فوج کشی نہیں، سیاسی مفاہمت چاہیے!

ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کو ایک عرصہ دراز سے فوج کی تحویل میں دے دیا گیا ہوا ہے۔ اب جب کے حالات مخدوش ہو گئے ہیں تو میاں شہباز شریف کی حکومت نے کوئی کوشش نہیں کی ، یا کم از کم نظر نہیں آتی ہے کہ معاملات کو سیاسی مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔سب جانتے ہیں اور فوج خود کہتی ہے کہ سیاست سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ بندوق کی زبان جانتے ہیں اور اسی سے بلوچ جوانوں سے بات کرتے ہیں۔کیا میاں برادران بلوچستان کو پاکستان کا جزو نہیں سمجھتے؟ان کے معاملات کو حل کرنے کے پیمانے الگ ہیں اور دوسرے صوبوں کے الگ؟میاں صاحب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پہلے اس حکومت بنانے والوں نے بلوچستان میں جعلی حکمران بٹھا دئیے ہیں، جیسے باقی کے ملک میں۔ انکی حکومت پرلوگوں کو اعتماد ہی نہیں۔صاف ظاہر ہے کہ بلوچ جوانوں کو ان سے کوئی امید بھی نہیں۔اگر کوئی سیاسی حل نکالنا ہے تو میاں صاحب کو خود ہی قدم بڑھانا ہو گا۔لوگ مشرقی پاکستان کی مثالیں دینے لگ پڑے ہیں، لیکن بلوچستان کے حالات بالکل مختلف ہیں۔ جو چیز مشترک ہے وہ سیاسی قیادت اور فوج کا گٹھ جوڑ ہے۔ اس امر کو پہچاننا چاہیے۔ اوراگر سیاسی قیادت بلوچستان کی علیحدگی نہیں چاہتی تو اس کو فوج پر قابو پانا پڑے گا۔اگر فوج کشی کی وجہ سے وہاں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھی ہے تو اس کو سیاستدانوں نے بجھانا ہو گا۔
سب سے اہم بات۔ بلوچستان جل رہا ہے۔ وہاں ایک چھوٹے سے گروہ کی پھیلائی ہوئی چنگاری اب بھڑک اٹھی ہے۔ جسے بجھانے کے لیے ہمارے محافظ تیل چھڑک رہے ہیں۔ وہ ایسے کہ ان کی محبوب اور ہر دلعزیز خاتون لیڈر ماہرنگ بلوچ کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کو رہا کروانے کے لیے سردار اختر مینگل نے آخری وارننگ دی تھی کہ اگر اُسے رہا نہ کیا گیا تو وہ کوئٹہ پر چڑھائی کر دیں گے اور دھرنادیں گے۔
بلوچی حریت پسند جنہیں ہماری افواج دہشت گرد کہتی ہیں، نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر جس وقت ایک سرنگ سے گزر رہی تھی، پٹری کو دھماکے سے اڑا دیا ، جس کی وجہ سے گاڑی کو رکنا پڑا۔ اس میں خبر کے مطابق 450افراد سوار تھے جن میں دو سو فوجی جوان بھی تھے۔الجزیرہ کی خبر کے مطابق بلوچستان میں بس کے مسافروں پر اکثر حملے ہوتے رہے ہیں، خصوصاً ان چینیوں پر جو بلوچستان میںترقیاتی کاموں پر کام کرتے ہیں۔۔لیکن اس سطح کا حملہ غالباً پہلی دفعہ ہوا ہے۔کہتے ہیں کہ حملہ آوروں نے بہت سے مسافروں کو یرغمال بنا لیا اور ان کو چھوڑنے کے بدلے میں اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا جیسا کے ماضی میں کیا گیا۔
اس واقعہ کا پس منظر سمجھنے کی ضروت ہے۔ اسلام آباد میں آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کو امداد دینے کی درخواست پر مذاکرات کر رہا تھا۔ ان مذاکرات میں ، آئی ایم ایف حسب معمول پاکستان کی حکومت کو اخراجات میں کمی لانے کی ہدایت کر رہا تھا۔ یہ سب جانتے ہیں کہ بجٹ میں ، قرضوںکی واپسی کے بعد سب سے بڑا خرچ دفائی اخراجات کا ہوتا ہے، جو دفاعی ادارے شد و مد کے ساتھ کم نہیں ہونے دیتے۔ اکثر ایسے مواقع پر کوئی نہ کوئی دہشت گردی کا واقع ہو جاتا ہے جو حکومت کو بجٹ کم کرنے سے روک دیتا ہے۔عین ممکن ہے کہ بلوچوں کو ٹرین پر حملہ کرنے کا اشارہ ہوا ہو؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس ٹرین میں عام مسافروں کے علاوہ دو سو فوجی جوان بھی سوار تھے، جو یرغمال بن گئے۔کیا یہ فوجی نہتے تھے؟ کیا صرف قربانی کا بکرا تھے کہ اگر بلوچوں نے انہیں قتل کر دیا تو فوج کو ، آئی ایم ایف کو یہ ثابت کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ ان کا بجٹ کم نہیںکرنا چاہیے؟سنا ہے کہ کسی نے دو سو تابوتوں کا انتظام بھی کر دیا تھا۔یہ نا قابل یقین باتیں ہیں، خدا کرے کہ ہمارا تجزیہ غلط ہو۔
سوال تو بنتا ہے۔ہماری فوجی سراغ رساں ایجنسی کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ بلوچستان میں ’دہشت گرد‘ سر گرم عمل ہیں۔ان حالات میں غیر مسلح جوانوں کا اتنا بڑا دستہ بھیجنا کیا معنی رکھتا تھا؟
یہ بھی قابل غور ہے کہ اس حملے کی خبر جب آئی تو کافی دیر کے بعد ہمارے محافظوں کی طرف سے رد عمل آیا اور شہباز شریف کی حکومت کو تو سانپ سونگھ گیا۔اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کو پتہ تھا کہ کیا ہونے والا تھا؟
بہر حال محافظ جائے وقوع پر پہنچ گئے۔اور تین سو یرغمالیوں کو چھڑوا لائے۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کل کتنے افراد مارے گئے؟ اور کتنے ابھی بھی یرغمالیوں کے پاس تھے؟ کتنے فوجی مارے گئے، یہ نہیں بتایا گیا۔خبر میں یہ بتایا گیا کہ نومبر میںٹرین سٹیشن پر حملے میں 26 افراد قتل کیے گئے تھے۔ حملوں کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ بلوچ وفاقی حکومت کی بے اعتنائی اور غیر مساوی سلوک سے تنگ ہیں۔بہت سے لوگ وزیر داخلہ محسن نقوی سے نالاں تھے جنہوں نے ایک نہایت احمقانہ بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان میں تو کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں۔ ایک ایس ایچ او کی مارہے۔
بلوچستان میں وفاق کے خلاف جذبات بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔ وہاں کی حکومت جسے جعلی وزارتیں دیکر بنوایا گیا تھا، بالکل نا کارہ ثابت ہوئی۔ اور شہباز شریف نے سارا معاملہ عسکری قیادت کے حوالے کر دیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ کوئی سیاسی حل تلاش کرنے کا لایٔحہ عمل بناتے۔ عسکری قیادت تو سیاسی حل نہیں تلاش کرتی۔ وہ وہی کرتی ہے جو اس کا کام ہے کہ گولی کا جواب گولے سے دے۔اس سے بلوچ بر انگیختہ ہو رہے ہیں۔ ماہرنگ بلوچ جو ایک خوش شکل، جوان، بے باک بلوچ خاتون رہنما ہیں، وہ جلسے جلوسوں میں ہزاروں حاضرین کو خطاب کرتی ہیں اور ان کو مسحور کیے رکھتی ہیں۔یہی ان کی گرفتاری کا سبب بنا۔بڑی شرم کی بات ہے۔ نوجوان بلوچوں میں اپنے خلاف نفرت پھیلانے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ تھا؟
یاد رہے کہ بلو چستان پاکستان کا سب سے بڑے رقبہ اور سب سے کم آبادی کا صوبہ ہے۔2023کے اعداد و شمار کے مطابق اس کی آبادی پندرہ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔اس کی انتظامی تقسیم کے مطابق اس میں 8ڈویژن اور 35اضلاع ہیں۔اس خطہ کا پھیلائو اتنا ہے کہ یہ ایران، افغانستان اور پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔سوشل میڈیا میںیہ کہانی عام ہے کہ بلوچی آزادی کیوں چاہتے ہیں؟ اس لیئے کہ معدنی لحاظ سے وہ مالا مال ہے ۔ جو مسلح گروہ ہیں وہ ان ذخائر پر زیادہ کنٹرول چاہتے ہیں۔اور سیاسی آزادی بھی۔بارش اور پانی کی کمی کی وجہ سے زراعت کم ہے۔ لوگ بھیڑ بکریاں اور مویشی پالتے ہیں۔ البتہ پھل بکثرت ہوتے ہیں۔آبادی میں دو بڑے گروہ ہیں۔ بلوچ اور پٹھان۔صنعتیں دستکاری اور چھوٹی فیکٹریوں پر مشتمل ہیں۔ تقریباً ہر لحاظ سے آبادی پس ماندہ ہے خصوصاً دوسرے صوبوں کے مقابلے میں۔ یہ بھی ان کی ناراضگی کا ایک سبب ہے۔
دوستو، ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعظم نے کہا،( اللہ کرے کہ یہ ایک جھوٹ ہو )کہ ’’ـمیں تو کمانڈر انچیف کی جوتیوں میں بیٹھنے میں فخر محسوس کرتا ہوں‘‘۔ زیادہ امکان یہ ہی ہے کہ یہ جھوٹی خبر تھی، ورنہ کیسے وزیر اعظم ایسی بات کر تے؟۔ اگرچہ حقیقت اس کے قریب ہی ہے لیکن اس کا بر ملا اعتراف نا قابل یقین ہے۔یہ تو صرف آپ کی تفنن طبع کے لیے تھا۔ معاملہ اس خوش خبری کا ہے جو انہوں نے سات روپے 4.1پیسے فی یونٹ بجلی کے بلوں میں کمی کا اعلان کیا ہے۔ سارے ملک میں خوشی کی لہر کوند گئی ہے۔ نون لیگی ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے نہیں تھک رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اب بجلی کا ایک یونٹ34 روپے۔37پیسے کا پڑے گا۔ غریبوں کی تو موج ہو گئی۔ان بے چاروں کو کیا پتہ کہ ان چند مالدار پاکستانیوں نے بجلی کی کمپنیوں سے کتنے اربوں روپے نہیں، ڈالرماہوار کمائے ہیں، اور ابھی بھی کمائیں گے۔ یہ وہ رقمیں ہیں جو پاکستانی عوام بجلی کے بلوں میں ان کمپنیوں کو دیتے ہیں جن کے پلانٹ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، حکومت ان کو کیپیسٹی پر رقمیں ادا کرتی ہے۔اس ملک میں بجلی کی مد میںاتنی دھاندلی شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
ابھی چند روز پہلے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے لکھا :
’’ورلڈ بینک کے ایک شعبہ نے پاکستانیوں کو، فوج کی سربراہی میں، بجلی بنانے والوں ترقیاتی قرض دینے والوں کے ساتھ مذاکرات میں، حکمرانوں کو کہا کہ وہ بجلی کے پلانٹ کے مالکان سے دوبارہ گفت و شنید کریں اور بجلی کی قیمتوں کو کم کروائیں، جو ایک دہائی پہلے طے کی گئی تھیں۔ پاکستان کو گذشتہ 25 برسوں میں ایشیا بینک سے 7.2 بلین ڈالر کا قرضہ بجلی کی مد میں دیا گیا تھا۔پاکستان اس وقت بڑے مشکل حالات ہیں اور اس کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے جو منصوبے انتہائی دگر گوں حالت میں ہیں ان میں قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور بجلی کی ترسیلات کی کمپنیاں، شامل ہیں۔ قرضہ دینے والے ادارے آئیندہ دہائی میں، نجی کمپنیوں کے لیے دو بلین ڈالر سالانہ دینے کو تیار ہیں۔اور یہ وعدہ ان حالات کے باوجود کیا گیا ہے جب کہ پاور پلانٹس کے معاہدے موجود ہیں۔لیکن بجلی کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ مذاکرات فوجی ماحول میں کئے گئے۔ اور ان فوجی محافظوں نے کمپنیوں کو ڈرایا دھمکایا کہ ان پر اور طریقوں سے مقدمات بنائے جا سکتے ہیں۔وزیر اعظم کے مشیر خاص محمد علی نے کہا کہ یہ مذاکرات سو ل کی سربراہی میں ہوئے۔ بجلی کی کمپنیوں کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ان تمام مذاکرات میں عسکری شمولیت سے یہ تاثر پیدا ہوتا ے کہ فوج ان معاملات میںپوری طرح شامل ہو گئی ہے۔وہ ملک کی معیشت پر قابض ہے۔اسی طرح، چینی کمپنیاں بھی بھاری منافع پر چل رہی ہیں لیکن چونکہ پاکستان چین کا قرضدار ہے اور اس سے فوائد لیتا ہے، ان کمپنیوں سے کوئی جھگڑا نہیں۔‘‘
پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں اور سرمایہ کاروں نے بجلی کی کمپنیاں بنا کر اتنا بڑا گھپلا کیا کہ اب ساری دنیا ا ن پرتھوہےتھوہے کر رہی ہے۔ اور بالآخر حکومت کو فوج کو ساتھ ملا کر ان کمپنیوں کو آمادہ کرنا پڑا ہے کہ وہ کچھ رعایت دے دیں۔
پاکستان نے سالہا سال سے سورج کی توانائی اور ہوا کی چکیوں سے بجلی بنانے سے مذاحمت کی۔ صرف اس لیے کہ ایسے منصوبوں سے بھتہ نہیں بنتا تھا یا زیادہ نہیں بنتا تھا۔ ان خبیثوں کو اس بات کا چنداں احساس نہیں تھا کہ پاکستان اور عوام کو اس سے کتنا فائدہ ہو تا؟ابھی تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ بجلی کے اداروں نے فیصلہ کیا کہ وہ سولر پینل کی بجلی عوام سے خریدیں گے لیکن کوڑیوں کے بھائو۔کتنی شرم کی بات ہے۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔