حلف برداری کے بعد!

ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھا لیا ہے، ٹرمپ کو سیاست میں آؤٹ سائیڈر کہا جاتا ہے مگر پھر بھی وہ امریکی عام کے چہیتے ہیں انہوں نے اپنے ووٹرز سے بہت سے وعدے کئے جن میں سے کچھ عجیب و غریب تھے مثلا GULF OF MEXICO کا نام GULF OF AMERICA رکھنا،اپنی حلف برداری کے بعد جب وہ عوام سے مخاطب ہوئے اس وقت ہال میں ہلیری کلنٹن بھی موجود تھیں اور وہ اس بات پر بے ساختہ ہنس پڑیں اس کا تذکرہ امریکی میڈیا پر بھی ہوا، ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد بیشمار EXECUTIVE ORDERS پر دستخط کئے اور ابھی تک یہ سلسلہ تھما نہیں ایک حج نے صدر کے تین EXECUTIVE ORDERS پر عمل درآمد روک دیا ہے اور ایک جج نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ کا صدر بادشاہ نہیں ہوتا، ہمارا خیال ہے کہ امریکہ کی عدلیہ آنکھیں کھلی رکھے گی مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک کانگریس اور سینیٹ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، ادھر DEMOCRATES بھی حالات کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں سو اس خموشی کو با معنی ہی سمجھا جائے، اور جلد سیاست میں بڑی ہلچل دیکھنے میں آئے گی، اس دوران حیران کن بات بات یہ ہوئی کہ یوکرین کے صدر ZELENSKY ٹرمپ سے ملنے OVAL OFFICE پہنچے اس سے قبل برطانیہ اور فرانس کے وزرائے اعظم بھی OVAL OFFICE آئے تھے مگر دونوں ملاقاتیں معمول کے مطابق تھیں صرف فوٹو سیشن ہوا مگر یوکرین کے صدر ZELENSKY کی آمد پر میڈیا کو اجازت دی گئی کہ وہ ملاقات کے دوران OVAL OFFICE میں موجود رہے اور ہونے والی گفتگو کو رپورٹ بھی کرے اس ملاقات میں ZELENSKY پر دباؤ تھا کہ وہ امریکہ سے معاہدہ کریں اور یوکرین کی قیمتی معدنیات کا پچاس فیصد امریکہ کو دیں کیونکہ امریکہ نے روس یوکریں جنگ کے دوران یوکرین کی مدد کی اور اربوں ڈالر خرچ کئے ZELENSKY کو یہ کہتے سنا گیا کہ وہ رقم یوکرین کو امداد میں ملی، شنید ہے کہ گرین روم میں ZELENKY سے کہا گیا کہ وہ سوٹ پہن لیں مگر انہوں نے انکار کر دیا اور معدنیات کی ڈیل پر بھی سائن نہیں کئے ، OVAL OFFICE میں یوکرین کے صدر اور ٹرمپ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا نائب صدر بھی شامل گفتگو ہو گئے، ملاقات کے بعد نہ تو مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی اور نہ ہی ZELENSKY کو ظہرانے کے لئے لے جایا گیا جو تیار تھا ZELENSKY سے کہا گیا کہ وہ OVAL OFFICE سے چلیں جائیں، یہ سب بہت غیر معمولی تھا OVAL OFFICE میں ایسا کبھی نہیں ہوا پھر سعودیہ سے کہا گیا کہ وہ ایک ہزار ارب امریکہ کو دیں ایسا کیوں ہے کہ ٹرمپ کینڈا، میکسیکو، پر ٹیرف عائد کرنے کی بات کر رہے ہیں، امریکہ کے ایک معمر MONEY MARKET کے ماہر WARREN BUFFET نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کو پس پشت ڈال کر ٹیرف عائد کرنا معاشی جنگ چھیڑ نے کےمترادف ہے، WARREN BUFFET نے کہا ہے شائد ان فیصلوں سے پیچھے ہٹنا پڑے ایک اور رپورٹ میں کیا گیا ہے ٹرمپ تذبذب کا شکار ہیں کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرف ایک ماہ کے لئے مؤخر کیا جا چکا ہے ایک تازہ بیان میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ مصیبت میں ہے، تو کیا OVAL OFFICE میں ZELENSKY سے ملاقات اور اس میں خلاف معمول میڈیا کا موجود ہونا کیا کسی اور طرف اشارہ کر رہا ہے کیا میڈیا کے ذریعے کیا یہ پیغام امریکی عوام کو دیا جا رہا ہے کہ امریکہ کا مالی اور مالیاتی نظام بگڑ چکا ہے اور اس کو سہارا دینے کے لئے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے کچھ اشارے اسی جانب ہیں اس ملاقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے ہی امریکہ نے یوکرین فنڈنگ بند کرنے کا اعلان کیا چین نے اپنے پچیس فیصد AMERICAN TREASURY HOLDINGS کو ختم کر دیا اس کے اثرات تو ہونگے عشروں سے امریکہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مہنگائی بر آمد کرتااور REAL GOODS در آمد کرتا ہے، امریکی ماہرین معاشیات کا خیال تھا کہ دیگر اقوام ہمارے قرض کو اپنے ذخائر کے طور پر استعمال کرتی ہیں 2008 تک ڈالر کا یہ سحر طاری رہا یعنی بڑے پیمانے پر مقداری آسانی QUANTITY EFFICENCY ، شرح سود بہت کم ، اور مارکیٹ میں مداخلت، پھر یہ مداخلت بڑھتی گئی مگر 19 COVID نے اس مہلک نظام کو بے نقاب کر دیا اور نظام کی خامیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں، اس کے بعد TRILLIONS DOLLARS 5 محرک سامنے آیا بانڈ مارکیٹ کی قرض جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی اور REAL STATE کو بڑا دھچکا لگا ، FOREIN BUYERS نے سوالات اٹھا دئے ، مارکیٹ میں ہیجان تھا پرائمری ڈیلرز اپنی MONEY LIQUIDITY برقرار رکھنے کی جد و جہد کرتے رہے، چین کے پچیس فی صد امریکن TREASURY HOLDINDS کے انخلا نے ہلچل پیدا کر دی اور اس خلا کو TAX HEAVENS سے پُر کرنا پڑا، ان حالات میں امریکہ کے لئے ممکن نہیں رہا کہ وہ 80 ممالک میں اپنے فوجی اڈے باقی رکھ سکے یہ بوجھ امریکہ کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا، حلف برداری کے بعد ٹرمپ کے اقدامات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ امریکہ ایک جانب اخراجاتی کٹوتیاں کر رہا ہے تو دوسری طرف یہ کوشش ہے کہ سرمایہ ملک کے اندر کیسے لایا جائے سعودی عرب سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکہ کو ایک ہزار ارب فراہم کرے ابھی تک سعودی عرب نے 500 ارب کی حامی بھر لی ہے مگر ٹرمپ کا یہ جملہ بھی معنی خیز ہے کہ ان کے پاس بہت پیسہ ہے کیا کرینگے وہ اس پیسے کا، ٹرمپ نے یورپ کے دفاع سے ہاتھ کھینچ لیا ہے مگر ٹرمپ اس بات کے بھی شاکی ہیں کہ فرانس نے یورپ کو جوہری COVER فراہم کر دیا ہے ظاہر سی بات ہے کہ یورپ کو اپنے دفاع کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا ادھر کینیڈا نے بجلی پر %25 ٹیرف عائد کر دیا ہے جس سے نیو یارک ، مشی گن اور منی سوٹا متاثر ہونگے اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان ریاستوں میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا، تجزیہ کار اندازہ لگا رہے ہیں کہ ان اقدامات سے دنیا میں ECONOMIC TURMOIL پیدا ہوگا ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت بہت زیادہ ٹیرف لگاتا ہے مگر بھارت پر RETALIATRY TARIFF عائد کرنے کی بات نہیں کی گئی اگر ایسا ہوا تو بھارت کی کمر ٹوٹ جائیگی البتہ بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ امر کہ سے اسلحہ خریدے، جہاں تخفیف اسلحہ کی بات ہو رہی ہو وہاں اسلحہ کے پھیلاؤ کے لئے کوششیں کرنا بہت حیرت انگیز ہے، یوکرین کے صدر ZELENSKY نے ٹرمپ سے معافی بھی مانگ لی ہے اور یوکرین کی قیمتی معدنیات پر معاہدے کے لئے بھی تیار ہیں مگر امریکی عہدیداروں نے کہا ہے کہ ZELENSKY معاہدے کے لئے خوش گواری کے ساتھ آئیں ورنہ قیادت کوئی اور کرے ZELENSKY کی تذلیل کا کوئی موقع امریکہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ARM TWISTING جاری ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس ذلت سے بچنے کے لئے ZELENSKY استفے دے دیتے اور یوکرین کوئی دوسرا صدر منتخب کر لیتا، مگر اقتدار کا نشہ بہت ظالم ہوتا ہے ٹرمپ نے ابھی تک جو بھی اقدامات کئے ہیں ان میں FRISTRATION ظاہر ہوتی ہے حیرت انگیز طور پر کانگریس اور سینیٹ خاموش ہے اور DEMOCRATES بھی خاموش مگر کب تک ، رد عمل تو آئیگا مختلف سروے بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی مقبولیت آہستہ آہستہ گر رہی ہے ایلون مسک کے خلاف بھی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں کانگریس کے اجلاس میں ٹرمپ کی پہلی تقریر کے موقع پر ایلون مسک پر اظہار ناراضگی کیا گیا، اندازہ ہو رہا ہے سنجیدہ سیاست کا دور DECLINE کی جانب ہے ایک مصنف کی کتاب بھی آرہی ہے جس میں ٹرمپ کو OUTSIDER کہا گیا ہے
کہا گیا کہ مسخرہ ذہین نہیں ہوتا مگر اپنے ناظرین کو خوش رکھتا ہے۔