پاکستانیوں کو مبارک ہو۔ پاکستان بنے ۷۳ سال ہو چکے ہیں۔ اور پاکستان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔اور کہاں سے کہاں نہیں پہنچا؟ پاکستان نے جن حالات میں آنکھ کھولی، وہ نا گفتہ بہ تھے ۔ نہ تو خزانے میں کچھ تھا، نہ فوج تھی، نہ کوئی اور قابل ذکر محکمہ ۔ساری قوم کا مرکز نگاہ ایک شخص تھا، محمد علی جناح ۔ ایک دراز قد، پتلا دبلا، باوقار انسان جس نے نہایت مہارت، بصیرت اورجرأت سے دنیا کی عیار ترین قوت کو پاکستان بنانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کام میں اسے مٹھی بھر قائدین کی حمایت اور امداد حاصل تھی۔۱۴ اگست ۱۹۴۷کی رات بارہ بجنے سے پہلے انگریزوں نے پاکستان کے قیام کی قانونی دستاویزات پر دستخط کر دیئے۔ اور بھارت کی آزادی کے کاغذات پر نصف شب کے بعد دستخط ہوئے۔ اس طرح پاکستان اپنا یوم آزادی ۱۴ اگست کو مناتا ہے اور بھارت ۱۵ اگست کو۔ قوم نے جناح کو قائد اعظم کا خطاب دیا، جو ایک مناسب نذرانہ تھا، اگرچہ کہ یہ قوم کسی صورت بھی محمد علی جناح کی خدمات کا بدلہ نہیں چکا سکتی تھی۔قائد اعظم نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور لیاقت علی خان نے وزیر اعظم کا۔
معلوم ہوتا ہے کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اس نے جناح کو زیادہ مہلت نہیں دی اور آزادی کے ایک سال کے بعد۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ کو ہی اٹھا لیا۔ اس مختصر وقفہ میں وہ اپنی شدید علالت کے باوجود اس نو زائدہ مملکت کی بقا کے لیے کام کرتا رہا۔ قوم کو مستقبل کا لائحہ عمل تین لفظوں میں دیا: اتحاد،تنظیم اور یقین محکم ، جن کو قوم نے فوری سنا ان سنا کر دیا۔ پاکستان کے مخالف بھارتی لیڈر گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان بننے دو، یہ چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گا۔غالباً ہوتا بھی ایسے کہ جس بے سرو سامانی کے حالات میں پاکستان بنا۔لیکن قائد اعظم نے اپنی کوششوں سے اور ان مٹھی بھر رفیقوں کی مدد سے ، بنیادی ضروریات پر کام شروع کر دیا تھا، جن میں حکومت کے تینوں ستون، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ، کے بنیادی ڈھانچوں کی داغ بیل ڈال دی گئی تھی۔اس نوزائدہ سلطنت کے سامنے مسائل کے انبار تھے۔ ادھر ادھر سے کچھ مہربان صاحبان حیثیت کی امداد ملنی شروع ہو گئی جن میں نظام حیدر اباد، اور امیر بھاولپور کا نام سر فہرست ہے۔مالیہ اکٹھا کرنے والے سرکاری اداروں کے قیام کو فوری یقینی بنایا گیا۔ فوج اور سرکاری مشینری پر جتنی توجہ ممکن تھی دی گئی۔ انگریزوں نے نہرو کی ملی بھگت سے کشمیرپر فیصلہ ملتوی کر دیا ۔ادھر کشمیرکے ہندو راجہ نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرنے کا اعلان کردیا۔ اس پر پاکستان نے اعلان جنگ کر دیا اور پاکستان کی قلیل افواج نے مجاہدین کی مدد سے کشمیر میںپیش قدمی کر دی، جس کے نتیجے میں موجودہ آزاد کشمیر کا علا قہ انکے قبضہ میں آیا۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی اورپورے علاقہ کو متنازعہ علاقہ قرار دے دیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ کشمیر میں رائے شماری ہوگی جس میں عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں۔ بھارت نے آج تک رائے شماری نہیں ہونے دی۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد ہندوستان سے مسلمانوں کا، اور پاکستان سے ہندووں کا، انخلاء عظیم شروع ہوا۔ ہندوستان سے مہاجرین کے قافلے پاکستان آنے شروع ہو گئے۔ ان کے فوری قیام اور رہائش حکومت کی اولین ترجیح بن گئی۔ ان حالات میں جو پاکستانی حکام نے قابل ستائش کام کیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ناجائز دولت سے بھی خوب ہاتھ رنگے اورکرپشن پاکستان کا مقدر بن گئی۔اور ہر سرکاری محکمہ کاطرہ امتیاز بن گیا۔مائوں نے دھنا دھن بچے پیدا کرنے شروع کر دیے، جس سے معاشرتی وسائل جیسے سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، کلینک، رفاہی ادارے، سرکاری ادارے، پولیس سٹیشن، غرضیکہ ہر ضروری ادارے کی ضرورت بڑھی۔اس ریس میں عوام جیت گئے، آبادی ایک لامتناہی سیلاب کی طرح بڑھتی گئی۔ حکومت کی تمام کوششیں نا کافی تھیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ آبادی کا زیادہ حصہ غربت کا شکار تھا اور اس وجہ سے حکومت کو مالیہ کم ملتا تھا۔ اور جہاں سے مالیہ ملتا تھا، وہاں سرکاری انسپکٹر پورا مالیہ اکھٹا نہیں کرتے تھے۔ ان حالات میں حکومت بینکوں سے قرضے لیکر ضروری کام چلاتی تھی یا بیرونی امداد سے کچھ ترقیاتی کام ہو جاتے تھے۔ یہ حاکموں کا قصور تھا کہ انہوں نے ملا طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے،اور آبادی بڑھنے کی رفتار اور کرپشن بڑھنے کی رفتارکو نہیں روکا ۔ اس کی ایک بڑی نشانی مہنگائی کا طوفان ہے، جو آج تک قابو میں نہیں آ سکا۔نہ فوجی حکومتوں سے اور نہ جمہوری حکومتوں سے۔
پاکستان کے اوائل میں کہتے تھے دو سو خاندانوں کی حکومت تھی جو اب بڑھ کر شاید ڈھائی سو ہو گئی ہے ۔ ان خاندانوں نے جو زیادہ تر جاگیر دار طبقے سے تھے، اپنی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور ان کو سول سروس، فوج، اور صنعت کاری میں ڈال دیا۔ اورکچھ کو سیاست میں۔ اچھا تھا یا برا، جاگیر داروں نے کاشتکاری کی طرف توجہ دی جس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ملک خوراک میں خود کفیل بنتا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان طاقتور گروہوں نے ایک طرف تو ملاوئںکے ساتھ بنا کر رکھی کیونکہ وہ ملا طاقت سے الجھنا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف انہوں نے اچھی تعلیم کو صرف اشرافیہ کا حق سمجھا۔ اگر عوام کے بچے سرکاری سکولوں اور مدرسوں میں پڑھتے تھے جہاں تعلیم کے نام پر رسمی کاروائی ہوتی تھی (اور ہوتی ہے)، تو اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔اس کے علاوہ ان کی حکمت عملی خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تھی۔ وہ اس لیے کہ اگر آبادی کم ہو گئی تو مزدور کم ملیں گے اور اُجرتیں بڑھ جائیں گی۔فوج بھی آبادی کی روک تھام کے خلاف تھی کیونکہ جنگ کی صورت میں انہیں بہت سے فوجی توپوں کی خوراک بنانے کے لیے چاہئیں۔ان سب نے ملائوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف اکسائے رکھا۔
مندرجہ بالا حالت کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اگردس لوگ ملک سازی میں مصروف تھے، تو نوے صرف اپنی جیب بھرنے میں مصروف تھے۔ اگر اس کشمکش میں کوئی بھلائی کا یا ملک کی ترقی کا کام ہو جائے تو کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ کے ستر سال، اسی طرح گذرے۔اس کے نتیجہ میں آج پاکستان تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے۔ موجودہ حکمران اپنی تئیں ان بگڑے ہوئے حالات کو سدھارنے کی کوشش کر رہا ہے، اور صحیح یا غلط، اس نے کرپشن کے خلاف محاذ کھول دیا ہے، جس کے نتیجہ میں جن لوگوں نے اربوں روپے کمائے وہ ملک کے کرپٹ نظام کی مدد سے یا ملک سے باہر بھاگ رہے ہیں، یا بھاگنے کے لیے تیارہیں۔ ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ اہلکاروں کو کیا ہر سرکاری ادارے کو منہ مانگی قیمت دیکر چُھٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کو پکڑنے والے کیا اور عدالتیں کیا ، سب ہاتھ پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے، کہ وہ ذرائع ابلاغ جو عوام کو حالات پر صحیح صحیح خبریں اور تبصرہ دینے کے مجاز ہیں، وہ بھی باقیوں کی طرح نذرانہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔لگتا ہے ہر آدمی غربت کا شکار ہے، کم از کم اخلاقی غربت کا۔اس کے نتیجہ میں موجودہ حکمرانوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔بجائے اس کے کہ ان کے اچھے کاموں پر توجہ دلائی جائے ، ہر زید، بکر، باجی اورتاجی، حکومت میں کیڑے نکالنے کے ماہر بن چکے ہیں۔ اکثر ٹی وی کی نیوز چینل اور اخبار حکومت میںکیڑے نکالنے کے ماہر نظر آتے ہیں۔ کئی تو ایسی دور کی کوڑیاں ڈھونڈ کر لاتے ہیں، بمعہ دستاویزات کے پلندوں کے، کہ لگتا ہے سچ ہی ہو گا۔اس کی ایک تازہ مثال برخودارعمران ریاض خان کا پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدارکے خلاف رشوت لینے کا دعویٰ۔ اس راقم نے تو سنتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ من گھڑت کہانی ہے۔ سنا ہے کہ بزدار صاحب نے ریاض صاحب پر جھوٹا کیس بنانے کا اور ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔اس مقدمہ کے فیصلے سے بہت سوں کو کان ہو ں گے۔ ایسے صحافیوں کو زبان عام میں لفافہ صحافی کہتے ہیں غالباً اس لیے کہ ان کو متعلقہ پارٹیاںبخشیش کے نوٹ لفافے میں ڈال کر دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر عدالت نے بزدار کے حق میں فیصلہ کر دیا تو ہرجانہ کون ادا کرے گا؟
پاکستان جس موڑ پر کھڑ اہے، اور خدا کی مہربانی سے اسے ایک ایماندار قائد مل گیا ہے جو پاکستان کی بہتری کے لیے سب کچھ کرنا چاہتا ہے، بشرطیکہ مخالفین ہر قدم پر اس کی ٹانگ نہ کھینچیں۔ لیکن حالات ایسے ہیں کہ مخالفین اپنا پنڈ چھڑوانے کے لیے سارا دبائو عمران خان اور اسکے وزراء اورسیاسی حلیفوں پر ڈال رہے ہیں۔ لیکن عمران خان خواہ کچھ بھی ہو وہ کرپشن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ جو ہو سو ہو۔سب سی دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا گیا ۔اور مذہبی رہنمائوں نے پاکستانیوں کو اسلام سمجھنے کا نہ رستہ بتایا اور نہ انہیںاللہ کی کتاب سمجھ کر پڑھنے کی ہدایت کی۔مذہب کے ٹھیکیداروں کا رویہ نا قابل فہم ہے۔ وہ قران حفظ کرنے کو بڑی اہمیت دیتے ہیںحالانکہ فی زمانہ اس کی ضرورت صرف تراویح پڑھانے والے اصحاب کو ہو گی۔ بچوں کو قران حفظ کروانے کا ایک ہی فائدہ ہے کہ پڑھانے والے مولوی صاحب کی روزی کا بند وبست ہو جاتا ہے۔ قران مجید کی صرف تلاوت کرنا اور اس کو سمجھے بغیر پڑھنا، نہ رسول خدا کا فرمان ہے اور نہ عقل کا تقاضا ہے۔ اگر ملائوں نے قران کو سمجھ کر پڑھنے کی تلقین کی ہوتی تو شاید آج بہت سے لوگ صراط المستقیم پر چل رہے ہوتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کچھ مذہبی رہنما جانتے بوجھتے ہوئے بھی، ذاتی مفاد کے لیے، ملک میں فتنہ فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ اور حاکم وقت سے تعاون کے بجائے اس کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں۔
صاحبو، پاکستان بنے ۷۳ سال بیت چکے ہیں۔ آج پاکستانیوں کی اولین ضرورت تعلیم کا یہ حال ہے کہ بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے یہ ملک دوسرے ممالک کی نسبت سب سے پیچھے ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کے دنیا کے جو ۹ پسماندہ ممالک ہیں ان میں سے پاکستان کے سکول کی عمر کے بچے جو سکول سے باہر ہیں سب سے زیادہ ہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کے حکمرانوں نے تعلیم کوکتنی کم اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی نصف سے زیادہ بالغ آبادی لکھ پڑھ نہیں سکتی۔ ملک میں ایسی ہنر مند اور خواندہ آبادی کا فقدان ہے جس کے ساتھ ملک دورِ جدید میں ترقی کی راہ پر چل سکے۔ اس کی ایک وجہ حکومتوں کا تعلیم کی مد میںکم سے کم خرچ کرنا ہے۔ نیپال، اور بروندی جیسے غریب ممالک بھی پاکستا ن سے زیادہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔پاکستان میںایک تخمینہ کے مطابق دس لاکھ گھروں کی ضرورت ہے۔پاکستا ن کو ابھی تک پولیو سے نجات نہیں ملی جو تقریباً تمام دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔یہ بھی ہمارے نیم خواندہ ملا وں کا تحفہ ہے جو پولیو کی مہم کو مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔سیاست کے میدان میں غالباًپاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے ہی ہاتھوں آدھا ملک گنوا بیٹھا ہے۔ ایک ایسا کام جوسوائے بھٹوکے اور کوئی نہیںچاہتاتھا۔گذشتہ حکومتوں میں یا تو حکمرانوں نے کرپشن کے خلاف ہتھیار پھینک دیے یا خود بھی اس میں اپنے ہاتھ رنگنے شروع کر دیے۔یہی نواز شریف حکومت کی مقبولیت کا راز تھا۔ پٹواری کیا اور سرکاری افسر کیا، سب ہی اس کے شکر گزار تھے۔اس کے زمانے میں کرپشن عروج پر پہنچ چکی تھی۔اُدھر پی پی پی نے سندھ میں سرکاری ملازمین، سیاستدانوں اور حاکموں نے ملکر سرکاری خزانے کو لوٹا۔کراچی بد نصیب اس کاروائی کا بڑا شکار تھا۔
اس وقت پاکستان کو بنیادی اجناس اور شکر جیسی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ کا سامنا ہے جو بڑی حد تک بڑھتی ہوئی آبادی کا شاخسانہ ہے۔اگر خدا نخواستہ اس حکومت کو کچھ ہو گیا تو پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ کیونکہ جو گھاگ، شکست خوردہ اور بد عنوان سیاستدان گدِھوںکی طرح ایوان سیاست کے گرد منڈلا رہے ہیں، وہ سب عوام نے مسترد کر دیے ہیں۔اس لیے اسی میں سب کی بھلائی ہے کہ اس حکومت کو نہ صرف چلنے دیں بلکہ اس کی راہ میں روڑے بھی نہ اٹکائیں۔اب خدا کرے کے پاکستان کورونا کی وباء سے بھی نکل آئے جس کا اچھا امکان ہے، تا کہ ملک خوشحالی کی راہ پر چل پڑے۔
Next Post