ہفتہ وار کالمز

صدر ٹرمپ کے کارنامے!

پہلے ، پاکستان سے گرما گرم خبر آئی ہے کہ نواز شریف اور ان کا کنبہ بیلاروس کی سیر کو گیا جہاںوہ وہاں کے صدر الیکزینڈر لوکا شنکو سے ایسے گلے ملے کہ جیسے برسوں کے بچھڑے رشتہ دا ر ہوں۔ یہ درست ہے کہ ان لوگوں کا آپس میں ملنا جلنا ہے۔کبھی لوکا شنکو پاکستان آ جاتے ہیں اور کبھی یہ وہاں چلے جاتے ہیں۔ دونوں کرپشن کے بادشاہ ہیں۔ پاکستان اور بیلا روس کی تجارت بھی ہے۔ اب تو لوکا شنکو نے پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ ہنر مند کارکنوں کو بلانے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ وہاںمزدوروں کی خاصی کمی ہے۔پورے کنبہ کا وہاں جانا کچھ اور معنی بھی رکھتا ہو گا۔ سیر و تفریح کے علاوہ، اس کا ہمیں پتہ نہیں۔ قیاس آرائی تو کی جا سکتی ہے کہ بیلا روس ایک چُھپا ہوا ملک ہے جہاں آسانی سے نہیں آیا جاتا۔اگر ان صاحبان نے اپنی اربوں کی دولت لیکر کہیں چھپنا ہو تو بیلا روس سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو گا، وہاں جو پاکستانی آئیں گے وہ ان کے زیر احسان ہوںگے۔امریکہ ، برطانیہ اور مغربی یو رپ میں تو ان لوگوں کو سر چھپا نے کی جگہ نہیں ملتی۔ خیر ، شریف کنبہ جانے اور لوکو شنکو جانے۔
البتہ،اصل خبر تو امریکہ سے ہے۔امریکہ کے نئے صدر نے جب حکومت سنبھالی تو انہوں نے کہا کہ وہ تمام جنگوں کو بند کروائیں گے۔ اس سے ان کی مراد روس اور یو کرائین کی جنگ تھی۔ ورنہ غزا میں تو اسرائیل روزآنہ کی بنیاد پر ابھی بھی حملے کر رہے ہیں اور سینکڑوں بچے، عورتیں اور مرد ہلاک ہو رہے ہیں۔ اورجس جنگ کا کہیں ذکر نہیں تھا وہ تھی محصولات کی جنگ جو صاحب صدر نے بیک وقت تمام دنیا سے چھیڑ دی۔ صاحب صدر کو غصہ اس بات کا تھا کہ دوسرے ملک جب امریکہ سے چیزیں خریدتے تھے تو ان پر اچھا خاصا محصول لگا دیتے تھے۔ لیکن جب وہ امریکہ کو چیزیں بیچتے تھے تو امریکہ ان پر ہلکا سا محصول لیتا تھا۔ اس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ ایسا کرنے سے امریکی صارفین کو سستی چیزیں مل جاتی تھیں اور افراط زر کم رہتا تھا۔اس پالیسی کے کچھ دوسرے پہلو بھی تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ میں ان سستی درآمدات کی وجہ سے، مقامی صنعتیں آہستہ آہستہ کم ہوتی گئیں۔ ان کے بند ہونے سے ان میں کام کرنے والوں میں بے روزگاری بڑھنے لگی۔ادھر سے ،امریکہ کی جنوبی سرحد سے غیر قانونی کارکنوں کے غول کے غول آنے لگ پڑے۔گذشتہ حکومت کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں لاکھوں میکسیکن، اور دوسری ریاستوں سے کام کرنے والے آئے۔ اور چونکہ ان کے پاس گرین کاڑد نہیں ہوتے تھے تو بڑی کم اُجرت پر کام کرتے تھے۔یہ ملک میں یہ افراط زر میں کمی کی ایک اور وجہ تھی۔ امریکی حکومتیں اس صورت حال سے بڑی خوش رہتی تھیں۔ مسئلہ ان امریکیوں کا تھا جو مقامی صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار تھے اور ان غیر قانونی کارکنوں کی وجہ سے ملازمت نہیں کر سکتے تھے۔
چنانچہ جب حضرت ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ انتخاب کی ٹھانی تو انہوں نے ان مزدور یونینز سے وعدہ کیا کہ وہ پہلے تو ان سب غیر قانونی لوگوں کو ملک بدر کریں گے۔ اس کے بعدوہ جتنی سستی درآمدات امریکہ میں آتی ہیں، ان پرمحصول بڑھا دیں گے، جس سے ان اشیاء کی قیمت خوب بڑھے گی جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکن صنعت کار وہی اشیا ملک میں بنانی شروع کر دیں گے، اس طرح امریکن عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ اور بیروزگاری کی شرح کم ہو جائے گی۔یہ ،معاملات کئی سالوں سے چل رہے تھے۔امریکن صنعت کاروں نے امریکہ مزدور کی بڑھتی ہوئی اجرت کو دیکھتے ہوئے اپنی صنعتیں یا تو میکسیکو اور کینیڈا میں لگا لیں یا اپنی مصنوعات، چین، ویت نام، بنگلہ دیش،بھارت،ملائشیا، اور دوسرے مشرقی ایشیا کے ممالک میںبنوانی شروع کر دیں۔ان ممالک میں مزدور نسبتاً بہت کم اُجرت پر کام کرتے تھے۔وہی سامان پھر امریکہ میں لا کر فروخت کیا جاتا تھا۔اور ناچیز کا خیال ہے اسی وجہ سے امریکہ ان درآمدات پر کم محصول لگاتا تھا۔
یہ تو ایک نہایت سطحی اور سادہ سا پس منظر ہے۔لیکن اندر کی کہانی زیادہ پریشان کن دکھائی دیتی ہے۔ امریکن ٹی وی کی ایک مشہور اینکر، ریچل میڈو کا کہنا ہے، کہ ’’ در حقیقت معاملہ کچھ ایسا ہے، کہ محصولات کا خیال ٹرمپ کو اپنی پہلی صدارت میں آیا تھا جب اس کے پاس کوئی اقتصادیات کے مشیر نہیں تھے۔ تو اس نے اپنے داماد جیرڈ(جو اسرائیل کا وفادار ہے) سے کہا کہ وہ کسی اچھے ماہر اقتصادیات کا بتائے۔اس نے جیرڈ کو ان معاملات پر اپنے کچھ خیالات بتائے۔جیرڈ کسی ماہر اقتصادیات کو ڈھونڈنے کے لیے ایمیزون کی ویب سائٹ پر گیا اور کتابیں دیکھنی شروع کیں۔اس نے کتابیں پڑھنے کے بجائے صرف کتابوں کے سر ورق دیکھے، ایک کتاب جو اس کو بہت پسند آئی وہ تھی ’چین کے ہاتھوں ، موت‘۔ اس کا مصنف تھا پیٹر ناوارو۔ جو تجارتی خصارے کا ایک بڑا نقاد تھا۔ناوارا ٹیرف پر بہت سخت رویہ رکھتا تھا۔ اس کا استاد تھا وان نویرا، (جو در اصل وہ خود ہی تھا)۔چنانچہ جب ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوا تو وان نویرا نے اپنا محصولات کا فلسفہ بڑھانا شروع کیا۔در حقیقت وان نویرا نام کا کوئی شخص نہیں تھا، یہ پیٹرناوارا ہی تھا جو محصولات کے ذریعے تجارت کا حامی تھا۔تو یہ ہی وہ وجہ تھی کہ ٹرمپ نے ساری دنیا پر محصولات کا کوڑا برسانا شروع کیا۔اور یہی وہ وجہ ہے کہ اس کی پالیسی کی وجہ سے امریکہ کا چھ کھرب ڈالرنقصان کروا بیٹھا ہے۔(جو سٹاک مارکیٹ کے ڈوبنے سے ہوا)۔جو ۲۰۰۸ء جیسے عظیم خسارے کے برابر ہے۔یہ نقصان اکیلے ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے دماغ کا نتیجہ ہے۔‘‘۔ قطع نظر اس سے کہ ٹرمپ کو بجائے اپنے داماد کے امریکہ کی کسی اچھی یونیورسٹی کے پروفیسر سے مشورہ کرنا چاہیئے تھا، اس نے اتنے بڑے فیصلہ کو ایک نا تجربہ کار نوجوان کے مشورے پر کیا۔
ان محصولات کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ، ہم میں سے اکثر پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ جب وہ باہر سے گاڑیاں منگوانا چاہتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ اگرگاڑی 1300سی سی کی ہے تو اس پر محصول کم تھا لیکن اگر اس سے زیادہ کی تو اس پر محصول سو فیصد تک تھا۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے صرف بہت مالدار لوگ ہی ایسی گاڑیاں خریدتے تھے۔امریکہ میں اس محصول کی شرح بہت معمولی تھی۔ جیسے کے اوپر ذکر ہو چکا۔ امریکہ کی تجارت سے ، اگر سچ پوچھیں تو دنیا کی معیشت چلتی ہے۔ کروڑوں لوگ ایسی صنعتوں میں کام کرتے ہیں جنکی پیدا واربروآمد ہو کر امریکن صارفین تک پہنچتی ہیں۔ آج کی دنیا میں اکثر اشیاء کسی ایک جگہ پر نہیں بنتیں بلکہ ان کے حصے ، پرزے کئی ملکوں اور شہروں میں بنتے ہیں۔ اگر کوئی کار یا ٹرک امریکہ میں بنتا ہے تو اس کے انجن کہیں سے آتے ہیں، سیٹیں کہیں سے، ٹائر کہیں سے اور پرزے کہیں سے۔یہی حال بڑے بڑے اپلائینسز کا ہے۔ آج کی صنعت کاری انتہائی پیچیدہ ہو چکی ہے۔ مثلاً جو سامان گھر بنانے میں درکار ہوتا ہے وہ بھی دنیا کے کئی ملکوں سے آتا ہے۔مثلا سینیٹری فٹنگس اور ٹائیلیںاٹلی سے، یا برازیل سے، پلمبنگ کا سامان چائینا سے، بجلی کا سامان چین اورانڈونیشیا سے، وغیرہ ۔ یہ صورت حال خاصے گھمبیر حالات پیدا کر دیتی ہے جنہیں آسانی سے قابو نہیں لایا جا سکتا۔یہ ایسے ہی کہ آپ ملائشیا کی برآمدا ت پر محصول دوگنا کر دیں تو امریکہ میں کمپیوٹر مہنگے ہو جائیں۔
محصول ہے کیا؟ یہ بظاہر تو حکومت کے مالیہ کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے، لیکن اس کے مضمرات کا اثر اس پراڈکٹ کے صنعت کاروں پر پڑتا ہے، جن کی پراڈکٹس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ صنعت کار کو محصول کی رقم کو اپنی اشیاء کی فرخت سے نکالنی پڑتی ہے۔جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو صارف کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس چیز کی مانگ کم ہو جاتی ہے۔تو بالآخر حکومت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔کیونکہ اس کو ٹیکس کم ملتے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ محصولات کی حکمت عملی کے اثرات سمجھے بغیر ان کو کم کرنا یا بڑھانا ،غٖیر یقینی حالات پیدا کر سکتا ہے۔یہ حکمت عملی اگر پوری طرح سمجھے بغیر بدلی جائے تو وہ اندھے کی لاٹھی کی طرح ہو گی جو کہیں بھی پڑ سکتی ہے۔اس کے بجائے دوسروںکو نقصان ہو، خود کو ہو سکتا ہے۔
ایک اور مصنف میٹ ویلچھ نے Reason نامی ماہنامے میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے جب محصولات (tariffs) کا ذکر کیا تو سابق امریکی صدر میکنلی کی حکمت عملی کی مثال دی۔اس کی وجہ سے ہمارا ملک اتنا دولتمند ہو گیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ کہ امریکہ کو ۲۵ ویں صدر نے ٹیرفس کے ذریعے ملکی صنعتکاری، ملکی پیداوار میں اضافہ، اور ساری دنیا میں پہنچنے کا راستہ بنایا۔اور اس کے 12دن بعد اس نے کینیڈا اور میکسیکو سے آنے والے سامان پر 25فیصد محصول لگا دیا۔لیکن اس حکمت عملی کے مضر نتائج نکلے۔ امریکن صنعت کاروںکی اضافی پیداوار کو برآمد کرنے کا مسئلہ بن گیا۔اور اس کی ناکامی نظر آنے لگی اور ایک دن اسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔
محصول در اصل ان لوگوںکو دینا پڑتا ہے جو درآمد کردہ چیز کو خریدتے ہیں۔ اور ملتا حکومت کو ہے۔یہ ایک طرح کا ٹیکس ہے جو باہر سے آنے والی اشیاء پر دیا جاتا ہے، اور حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔صدر ٹرمپ نے ان ملکوں پر سب سے پہلے محصول لگایا جن سے امریکہ سب سے زیادہ درآمدات کرتا تھا۔ مثلاً امریکہ سب سے زیادہ تجارت کینیڈا کے ساتھ کرتا تھا جہاں سے کاریں آتی تھیں۔ 2022 میں درآمدات کی کل مالیت 428 بلین ڈالر تھی۔ اس کے بعد میکسیکوجہاں سے ریفائینڈ پٹرولیم کی درآمد سب سے زیادہ تھی کل درآمدات کا حجم 362بلین تھا۔ لہٰذاٹرمپ کا محصولات کا نزلہ سب سے پہلے کینیڈا اور میکسیکو پر گرا جن پر 25فیصد محصول لگا دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکنوں کو کینیڈا سے آنے والی مصنوعات پر 25فیصد محصول دینا پڑے گا۔ اور اسی طرح میکسیکو سے آنے والی چیزوں پر۔ ٹرمپ نے فی الحقیقت محصول لگایا اس سے سب سے زیادہ ان امریکی کمپنیوں کو نقْصان پہنچے گا جو کینیڈا اور میکسیکو میں کا م کرتی ہیں۔تیسرے نمبر پر چین ہے۔ جہاں سے امریکہ نے2022ء میں 196بلین ڈالر کی اشیاء درآمد کیں ۔ ان میں ہر قسم کی اشیائےصرف تھیں خصوصاًکپڑے اور جوتیاں۔ چین کو یہ اچھا نہیں لگا۔ اس نے چین میںآنے والے درآمدات پر محصول بڑھا دیا جو اب تک غالباً 84 فیصد ہو گیا ہے اور امریکہ نے چین سے آنے والی درآمدات پر 145فیصد محصول عائد کر دیا ہے۔ یہ جنگ، ظاہر ہے، دونوں ملکوں کو مہنگی پڑے گی۔قیمتیں بڑھنے کا لازمی نتیجہ مانگ میں کمی ہو گی اور اس سے صنعتوں کی پیداوار کم کرنی پڑے گی جس سے دونوں ملکوں میں بے روزگاری اور افراطِ زر بڑھیں گے۔امریکہ کے ساتھ دوسرے ملک جو بڑے پیمانے پر اشیاء اور خدمامت مہیا کرتے ہیں، وہ ہیں برطانیہ، جاپان، جرمنی، آئیر لینڈ، سوئٹزر لینڈ ، نیدر لینڈ اور کوریا ہیں۔پھر ٹرمپ نے سب ملکوں کی درآمدات پر کم از کم دس فیصد محصول لگایا،اور کچھ ملکوں پر زیادہ جن کے ساتھ تجارتی خسارہ زیادہ تھا۔یہ پالیسی اندھے کی لاٹھی کی طرح تھی اور اس کے اثرات سب سے پہلے اور نمایاں سٹاک مارکیٹ پر ہوئے اور چند دنوں میں، کھربوں ڈالر جیسے ہوا میںتحلیل ہو گئے ہوں۔یہ دیکھ کر ٹرمپ بہادر نے جو ساری دنیا پر محصول تھوپ دئیے تھے ان کو ۹۰ دن کے لیے روک دیا، جس سے سٹاک مارکیٹ میں کچھ بہتری آئی۔امید ہے کہ ان ۹۰ دنوں میں صاحب صدر کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے اور ان محصولات کی حکمت عملی پر نظر ثانی کر دی جائے گی۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button