک جو حکامات جاری کیے، ان کی بنیاد شہری فتنہ فساد سے نہیں تھی۔در حقیقت اس کے جانے کے فوراً بعد امن بحال ہو گیا تھا۔مارشل لاء در حقیقت عوام کو بھکاری اور ملک کی عزت دو کوڑی کی کر دیتا ہے۔ بیرونی دنیا میں ملک کا وقار ختم ہو جاتا ہے۔ ضیا الحق جو اپنے آپ کو بڑا دیندار کہتا تھا، اس نے اپنی ذات کو کیسے عریاں کیا؟ جب اس نے پوری قوم کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ قران کی قسم کھا کر حلفیہ کہتا ہوں، کہ میں90دن کے اندر نئے انتخابات کروائوں گا اور چلا جائوں گا۔ اور کہا ،وہ کسی حال میں بھی اس زیادہ ایک دن بھی نہیں ٹہریں گے۔ اور اس کے بعد وہ گیارہ سال تک حکومت سے چپکے رہے اور تب ہی گئے جب موت نے ان کو آ لیا۔ضیاء نے اپنی وہ داستان رقم کی جسے مذہب کے نام پر دہشت گردی کو اپنا لیا گیا۔ یہ بھی ضیا ءہی تھا جس نے پاکستانیوں کو منشیات اور کلاشنکوف کا رواج دیا۔اور روسیوں کے خلاف لڑنے کے لیے طالبان کو پیچھے چھوڑ گیا۔ اور اس کے نتیجہ میں انتہا پسند مذہبی بنیاد پرستی فوج کی صفوں میں دور تک پھیل گئی۔ اور آخر میں اس نے ایم کیو ایم کی شکل میں ایک ایسی پارٹی پیچھے چھوڑی جس کی وجہ سے کراچی میں اتنا قتل و غارت ہوا جسے کوئی حکومت نہیں دبا سکی۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ سب (فوجی جنرل) خود ساختہ مسیحا بن کر آتے ہیں، اور کسی فرضی مصیبت، یا تکالیف کا طوفان، یا کسی چھوٹے سے واقعہ سے نبٹنے کی اور اپنی آنے کی وجہ بنا لیتے ہیں۔اور پھر بیرکوں میں واپس جانے کا راستہ بھول جاتے ہیں۔عمدہ زندگی کے مزے اور نئی ذمہ واریاں، اور طاقت کا اپنا مزہ ہوتا ہے جو انہیں نئی کرسی سے چپکا دیتا ہے۔دوسری طرف، بار بار کے مارشل لاء نے آئینی اداروں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔عدلیہ بجائے اپنی آئینی حیثیت کو بحال کرنے کے ماشل لاء کو جائز کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے۔پولیس کرپشن میں ڈوب جاتی ہے۔اورسول انتظامیہ بد دل ہو کر غیر موثر ہو جاتی ہے۔(بلکہ وہ بھی بد عنوانیت کے سیلاب میں شامل ہو جاتی ہے۔راقم)۔ سہارے کی تلاش میں جرائم سے پردہ پوشی، اور سیاسی ہیرا پھیری ، حکمت عملی کی بنیاد ہی بر باد کر دیتی ہیں۔ پاکستانی جیسے بھی ہیں، وہ اتنے ماشل لاء کے با وجود اس حکومتی نظام کو پسند نہیں کر سکے ہیں۔یہ لوگ جو ملک کے محافظ بھی ہیں اور ان کے حاکم بھی، یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔‘‘
اگر پاکستان کی تاریخ اور حکومتی رد و بدل کی نوعیت کو سمجھنا ہو تو ایم اے کے چودھری کی کتاب اس کا ایک لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ اس میں وہ باتیں لکھی ہیں جو ایک ایماندار پولیس اہلکار نے اپنے ذاتی مشاہدوں سے ترتیب دی ہے۔ اس میں بہت سے انکشافات بھی ہیں اور راز بھی۔اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری سالوں میں، جب چودھری صاحب بھارت کی جنگی قید سے نکل کر آئے تو وہ بھٹو کے مداح ہو گئے۔ یہ قدرتی بات تھی۔ کیونکہ بھٹو ہی ان                92 ہزار قیدیوں کو بھارت سے چھڑوا کرلایا تھا۔اس فدوی کی رائے میں، انہیںیہ بات بھی سوچنی چاہیے تھی کہ اولاً مشرقی پاکستان کا سانحہ کس کی وجہ سے ہوا تھا؟ کیا وہ بھٹو نہیں تھا جس نے مجیب سے کہا تھا کہ ادھرہم، ادھر تم، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو اور فوج نے ملکر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ کیا اس کی پشت پر بڑے بھائی یعنی امریکہ بہادر کا ہاتھ تھا، یہ بھی ایک توجیہ ہو سکتی ہے، لیکن اس صورت میں بھی اصل قصور تو انہی کا تھا جنہوں نے ملک سے غداری کی۔ جسٹس حمود الرحمنٰ کی رپورٹ نے تو نام لے لے کر فوج کی ذمہ واری ٹہرائی تھی، لیکن کسی ڈر کے مارے بھٹو کا ذکر نہیں کیا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ کے نتیجہ میں کسی جنرل کو سزا نہیں دی گئی۔ زیادہ سے زیادہ کچھ کو ریٹائر کر دیا گیا۔
کرپشن جسے پیار سے بد عنوانیت کا نام دیا گیا ہے، ایک ایسا ناسور ہے جو اب معاشرے میں ہر طرف پھیل چکا ہے۔ عوام الناس کیا اور خواص کیا، سب ہی اس کو حکومت کے ساتھ کام کرنے کی ایک ضروری شرط سمجھتے ہیں۔ اس میں برائی بھی کیا ہے؟ تھوڑے سے پیسے دیکر پولیس والا آپ کا چالان نہیں کرتا، آپ پر چوری ، ڈاکا ، حتیٰ کہ قتل کا بھی الزام ہو تو صرف رقم میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے اور آپ جیل جانے سے بچ جاتے ہیں۔ لیکن گھبرانے کی بات نہیں ۔ اگر مقدمہ بن بھی جائے تو آپ بجائے اچھا وکیل کرنے کے اچھا جج کر لیتے ہیں، صرف رقم زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کا انتظام بھی وکیل اور اس کا منشی کروا دیتے ہیں۔ اب اگر آپ کو کچھ لوگ جیلوں میں نظر آتے ہیں تو یہ بنیادی طور پر نادار اور مفلس ہوتے ہیں۔ پیسے والوں کو اس نوبت تک نہیں پہنچنا پڑتابد عنوایت تو اس قدر عام ہے کہ ہر حکومتی دفتر سے چھوٹے سے چھوٹا کام اور بڑے سے بڑا کام مناسب نرخوں پر مٹھی گرم کر کے کروایا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنی اینٹھ میں یا بے خبری میں مٹھی گرم نہیں کرتے تو آپ کی فائلیں مٹی اور گرد سے ڈھنپتی جاتی ہیں۔بڑوں، بزرگوں کا کہنا ہے کہ بھائی ۔ اگر فائل کو چلانا ہے تو اس کو پہیے تو لگانے پڑیں گے۔ گول گول سکوں کے۔
ایک رہبر ملک میں ایسا آیا جس نے اس مسئلہ کو نہ صرف سنجیدگی سے لیا، بلکہ اسے اپنی سیاسی جماعت کا منشور بنا لیا۔ یہ بڑی خطرناک بات تھی، بد دیانتوں کے لیے۔ انہوں نے جو اوپر کی آمدنی سے دولت کے انبار اکٹھے کیے ہوئے تھے اور راستے بنائے ہوئے تھے، وہ ختم ہوتے نظر آئے۔ اس میں نہ صرف حکام، سیاستدان،نوکر شاہی، اور ہر ادارہ ، بشمول عدلیہ، کو خطرات منڈلاتے نظر آئے۔ تو اس کا علاج کیا تھا؟ ایسے خطرے کو کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے اور اس کی چابی دریا میں ڈال دی جائے۔انصاف گیا بھاڑ میں۔ بلکہ کیوں نہ منصفوں کو حکومت کے تابع کر دیا جائے۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔ چنانچہ، ایسا ہی کیا گیا۔پہلے تو جعلی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا اور پھر اس سے ہر وہ کام کروایا گیا جو قاعدے اصول سے نہیں ہو سکتا تھا۔ پاکستان، دھاندلستان بن گیا۔اب جب تک عمران خان سیاست سے توبہ نہ کر لے، اور آئندہ کے لیے کانوںکو ہاتھ نہ لگا لے، وہ کال کوٹھری کی زینت بنا رہے گا۔ اس کی بہنیں اور بیگم کیا سیاسی وفادار مرد و ز ن بھی، بے قصور جیلوں کی زینت بنے رہیں گے۔ طاقت کا نشہ بھی کیا چیز ہے؟
نواز شریف اور اس کے کنبہ نے ہمیشہ رشوت خوروں کی پشت پناہی کی جن میںپٹواری سر فہرست تھے۔ اسی لیے زرداری جسے مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ ان کا خوب ملاپ ہوا۔ ایم کی ایم کا منشور سادا سا ہے۔ جو حکومت بنے اس میں شامل ہو جائو۔ چنانچہ بھان متی کا کنبہ باوجود انتخابات ہارنے کے جعلی ووٹوں سے حکومت بنا بیٹھا ہے۔ ان کو حکومت میں بٹھانے والے جب چاہیں گے انہیں دودھ کی مکھی کی طرح باہر نکال پھینکیں گے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button