پچھلے کچھ ہفتوں سے کمالہ ہیرس کا نام ہر نیوز چینل پر آرہا ہے آپ نے بھی یقینا یہ نام سنا ہو گا، ہو سکتا ہے کہ یہ خاتون آنے والے دنوں میں امریکہ کی وائس پریذیڈنٹ بن جائیں۔
کمالہ کا پورا نام Kamala Devi Harrisہے یہ بیس اکتوبر 1964ء کو آک لینڈ کیلی فورنیا میں پیدا ہوئیں، یہ ایک امریکن سیاستدان ہیں جو یو ایس سینٹ میں 2016ء میں منتخب ہو کر آنے والی پہلی انڈین امریکن تھیں، اس سے پہلے وہ کیلی فورنیا اسٹیٹ کی اٹارنی جنرل تھیں2011ء سے 2017ء تک ،ان کے والد جمیکا سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ آنے کے بعد وہ Stan Fordیونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، ان کی والدہ ایک انڈین ڈپلومیٹ کی بیٹی تھیں اور خود ایک کینسر ریسرچر، کمالہ کی بہن مایا پبلک پالیسی ایڈووکیٹ ہیں۔
کمالہ نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس میں بی اے کیا اور پھر لاء ڈگری کالج Hastingsسے تعلیم حاصل کی، 1989-1998تک انہوں نے آک لینڈ میں ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل کی جاب کی، وہ اپنی مضبوط شخصیت کی وجہ سے مشہور تھیں۔
کمالہ گینگ وائلنس، ڈرگ ٹریفکنگ اور جنسی تشدد کے کیسز سے ڈیل کرتی تھیں اور مجرموں سے سخت سوالاات کرنے کے سلسلے میں ہمیشہ خبروں میں رہتی تھیں یہی وجہ تھی کہ وہ تیزی سے ترقی کرتی گئیں اور 2004ء میں ڈسٹرکٹ اٹارنی جنرل بن گئیں، ان کی شخصیت مزید مضبوط ہوتی گئی اور وہ ہمیشہ خبروں میں رہیں۔
2010میں کمالہ کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل بن گئیں اور وہ بھی بہت ہی کم مارجن سے وہ صرف 10فیصد کے فرق سے یہ پوزیشن جیتیں، کمالہ نہ صرف کیلی فورنیا کی پہلی افریقین امریکن اٹارنی جنرل تھیں بلکہ پہلی خاتون اٹارنی جنرل بھی۔
اکثر لوگ پریشر والی جابس میں آسانی سے نہیں چل پاتے لیکن کمالہ نے اپنی تمام تر انرجی کے ساتھ بہترین پرفارمنس دی جیسے ہی وہ اٹارنی جنرل بنیں اس کے اگلے سال ہی انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان پر کوئی سیاسی دبائو نہیں ہے، یہ انہوں نے اس وقت ثابت کیا جب ابامہ ایڈمنسٹریشن کے پریشر میں آنے سے انہوں نے انکار کر دیا تھا، ان سے قومی سطح پر لاء سپوٹ کرنے کو کہا گیا تھا جو کہ مارگیج لینڈرز کے خلاف تھا، ان سے کہا جارہا تھا کہ ایک مختصر (Limited amount)لے کر معاملہ رفع دفع کریں لیکن کمالہ نہیں مانیں اور فائیٹ کرتی رہیں اور 2012ء میں وہ کیس جیت گئیں اور جو آفر ان کو دی جارہی تھی اس سے پانچ گنا زیادہ پیسے سٹیٹ کو دلوائے۔
’’Smarton erime‘‘نامی کتاب 2009ء میں چھپی تھی ،کمالہ کی یہ کتاب اس موضوع پر بہت اہم کتاب سمجھتی جاتی ہے، 2012ء میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں بہت ہی یادگار تقریر کی کمالہ نے جس کی وجہ سے اس کا امیج بہت سٹرانگ ہوا، 2015ء میں کمالہ یو ایس سینیٹ کیلئے الیکشن میں کھڑی ہوئیں اور بہت اہم موضوع اٹھائے جیسے کہ ’’امیگریشن‘‘ کرمنل جسٹس ریفارمر، کم ترین معاوضے وغیرہ، Reproductiveحقوق وغیرہ، ان تمام ایشوزپر انہوں نے کھل کر بات کی اور وہ آسانی سے جیت گئیں۔
یو ایس سینیٹر بن کر کمالہ سلیکٹ کمیٹی آن انٹیلی جنس اور جیوڈیشری کمیٹی دونوں کا حصہ بنیں اور بہت کامیاب ہوئیں، وہ جس سے بھی سوال کرتیں سیدھا سیدھا سوال کرتیں، گھما پھرا کر بات نہیں کرتی تھیں جس کی وجہ سے انہیں خاص تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، کئی ری پبلکشنز ان کو سوالات کے بیچ میں ٹوک بھی دیتے تھے۔
2017ء میں کمالہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی یو ایس کے اٹارنی جنرل جیف کے حوالے سے جن سے انہوں نے استعفیٰ دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا 2019ء میں An American journayنامی آرٹیکل چھپا تھا جس میں کمالہ نے 2017ء کے الیکشن کے متعلق بات کی تھی اور جس کے کچھ ہی دن بعد انہوں نے 2020ء کے الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا تھا، وہ کچھ دن اس ریس میں رہیں لیکن دسمبر 2019ء میں دستبردار ہو گئیں لیکن جب مئی 2020ء میں جارج فلائیڈ کی موت ہوئی تو کمالہ نے جم کر کمپین کی، افریقن امریکن کے حقوق کیلئے جس کے بعد کمالہ پھر خبروں کی سرخیوں میں آگئیں،
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کمالہ نے اپنا پروفائل مضبوط کرنے کے لئے اس کمپین میں اس زور شور سے حصہ لیا لیکن یہ سچ ہے کہ اس سے امریکہ میں کئی چیزوں میں بدلائو آیا۔
اس بدلائو میں ایک یہ تھا کہ جوبائیڈن نے کمالہ کو اپنے ساتھ وائس پریذیڈنٹ کیلئے الیکشن لڑنے پر آمادہ کر لیا، اگر کمالہ نائب صدر بن جاتی ہیں تو یہ پہلی خاتون وائس پریذیڈنٹ ہوں گی اور پہلی انسان جن کا تعلق ہندوستان سے ہے۔
Next Post