
بچپن سے ماں باپ اور مدرسہ کے اساتذہ نے یہی تعلیم دی تھی کہ، میاں، ہر کام کرنے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ اس کا نتیجہ یا نتائج کیا ہونگے، اسلئے کہ ہر عمل کا ردِ عمل لازمی ہوتا ہے!
لیکن ایک تو ہر ماں باپ اپنے بچے یا بچوں کو یہ تلقین نہیں کرتے اور ضروری نہیں کہ ہر مدرسہ میں استاد اور اساتذہ اتنے زیرک اور دور رس ہوں کہ اپنے سائے میں تعلیم پانے والے طالبعلموں کو یہ تعلیم دے سکیں!
تعلیم اور تربیت کی کمی کا نتیجہ تو ایک دنیا اپنے ہوش ہو حواس میں دیکھ رہی ہے کہ ایک جنونی، بمبئی اور کراچی کی زبان میں، محلہ کا دادا دنیا بھر کو کس طرح اپنے جنون اور اپنی دادا گیری سے پریشان کئے ہوئے ہے اور ستم ظریفیء حالات یہ ہے کہ اس دادا گیر کے ہاتھ میں وہ طاقت آگئی ہے کہ جسے جمہوریت کا منظر نامہ ترتیب دیتا ہے اور ایک منتخب صدر کو اپنی رضا اور پسند سے دنیا بھر کے اختیارات سونپ دیتا ہے !
برطانیہ کے بیسویں صدی میں سب سے بڑے دانشور اور ڈرامہ نگار، جارج برنارڈ شاء کا ایک قول ہے، اور اس قول کی صداقت پر آج ایک دنیا ایمان لانے پر مجبور ہوگئی ہے، کہ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں عوام چند لوگوں کو اپنا نمائندہ چن کے انہیں ایک غبارےمیں بٹھادیتے ہیں اور پھر وہ غبارہ ہوا میں ایسا بلند ہوتا ہے کہ چار پانچ سال کے بعد ہی زمین پر واپس آتا ہے !
دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا نظام صدارتی ہے تو اس میں جمہور اپنی پسند سے ایک شخص کو منتخب کرلیتے ہیں اور وہ ان کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے، ان کی تقدیر کے فیصلے صرف وہی تحریر کرتا ہے۔
تو سامراج کے بظاہر باشعور لیکن در حقیقت عقل و خرد سے نابینا اور محروم لوگوں نے ایک ایسے شخص کو دوبارہ اپنی قیادت کیلئے منتخب کیا جس کا کردار کسی کی بھی آنکھوں سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں وہ دکھا چکا تھا کہ وہ کس کردار کا مالک ہے اور اس کا اپنے بارے میں یہ خیال، یہ گمان ہے کہ وہ زمین پر خدا کا اوتار ہے اور اس حیثیت میں وہ جو فیصلہ کرے گا وہ اس کے ملک کیلئے بہترین ہوگا !
لیکن اب وہی لوگ جنہوں نے اس جنونی دادا گیر کو اپنی صدارت کیلئے چنا تھا انہیں یہ لگ رہا ہے کہ وہ اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے انہیں اور اپنے ملک کو دیوار میں چن رہا ہے !
دنیا میں ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک اس دادا گیر کے کرتوت سے گویا آگ لگی ہوئی ہے ! دنیا بھر کی منڈیوں میں اسٹاک کا گراف یوں تیزی سے نیچے جارہا ہے جیسے طوفان میں گھر کر کوئی ہوائی جہاز بے بس اور بے قابو زمین کی طرف گر رہا ہو !
لیکن جنونی دادا گیر کو اپنے کئے پر کوئی پشیمانی یا تاسف نہیں ہے۔ وہ تو اب بھی بڑی دھونس سے دنیا بھر کے ملکوں کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں یہ کردونگا اور وہ کردونگا ! یوں لگتا ہے جیسے ایک عقل و خرد سے بیگانہ فرد کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھمادی گئی ہو اور وہ اسی حالت میں،آنکھیں بند، ہر طرف اپنی لاٹھی گھما رہا ہے۔ اسے قطعا” یہ پرواہ نہیں ہے کہ اس کا لاٹھی کی زد میں کون آتا ہے، دوست یا دشمن !
یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بندر کے ہاتھ ادرک لگ گئی ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس ادرک کا کیا کرے !
نہیں، اسے اپنا چوہدری بنانے والے بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اس نے پہلی بار ادرک کے ساتھ کیا کیا تھا، کیا حشر کیا تھا۔ یہ تو معاملہ ہے جانتے بوجھتے زہر کھانے کا۔ تو اصل قصوروار اس آگ لگا نے والے وہ ہیں جنہوں نے اس کردار کے حامل کو اس کا ماضی جانتے ہوئے بھی منتخب کیا۔ یہ وہی بات ہے جو شاعر نے کس سلیقے سے کہہ دی تھی :؎
ؔپہلے سے نہ سوچا تھا انجام محبت کا
اب ہوش میں آئے ہو جب سر پہ قضا آئی!
اب مرحلہ گلہ شکوہ کرنے سے بہت آگے جاچکا ہے۔ جب وقت تھا، موقع تھا، تو جمہور نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ اب ڈور ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے اور پتنگ ہوا میں آزادی سے ڈول رہی ہے۔ کسی کا زور اب اس پر نہیں ہے!
اب یہی امید ہوسکتی تھی کہ دادا گیر اپنے اعمال کے ہولناک نتائج دیکھنے کے بعد ہوش کے ناخن لے گا لیکن وہ تو اس سے بھی انکاری ہے کہ اس کی حرکتیں، اس کی غیر منطقی پالیسیاں دنیا بھر کے حق میں زہرِ ہلاہل بن گئی ہیں۔ وہ تو اب بھی یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس کے اعمال وہ کڑوی گولی ہے جس حلق سے اتارے بغیر مرض سے نجات نہیں ملے گی۔ یہ وہ اپنی افلاطونی اکڑ اور اپنے فرعونی تکبر میں سمجھنے سے قاصر ہے کہ جسے وہ کڑوی گولی کہہ رہا ہے وہ زہر کی پڑیا ہے جو حلق سے نیچے اترتے ہی مریض کو موت کی نیند سلادیتی ہے !
یہ زہر ہمارے وطن مرحوم و محروم کے حق میں بھی اتناد ی ہے جتنا دنیا کے اور ملکوں کیلئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا کی بہت سے معیشتیں اتنی صحتمند ہیں کہ دادا گیر کا پھیلایا ہوا زہر ان کو کمزور تو کرے گا لیکن مار نہیں سکے گا۔
ہماری معیشت تو پہلے ہی ، بقول اس بھانڈ خواجہ آصف کے، آئی سی یو کے وارڈ میں تھی جہاں بقول اس بھانڈ کے دادا گیر نے ترس کھاکے اسے لائف سپورٹ مشین پہ رکھا ہوا تھا۔ اب دادا گیر اگر اپنی رعونت میں اس لائف سپورٹ مشین کو بند کردے تو پھر ہمارا مریض اور جاں بہ لب وطن کہاں جائے گا؟
اس سوال کا جواب تو نہ بھانڈ خواجہ آصف کے پاس ہے، نہ اس کے باس نامی چور شہباز کے پاس ہے اور نہ ہی ان دونوں کے وردی والے آقا، عاصم منیر کے پاس ہے۔
دادا گیر اپنی عالمی طاقت کے جنون میں جو سب کچھ کر رہا ہے وہ ہمارے یزیدی حکمراں، جو اپنی کمیں گاہوں میں چھپے ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں اور ان کی کٹھ پتلیاں ناچتی رہتی ہیں اسی سمت میں جدھر وہ نچانا چاہتے ہیں، اپنی رعونت اور اپنی اکڑمیں کر رہے ہیں۔
ہمارے یزیدیوں کے ذہنوں میں خناس یہ ہے کہ وہ ہر فن مولا ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ اور ان کا جو کام ہے، ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا وہ تو ان کے بس سے باہر ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے دو ،سرحدی صوبوں میں دہشت گردی کی آگ دنیا کی منڈیوں کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے لیکن ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اس آگ کو بجھا سکیں۔
لیکن اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کے سوا انہیں جنونی دادا گیر کی طرح ہر دوسرے کام میں ٹانگ اڑانے کا مرض ہے۔ وہ سیاست میں تو ستر پچھتر برس سے دادا گیری کرتے آئے ہیں اور سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے لیکن اس کے علاوہ اب انہیں ریاست کے ہر شعبہ میں دخل اندازی کا جنون بھی ہوگیا ہے۔
کھیتی باڑی ہمارے جرنیلوں کا تازہ ترین شوق ہے اور اس کیلئے انہوں نے تھل اور چولستان کے صحراؤں میں کھیتی باڑی کیلئے منصوبہ بنایا ہے اور اپنی دانست میں وہ بڑی دور کی کوڑی لیکر آئے ہیں کہ جنگل میں منگل کرینگے!
سو ان کے ایماء پر دریائے سندھ سے ایک دو نہیں چھہ عدد نہریں نکالی جائینگی جو ان ریگستانوں کو نخلستان بنادیں گی اور جرنیلوں کے کھیت لہلہائیں گے اور کھلیان بھرے جائینگے اور ظاہر ہے کہ پھر تجوریاں بھرنا تو منطقی نتیجہ ہوگا !
فارم-47 کی کٹھ پتلی حکومت نے ظاہر ہے کہ یزیدی آقاؤں کے فرمان پر صاد کی اور ڈکیت صدر، جو بسترِ مرگ پر ان دنوں ہے لیکن اس نے بقیدِ ہوش و حواس اس منصوبے کی منظوری خوشی خوشی دی تھی یونکہ لگتا ہے کہ جرنیلوں نے اس کا منہ بھر دیا ہوگا۔ اس کا دین دھرم تو کمیشن لینے سے ہے۔ دنیا بھر میں اس کی شہرت اسی حوالے سے ہے !
لیکن سندھ کے عوام اس منصوبے کے نتائج اور عواقب کو جان گئے ہیں کہ نہریں جب ان کے دریائے سندھ پر بنائی جائینگی تو ان کی زمینیں پیاسی رہ جائینگی۔ یہ نہریں ، بقول ان کے، سندھ کے صوبے کو پانی کے قطرے قطرے کا محتاج کردینگی۔
سندھ کے عوام کو ہوش آیا لیکن انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کی نمائندگی کرنے والا ڈکیت ہی ان کے مفادات کا سودا کرچکا تھا۔ اب جب سندھ کے عوام کی صدائے احتجاج بلند ہوئی تو ڈکیت کے برخوردار، بلاول بھٹو، کو ہوش آیا کہ ان کے وردی پوش آقا ان کے ساتھ ہاتھ کرگئے ہیں!
اب معاملہ کچھ یوں ہے، اور سیاست کی بساط کچھ ایسے نظر آرہی ہے کہ صاحبزادے تو عوام کے احتجاج میں ان کے ہمنوا بن گئے ہیں لیکن اس کا جواب وہ لانے سے قاصر ہیں کہ ان کے ہی باپ نے اس منصوبے کی منظوری دے کر اپنے صوبے کے عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے !
بلاول کا بعد از مرگ واویلا تو سمجھ میں آتا ہے اگرچہ اس میں بھی بناوٹ زیادہ اور خلوص کم ہے۔ باپ کا بیٹے پر اثر بہت ہے اور باپ وہ ناگ ہے جس کے کاٹے کا تریاق نہیں۔ سندھ کے عوام بھی سامرجی گڑھ کے باشندوں جیسے ہی ہیں جو ان باپ بیٹے کو ان کا ماضی اور ان کا کردار معلوم ہونے کے باوجود انہیں اپنا لیڈر، اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔ اب اگرکوئی آنکھوں دیکھے زہر کھانے پر آمادہ ہو تو اس کے مرض کا کوئی علاج نہیں ہے !
ہوش کے ناخن لینے کی التجا تو یزیدی جرنیلوں سے کی جاسکتی تھی لیکن وہ بھی اپنے کردار میں جنونی دادا گیر سے کم تو نہیں ہیں!
زراعت کےشوق کو پورا کرنے کیلئے اور تھل اور چولستان کے صحراؤں کو نخلستان بنانے کیلئے وہ بھی سندھ کو ریگستان بنانے میں پس و پیش نہیں کر رہے ویسے ہی جیسے بلوچستان کے عوام کے سیاسی مفادات کو دہشت گردی کے عنوان سے کچلنے کا ان کا ناپاک منصوبہ بجائے خود دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں، پر امن جمہوری طریقے سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن یزیدی طاقت کے زعم میں اسے دہشت گردی کہہ کر بندوق کی گولی کو ویسے ہی استعمال کر رہا ہے جیسے آج سے پچاس برس پہلے مشرقی پاکستان میں کیا تھا اور جس کا نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکلا تھا!
دادا گیر اگر دنیا بھر کو ٹیرف کے استعمال سے زیر کرنے کے جنون میں اندھا دھند حرکتیں کر رہا ہے تو وہیں ہمارا یزیدِ وقت بھی پاکستان کے سیاسی مسائل کیلئے ہارڈ اسٹیٹ کا نسخہ آزمانا چاہتا ہے جب کہ دنیا جانتی ہے کہ اس کے پیشرو، رنگیلے یحیٰی نے جب بندوق کے ذریعہ مشرقی پاکستان کے سیاسی مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہا تھا تو اس کا انجام کیا نکلا تھا!
تو، بس، یہی دعا ہے کہ ہمارے یزید کو سمجھ میں آجائے کہ وہ عمران دشمنی میں اندھا ہوکر ملک و قوم کو کس تباہی کی سمت لئے جارہا ہے۔ اسے ہوش کے ناخن لینے کی شدید ضرورت ہے لیکن ہمیں اس کی بہت کم توقع ہے کہ وہ ہوش میں آجائے گا۔ ہوش میں ایسے دیوانے جب آتے ہیں جب جبرِ حالات ان کے ہوش اڑا دیتا ہے، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے !!