دہشت گرد کون اور کون بناتا ہے؟

یومِ پاکستان یعنی 23 مارچ، آیا اور گذر گیا لیکن اس تاریخی دن کو منانے کی جو تقریب اسلام آبادکے ایوانِ صدر میں ہوئی وہ ایک تاریخ اور مرتب کرگئی! لاہور میں، 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان منظور کرنے والے حریت پرست تھے، جیالے تھے، بے خوف تھے۔ وہ نہ کسی کے غلام تھے نہ ہی اس خوف میں مبتلا تھے کہ کوئی نام نہاد دہشت گرد انہیں نقصان پہنچائے گا، اور اس وقت کے لاہور میں فرنگی راج کے باوجود قانون کی عملداری تھی، قانون کا احترام تھا اسلئے کہ فرنگی حکومت اپنے غلام ہندوستان کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرتی تھی۔ سو تئیس مارچ کو لاہور کے اس دور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کی سرپرستی میں کھلے میدان میں اجلاس ہوا تھا اور قائدِ اعظم کی سربراہی میں مسلمانانِ ہند کے قائدین نے بلا خوف و خطر قرار دادِ پاکستان منظور کی تھی اور برملا اس کا عہد کیا تھا کہ وہ برِ صغیر ہند میں ایک آزاد مملکت پاکستان کے نام سے بنا کے رہینگے۔
لیکن آج جب آزاد و خود مختار پاکستان کو قائم ہوئے 78 برس ہونے کو آئے ہیں پاکستان پر اور پاکستانی قوم پر مسلط نام نہاد سیاسی اور عسکری رہنما اس درجہ بزدل اور خائف ہیں کہ یہ دوسرا برس ہے کہ کھلے میدان میں یومِ پاکستان کی پریڈ منعقد نہیں ہوئی۔ خوف کی ان سامراجی گماشتوں کے کائر دلوں پر ایسی حکمرانی ہے کہ کھلے میدان میں اپنے ہی عوام کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے اور یہ ان بزدل جرنیلوں کا کارنامہ ہے جو اپنی زرق برق وردیوں پر رنگ برنگے میڈل اور فیتے سجائے رکھتے ہیں۔ کس بہادری کے کارناموں کے میڈل ہیں یہ؟ تو اس یومِ پاکستان کی پریڈ ایوانِ صدر کی محفوظ حدود میں منعقد کی گئی اور جنہیں عوام کہا جاتا ہے اور جن کا نام لیکر ہر کارروائی کی جاتی ہے، ہر ظلم و زیادتی قومی سلامتی کے عنوان سے روا رکھی جاتی ہے، ان بیچارے عوام کا وہاں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا ، کسی ہما شما کو پریڈ کے پاس پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں تھی! لیکن تاریخ اس پس منظر میں رقم نہیں ہوئی بلکہ تاریخ رقم کرنے والا وہ رسوائے زمانہ ڈکیت، زرداری ہے، جو دوسری بار صدرِ مملکت بنا ہوا ہے، عہدہ کی مناسبت سے پاکستان کی مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔
میر صاحب نے کہا تھا؎
وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی!
تو چشمِ فلک نے یہ دیکھا کہ زرداری جیسا ننگِ ملت، ننگِ قوم زرق برق وردیوں میں ملبوس باڈی گارڈز کے جلو میں شاہی بگھی میں سوار ہوکر آیا۔ ہم وہ منظر اپنے ٹیلی وژن کے پردہ پر دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ بگھی میں جتے ہوئے اصیل گھوڑوں پر کیا ظلم ہورہا تھا کہ وہ ایک گدھے کو بلکہ پاکستان کو نوچ نوچ کر کھانے والے گدھ کی سواری لئے جارہے تھے۔ پریڈ کا جب صدرِ مملکت نے پیدل چل کر معائنہ کیا تو یوں وہ ڈولتے ہوئے بمشکل اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا جیسے کوئی مردہ قبر سے نکل کے آگیا ہو۔لیکن کمال تو تب ہوا جب صدرِ مملکت نے اپنے سامنے رکھا ہوا تحریری خطبہ اپنی ڈوبتی آوازمیں پڑھا۔
زرداری کی اس تقریر نے ہی تو تاریخ مرتب کی ہے، پاکستانی قوم کی بربادی اور رسوائی کا نوحہ ہے جو اس ڈکیت کے لڑکھڑاتے ہوئے لہجہ میں اٹک اٹک کے ادا ہوا۔ وہ ویڈیو وائرل ہوگئی ہے زرداری کے خطاب کی اور ہر پاکستانی اس خطاب پر اپنا منہ شرم سے جھکانے پر مجبور ہے کہ یہ جہلِ مرکب جو آسان اُردو بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا اس منصب پر فائز ہے جہاں پاکستان کو بنانے والا قائد، قائدِ اعظم محمد علی جناح کبھی فائز تھا۔ قائد اعظم کے لہجہ میں، ان کی آواز میں مرتے دم تک دبدبہ تھا، گرج تھی۔ وہ اس انداز میں تقریر کرتے تھے کہ ہر سننے والا، وہ چاہے ان کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، ان کی بات سننے پر مجبور ہوجاتا تھا، کان لگا کے ان کی تقریر سنا کرتا تھا۔ لیکن زرداری جیسا ننگِ قوم جس طرح اٹک اٹک کر، ہر جملہ کی ادائیگی میں فاش غلطی کرکے دنیا کو دکھا رہا تھا کہ اسے پاکستانی قوم کے سینے پر مونگ دلنے کیلئے مسلط کیا گیا ہے ورنہ تقریر تو اس کی وہ تھی جس کیلئے مرزا غالب کہہ گئے ہیں کہ’’ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اس رسوائے زمانہ، جہلِ مرکب اور ننگِ ملت و قوم کو پاکستانی قوم پر مسلط کرنے والے کون ہیں؟ یہ کارنامہ انہیں بزدل، ملت فروش اور ننگِ قوم جرنیلوں کا ہے جن کا قارورہ زرداری جیسے ڈکیت اور شو باز شریف جیسے نامی چور سے ملتا ہے۔ عمران خان اور ان ملک دشمن جرنیلوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے اسی لئے وہ ڈیڑھ برس سے زنداں کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے لیکن یہ بزدل جرنیل اس کو توڑ نہیں پائے، اس جری اور نڈر کو اپنے ڈنڈے اور وردی سے مرعوب نہیں کرپائے، وہ ان کے ساتھ کسی سودے بازی کیلئے تیار نہیں ہوا لہٰذا ان ملت فروشوں کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبت برداشت کر رہا لیکن ان کے آگے جھکنے کیلئے وہ آمادہ نہیں ہے۔ زرداری اور شو باز شریف جیسے چوروں کی سنگت ہی جرنیلوں کو راس آتی ہے اور یہ وہی جرنیل ہیں جو ملک بنانے والے قائدِ اعظم کے بھی غدار ہیں اسلئے کہ وہ ان کو صاف صاف متنبہ کرکے گئے تھے کہ خبردار ریاست چلانے کا کام تمہارا نہیں ہے، ریاست کی پالیسی سازی میں تمہارا کوئی کردار نہیں ہے۔ پالیسی سازی کا اختیار صرف اور صرف حکومت کا ہے جبکہ تمہارا فریضہ یہ ہے کہ اس پالیسی کو بجا لاؤ! لیکن قائد کی آنکھ بند ہوتے ہی ان سامراجی گماشتوں نے ان کے فرمان کو بھلادیا اسلئے کہ یہ تو اپنے آپ کو فرنگی راج کے جانشین سمجھتے تھے اور آج تک مغرب اور سامراج کی غلامی ہی ان کیلئے طرہء امتیاز ہے۔ پاکستانی قوم سے نہ انہیں کوئی ہمدردی ہے نہ ہی یہ پاکستان کے عوام کو اس کا اہل سمجھتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے۔ یہ ہوتا تو پھر یہ بار بار پاکستان کے آئین کی دھجیاں نہ بکھیرتے، اس کو کاغذ کا پرزہ نہ سمجھتے اور بار بار اپنی ہوسِ اقتدار کی بھوک مٹانے کیلئے اس آئین کو اپنے پیروں تلے نہ روندتے! دہشت گردی صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی بم پھاڑ دے یا خود کش حملہ کردے۔
سب سے بڑی دہشت گردی ملک کے آئین کو پامال کرنا ہے اور یہ وہ دہشت گردی ہے جو پاکستان کے منہ بولے محافظ 1958ء سے تواتر سے کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کے جرنیلوں کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ چار مارشل لاء لگے ہیں اس بدنصیب ملک میں جس کا بنانے والا وہ رجل عظیم تھا جس نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی لمحہ بھر کیلئے بھی قانون سے تجاوز نہیں کیا۔ اس کے برعکس پاکستان کے بدمست اور ملک و قوم دشمن جرنیلوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ پاکستان کے قانون اور آئین کو اپنے فوجی بوٹوں تلے روندنا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔ ضیا الحق نے بڑی رعونت سے یہ کہا تھا کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کا پرزہ جسے میں جب چاہوں اپنے پیروں تلے روند سکتا ہوں ! دہشت گردی وہ بھی ہے جو گذشتہ برس 8 اپریل کے عام انتخابات کے بعد ان جرنیلوں نے کی جو آج پاکستان کے مالک و مختار بنے بیٹھے ہیں۔ عوام کے فیصلے کو رد کرنا، عوامی مینڈیٹ پر شبخون مارنا اور جمہور کے ووٹ کی بے حرمتی کرنا بہت بڑی دہشت گردی ہے! اور یہی فرعونیت ہی تو ہے جو جمہوریت اور آئین کا احترام کرنے والوں کو تشدد پہ اکساتی ہے۔ آئین کی پامالی جب جمہور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں بھی قانون کا احترام متزلزل ہوجاتا ہے۔ برائی ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے۔ وہ جو کہاوت ہے کہ حکمراں کا دین رعیت کا دین بھی بن جاتا ہے وہ یہی ہے کہ جب ملک کے نام نہاد رکھوالے قانون اور آئین کی توہین کرتے ہیں تو عام آدمی کو بھی قانون توڑنے کی ترغیب ملتی ہے! لوگ کیا اندھے ہیں جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کن چوروں اور بدمعاشوں کو ان ہوس گزیدہ جرنیلوں نے کٹھ پتلیوں کی طرح مسند اقتدار پہ بٹھایا ہوا ہے تاکہ ان کی ڈوریاں پردے کے پیچھے سے ہلاتے رہیں اور اپنی من مانی کریں! ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک نستعلیق، پڑھی لکھی نوجوان بلوچی ہے جو بلوچ عوام کے حقوق کیلئے طویل عرصے سے مہم چلاتی آئی ہے، پر امن تحریک۔ لیکن اس کے جواب میں جرنیلوں کا سلوک کیا ہے؟ گزشتہ نومبر میں جب اس باہمت خاتون نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پر امن شہریوں کی لانگ مارچ کی قیادت کی تھی تو اسلام آباد میں نام نہاد قانون کے رکھوالوں نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ ان پر امن بلوچ شہریوں پر سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی کی توپیں برسائی گئیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک ہوا جس سے ہر شریف انسان متنفر ہوجاتا ہے۔
اب پھر ماہ رنگ بلوچ اور کتنے ہی دیگر ہمراہیوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا ہے اور انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ وہ جرنیل جو اپنی ذات اورافعال سے بار بار اپنے دہشت گرد ہونے کے وافر ثبوت فراہم کرتے آئے ہیں پُر امن احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ان کی نگرانی اور سرپرستی میں دہشت گرد بنانے کی فیکٹری قائم ہوگئی ہو! دہشت گرد پیدا نہیں ہوتا بلکہ بنایا جاتا ہے اور پاکستان میں یہ کام ملک کے نام نہاد محافظ مدت دراز سے کرتے آئے ہیں۔ جرنیل اور ان کی سرپرستی میں کام کرنے والی انٹیلیجنس ایجنسیاں ہر اس پر امن شہری پر دہشت گردی کا لیبل لگادیتی ہیں جو ان کے فسطائی ایجنڈا سے انحراف کرے۔ دنیا اندھی ہے نابہری۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کس بے حیائی اور بے شرمی سے قانون کا مذاق بنائے ہوئے ہیں اور اس آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں جس آئین کے تحفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔ ملک میں نام نہاد قانون کے رکھوالے ہی دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ ان ملت فروش جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کو پاکستان سے کوئی رغبت نہیں ہے یہ سامراج کے کارندے ہیں اور سامراج کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ پاکستان جسے ہوس گزیدہ جرنیل پہلے ہی دولخت کرچکے ہیں اس کے مزید حصے بخرے کئے جائیں۔ لہٰذا یہ اپنے کرتوت سے ملک میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ پاکستان جلد سے جلد سامراجی ایجنڈا کی نذرہوجائے! میرے منہ میں خاک لیکن ان ملت فروشوں نے اپنی سیاہ کاریوں سے امید کی ہر کرن کو معدوم کردیا ہے۔ خدا نہ کرے جو یہ شیطان کے چیلے اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوں۔ آپ بھی میرے ساتھ مل کے یہ دعا کیجئے کہ اللہ پاکستان پر اور پاکستانی قوم پر رحم کرے اور ان ملک دشمنوں سے پاکستان کو نجات عطا فرمائے۔ رمضان کے آخری عشرہ کی مبارک راتیں ہیں، وہ راتیں جنہیں قرآن لیلتہ القدر کہہ رہا ہے۔ اللہ سے التجا ہے کہ ان مبارک راتوں کے طفیل پاکستان کو فرعون اور ہامان کے چیلے چاٹوں کے تسلط سےآزاد کردے!۔