ہفتہ وار کالمز

امن

میرا لڑکپن پنجاب میں گزرا،پنجاب کے معاشرے کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا،یہ ایک رنگین معاشرہ ہے میلے ٹھیلے، تہوار، ڈھول بھنگڑے، ناچ گانا،چھوٹے موٹے جھگڑے،تکراراور نوک جھونک،پنجابی اپنے مزاج کے اعتبار سے بہت جو شیلے ،دوستیاں بھی بہت گہری،دشمنیاں بھی آگ سے بھری ہوئی،جب میں اسکول میں تھا تو ہمارےمحلے میں ایک قتل صرف اس بات پر ہو گیا تھا کہ دکاندار نے لسی کی قیمت چار آنے کی بجائے پانچ آنے کیوں مانگی، اس بات کا ذہن پر گہرا اثر ہوا مگر دوسری طرف جب ایک گھر میں آگ لگ گئی اور گھر میں رکھا لڑکی کا جہیز جل کر خاک ہو گیا تو ایک متمول پڑوسی نے جہیز دینے کی ذمہ داری قبول کر لی،محلے نے مل کر گھر کی تعمیر بھی کرا دی،راولپنڈی میں سبزی منڈی کی مسجد کے اخراجات میں کنک منڈی کے بڑے تاجر حصہ ڈالتے رمضان اور عید میلاد النبی ؐاہتمام سے منایا جاتا راولپنڈی ایک پر امن شہر تھا اس شہر میں طلباء کا پہلا جلوس 1962کونکلا تھا اور شہر حیران تھا کہ طلباء اس طرح جلوس بھی نکال سکتے ہیں شہر میں ایک اخبار ضمیر کے نام سے نکلتا تھاجس نے اس جلوس کی خبر بھی لگائی اور اداریہ بھی لکھا کہ نوجوان کس راہ پر چل نکلے ہیںاسی زمانے میں مجھے کراچی آنا پڑاکراچی میں ایوب خان کے خلاف طلباء تحریک شروع ہو چکی تھی NSF اس وقت ایک بڑی طلباء تحریک تھی بڑے بڑے جلوس نکلے مگر پنجاب کے طلباء میں کوئی بے چینی نہیں تھی اور کراچی کی طلباء تنظیموں نے پنجاب کی طلباء تنظیموں کو چوڑیوں کا تحفہ بھیجا تھا ،اس زمانے میں محلے میں کوئی جھگڑا ہو جاتا تو محلے کے با اثر لوگ باہم سر جوڑ کر آپس میں صلح کرا دیتے ۔خاندانوں کے درمیان تنازعات کے فیصلے بھی ایسے ہی ہوتے تھے پنجاب کے خمیر میں پنچائیت کا مزاج بہت گہرا تھا دیہاتوں میں بڑے فیصلے پنچائیت ہی کرتی تھی،اور مکھیا کا فیصلہ سب پر مقدم ہوتامیں جہاں تک سمجھ سکا ہوں وہ یہی ہے کہ ایوب خان کے بی ڈی سسٹم کی اساس بھی یہی تھی پختون خواہ جو کبھی سرحد کہلاتا تھا جو قبائیلی نظام کے زیر اثر تھا وہاں بھی قبائیل کے درمیان تنازعات کا فیصلے جرگہ کرتا تھا مگر اکثر اوقات قبائیل ان فیصلوں کو مسترد کر دیتے اور پھر خون ریزی ہوتی اور فیصلہ بندوق ہی کرتی مگر پختون خواہ اپنی قبائیلی روایات کا پابند تھا اور انہی روایات کے تحت دشمنی نسل در نسل چلتی چند سال پہلے پارا چنار میں زمین کے قدیم تنازع پر بہت خون خرابہ ہوااور بہت سے لوگ مارے گئے پنجاب میں آپس کے تنازعات میں اتنی شدت نہیں ہوتی کچھ ماہرین سماجیات کی رائے ہے کہ پنجاب کی زندگی پختوں خواہ کی نسبت آسان ہے سخت زندگی کی وجہ سے مزاجوں میں سختی بھی ہے ماہرین سماجیات کی یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیںکہ امن کی خواہش غریب اور کمزور لوگوں میں ہوتی ہے طاقت وروں کی وجہ سے ہی بد امنی ہوتی ہے طاقت وربد امنی کو جھیل جاتے ہیں اور بد امنی کا چارہ بھی غریب اور کمزور لوگ ہوتے ہیں اور طاقت ور انہی غریب اور کمزور لوگوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میرے ذہن کے کسی پنےّ پر یہ بات محفوظ نہیں کہ بلوچستان میں سردار آپس میں کسی بات پر لڑ پڑے ہوں،سندھ کی تاریخ میں ایسے بڑے واقعات رونما نہیں ہوئے پاکستان کے چار صوبوں کے چار مختلف مزاج ہیں مگر یہ بات چاروں صوبوں کے عوام میں مشترک ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی قبیلے سے ہی کیوں نہ ہوکسی ذات اور برادری سے کیوں نہ ہو یہ بات قابلِ غور ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کے ہمرا ہ یوسف زئی قبیلے کا ایک جتھہ ہندوستان آیا اور وہ رامپور میں بس گیا اور مقامی تہذیب میں مدغم ہو گیاان کے مزاج سے تیغ و تفنگ کی بات نکل گئی تعلیم اور تہذیب نے ان کو بدل دیا گو مزاج میں اب بھی تیزی ہے مگر جب یہ لوگ شعر و ادب کی جانب آئے تو بڑے کار ہائے نمایاں انجام دیئے،کئی نامی گرامی شاعر ان لوگوں میں پیدا ہوئے،رامپورکی تہذیبی روایات کو یو پی میں بڑی قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس بحث سے کم از کم ہم اتنا تو سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں جھگڑے ہوتے ہیں مگر امن کی خواہش دلوں میں ضرور رہتی ہے اور یہ بھی کہ علم بہت سی نامرادیوں کو بدل بھی دیتا ہے اچھی تہذیب بُری تہذیب کو اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔
دنیا کو امن کی ہمیشہ ضرورت رہی اور امن مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے امن کے زمانے میں انسانی ذہن کی grouthبہت زیادہ ہوتی ہے جنگ کے دور میں ذہنی خلفشار بڑھتا ہے اور یہ خلفشار شائد اس لئے ہوتا ہے کہ جنگ بربادی اور تباہی لاتی ہے، بچپن میں یہ بات الجھاتی تھی کہ لوگ کیوں لڑتے ہیں اور کئی برسوں بعد کتابوں نے سمجھایا کہ لوگ ،قبیلے، قومیں اپنے مفاد کے لئے لڑتی ہیں،پھر بچپن کی ایک الجھن یہ بھی تھی کہ لوگ قومیں اپنے مسائل خود کیوں نہیں سلجھا لیتے،پھر قوموں کی نفسیات پڑھی تو سمجھ میں آیا کہ انسان اپنے مفادات پر اصرار کرتا ہے ان کو درست اور غلط ثابت کرنے کے لئے ہمیں مقامی،قومی اور بین الاقوامی قوانین بنانے پڑے،ایک بار پھر ذہن الجھ گیا کہ ٹرمپ نے آزبائیجان اور آرمینیا کی برسوں کی جنگ صرف ایک ملاقات میں ختم کرادی افریقہ کے دو چھوٹے ملکوں کے درمیان کی جنگ Oval Office کی ایک نشست میں ختم ہو گئی اور دونوں افریقی ممالک کے رہنما اس قدر خوش تھے جیسے ان کو کسی نے چاکلیٹ کھلا دی ہو،پاکستان اور بھارت کی جنگ بھی بقول ٹرمپ اس بات پر ختم ہوئی کہ جنگ ختم نہ کی تو امریکہ دونوں ممالک پر بھاری ٹیرف لگائے گااور جنگ بند ہو گئی،یہ کیسے مسائل تھے جن پر برسوں سے جنگ جاری تھی اور ٹرمپ کی مصالحت پر ایک لمحے میں بند ہو گئی،مجھے یہ سب مذاق لگتا ہے جس کا تعلق قوموں کی اپنی اپنی اناؤں سے ہے سیاست دانوں کی اپنی چالاکیاں بھی ،اقتدار قائم رکھنے کے لئے اس کا خمیازہ قوموں کو بھگتنا پڑتا ہے اور جو جنگیں لڑی جاتی ہیں ان میں سیاست دانوں کو کبھی کوئی نقصان نہیں ہوتا،نقصان قوموں کو برداشت کرنا پڑتا ہے،جنگ کے بعد سیاست دان یا تو کمزور ہو جاتا ہے یا پھر بہت مضبوط ہو کر اُبھرتا ہے مضبوط صرف اسی صورت میں جب وہ فتح یاب ہو ،جنگ میں وہ وسائل ضائع ہو جاتے ہیں جو عوام کی بہبود پر خرچ ہونا ہوتے ہیں جس سے عوام کا معیارِ زندگی بلند ہوتا ہے۔ان کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات ملتی ہیں۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی ہے پہلے کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے یہ بھی کہا گیا افغانستان میں پاکستان کی Strategic Depth ہے یہ سب ان فوجی جنرلز کی باتیں تھیںجو کبھی جہاد افغان کا حصہ رہے یا اس کے بعد افغانی طالبان کو مینج کرتے رہے مگر یہ سب سطحی باتیں تھیں ایک برطانوی مصنف نے ایک کتاب لکھی تھی The Pathans یہ کتاب ملٹری اکیڈیمی میں پڑھائی جاتی تھی اس کتاب میں پشتونوں اور افغانوں کی نفسیات،تاریخ اور تہذیب کا بڑی تفضیل سے جائزہ لیا گیا تھا مصنف نے لکھا تھا کہ افغانوں کو آپ سونے کی پلیٹ میں کھانا کھلا دیجیے مگر اُسے آرام پتھروں پر ہی ملے گااور یہ بھی کہ ان سے وفاداری کی امید نہ رکھی جائے افغانوں کے بارے میں فوجی جنرلز نے بہت غلط اندازے لگائے،پاکستان نے اسلام کے نام پر افغانوں کے بہت ناز اٹھائے اپنی معیشت، معاشرت تباہ کرلی کلاشنکوف کلچر اور منشیات کا استعمال ملک بھر میں پھیل گیامگر جیسے ہی امریکہ نے افغانستان چھوڑا طالبان نے اپنے چہرے سے نقاب پلٹ دیا عمران کی حمایت اسی حد تک کہ عمران پاکستان سے آٹا، چینی اور کھاد افغانستان پہنچاتا رہا عمران نے بہت کوشش کی کہ دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلے،اس کے باوجود افغان پاکستان سے نفرت کرنے لگا،شہباز حکومت نے متعدد بار کوشش کی کہ تعلقات معمول پر آ جائیں مگر افغان سر زمین سے دہشت گردی جاری رہی اور ٹی ٹی پی کو کھلی چھوٹ تھی کہ وہ جب چاہیں پاکستان کے کسی علاقے میں دہشت گردانہ حملے کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ایک ایک دن میں ہمارے درجنوں جوان مارے گئے فوج کو مجبوراً حساب چکانا پڑا اور پاکستان نے22 افغان چوکیوں پر قبضہ کر لیا قطر نے مذاکرات کے لئے پاکستان اور افغانستان کو دعوت دی ہے ترکی بھی ثالث بن گیا ایک اور دوحہ معاہدہ ہو گیا اور اس کی تفصیلات 25 اکتوبرکو استنبول میں طے کی جائینگی،ایسا ہوتا ہے ایسا ہوتا رہا ہے مگر سوال یہی ہے کہ امن کے لئے جنگ کیوں ضروری ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دو ریاستوں کو ثالثی کی ضرورت پڑے،حکمران کامن سینس سے کام کیوں نہیں لیتے میں یہ جانتا ہوں کہ میری امن کی خواہش بہت چھوٹی ہے اور جنگ کا کاروبار بہت بڑا،میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہتھیار کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو وہ کبھی کتاب سے بڑا نہیں ہو سکتا،کبھی سوچا ہے کہ یورپ میں امن کیوں ہے اور ہم بد امنی کا شکار کیوں ہیں ،وجہ صرف یہ کہ ہمارا کتاب سے رشتہ ٹوٹ گیا ہے اور ہم زندگی کے اصول بھلا بیٹھے ہیںپاکستان اور افغانستان اگربقائے باہمی کے اصولوں پر یقین رکھیں تو دونوں ملک خوش حالی کی چادر اُڑھ سکتے ہیںاور یہی اصول پاکستان اور ہندوستان کو بھی جنگ سے بچا لے گاروٹی دے گا افلاس کو کم کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button