ایک سندھی شخص نے مہاجروں کے خلاف مغلظات بک کرسندھیوں کی ذہنیت کی اور حکومتی اہلکاروں کی نمائندگی کردی

342

ہم نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ اب پانی سر سے اوپر گزر چکاہے اور اگراب کراچی کوعلیحدہ صوبہ نہ بنایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کر ہمیں کراچی جانے کے لئے پاسپورٹ اورویزہ درکار ہو۔ اس ہفتے ہماری اس بات کی تصدیق اس سندھی شخص کے بیان سے ہوگئی کہ سندھی کس قدر مہاجروں سے نفرت کرتے ہیں اور کراچی کو مال غنیمت جان کر نوچ رہے ہیں تا کہ کہیں کل کویہ بقیہ سندھ سے الگ نہ ہو جائے اور ان کا مال مفت دل بے رحم کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے۔ یوں توکراچی بقیہ سندھ سے 1973ء میں غیر اعلانیہ طورپر کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد الگ ہو چکا ہے اور اس بات کا ادراک سندھ کے قوم پرستوں بشمول پیپلزپارٹی والوں کو بھی خوب پتہ ہے مگر گزشتہ پانچ دہائیوں سے یہ لوگ اسی خدشے کے پیش نظر کراچی کو دونوں ہاتھوں سے اندھے پن سے لوٹ رہے ہیں۔ دیہی سندھ صوبہ سندھ ہے جبکہ شہری سندھ صوبہ کراچی ہے ۔ یہ شخص منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے مہاجروں کو کتے کے بچوجائو اپنے ملک انڈیا واپس جہاں سے تم ننگے بھوکے آئے تھے اور سندھیوں نے تمہیں تن پر ڈانپنے کے لئے کپڑا دیا تھا، تم جیسی احسان فراموش لعنتی قوم کو کمی نہیں ہے جو اپنی ماں یعنی سندھ دھرتی کے ساتھ غداری کرے۔ آئو تمہیں مہاجر صوبہ سمندر میں غرق کردیتے ہیں۔ تم حرام کے پلے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کلپ کیساتھ تو اس سندھی کی سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، سندھ کے وزیر تعلیم سیدغنی، وزیر اطلاعات ناصر شاہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کیساتھ ایک قریبی دوست کی حیثیت سے تصاویر بھی لگی ہوئی ہیں ۔ یعنی جیسا کہ ہم نے کہا کہ اگر یہ ذہنیت اس سندھی کی مہاجر وں کے خلاف ہے تو یقیناً ان سب لوگوں کی بھی وہی سوچ ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ کھل کرنہیں کہتے ا ور اس نے دل کی بات ان کی طرف سے کہہ ڈالی۔ جو ردعمل سامنے آیا اس ویڈیو پر تو پھر اس نے اپنے ان ہی تصویری آقائوں کے کہنے پر ایک معافی نامہ ٹائپ دوسرا ویڈیو جاری کیا ہے مگر وہ کیا کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا تیر اورزبان سے نکلا ہوا لفظ کبھی واپس نہیں ہوتا۔ دراصل اس شخص کے منہ سے نکلا ہو ایک ایک لفظ مخصوص سندھی ذہنیت کاعکاس ہے ۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے اس سے قبل اسی پیپلزپارٹی کے ایک اوروزیر ذوالفقار مرزا اپنے سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے اس قسم کے مہاجروں کے خلاف نفرت انگیزخیالات کا اظہار کرچکا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ سندھی کیوں اپنے متعلق اس خوش فہمی کاشکار رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو انگریزوں کے زمانے میں تن پر پورا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی ، یہ غلاموں کی طرح رہتے تھے اور ان کی نشانی کندھے پر پڑا ایک سرخ کپڑا ہوتا تھا جس پر بعد ازاں پھول ڈال کر اجرک کانام دے دیا گیا جہاں تک ہندوستان سے آنے والے ننگے بھوکے مہاجروں کا تعلق ہے اس کیلئے ہم صرف ایک ہی مثال دیتے ہیں باقی دیگ کا اندازہ عقلمند خود کی لگا لیں گے۔ ہندوستان سے تقسیم کے بعد ایک مہاجر ابوالحسن اصفہانی پاکستان آیا ،اس کی انڈیا میں ایک ایئر لائن ’’اورئنٹ ایئر‘‘ کے نام سے ملکیت تھی جب وہ پاکستان آیا تو سندھ میں لوگ گدھے پر سواری کرتے تھے۔ قائد اعظم کی خواہش پر اس نے اپنی ذاتی ایئر لائن کو حکومت پاکستان کے نام کی جس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن رکھ دیا گیا جس پر بعد ازاں ایک سندھی ڈکیت بھٹو نے قومیا کر قبضہ کرلیا۔ راجہ صاحب محمود آباد،نواب عثمان علی خان، نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان جیسے ہزاروں ننگے بھوکے مہاجروں کی ایک فہرست ہے جنہوں نے پاکستان کو سنبھالا۔ آپس کی بات قائداعظم بھی مہاجر تھے جن کے لئے زرداری کے باپ حاکم علی زرداری نے ایسی ایسی لغویات اوربکواس کی ہے کہ حد نہیں اوروہ بھی ویب پر موجود ہے آپ جاکر تصدیق کر سکتے ہیں ۔ تو آپ ہی کہیے احسان فراموش اور گھٹیا کون ٹھہرا؟