کلبھوشن یادیو کے لئے سشما سوراج (بھارتی وزیرخارجہ) وہ سورگ باش ہوئیں انہوں نے کہا تھاکہ کلبھوشن بھارت کا بیٹا ہے یعنی ان کا ہونہار سپوت ہے جس نے سینکڑوں لوگوں کو بم دھماکے میں اڑایا، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، لسانی اور فرقہ وارانہ فساد پاکستان میں پھیلائے،سشما صاحبہ عالمی عدالت انصاف میں اس کا مقدمہ لیکر گئیں۔
پاکستان کے ایک گم نام ہیرو نے کلبھوشن کا پورا نیٹ ورک پکڑا تھا، اس نے کتنی ٹھنڈی، گرم راتیں کھلے آسمان تلے فقیروں کے لباس میں گزاری تھیں، ایسا سوانگ بھرا تھا کہ اس کی ماں بھی اسے نہ پہچان پائی تھی، اس وقت بھی یہ بھارتی جاسوس پاکستان میں مزید تباہی کی منصوبہ بندی کررہا تھا، عالمی عدالت میں مقدمہ چلا لیکن جیت پاکستان کی ہوئی، تمام ثبوت پیش کئے گئے، کلبھوشن کا اپنا بیان بھی شامل کیا گیا جس میں اس نے اپنی تخریب کاری کی کاررائیوں کا اعتراف کیا۔
ابھی نندن کو پاکستان نے خیر سگالی کا پیغام دینے کے لئے چھوڑ دیا تھا، اس پر بھی بھارت نے یہ الزام لگایا کہ ابھی نندن کو کسی دبائو کے تحت آزاد کروایا گیا، کلبھوشن کے سلسلے میں بھی انسانی ہمدردی کے طور پر اس کی ماں اور بیوی کو بھارت سے بلوا کر ملوایا گیا، جاسوس کی ماں تو اپنے بیٹے سے کچھ نالاں سی تھی کہ اس نے اپنے گھر والوں کو بھی اپنے کارناموں سے بے خبرر کھا، بہانہ یہ کیا کہ وہ کوئی بزنس کررہا ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے بھی وہی فیصلہ سنایا جوپاک آرمی کی عدالت نے دیا تھا، یعنی سزائے موت کو برقرار رکھا اور جاسوس کی حوالگی کے بارے میں بھی پاکستان کا موقف برقرار رکھا، بھارت چاہتا تھا اس کا بندہ اس کے حوالے کیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
میڈیا پر عجیب عجیب خبریں نشر ہونے لگیں کہ کلبھوشن کو NROمل رہا ہے، کوئی ڈیل ہورہی ہے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا لیکن اس تمام گورکھ دھندے کو ختم کرنے کے لئے طے یہ پایا کہ اسے اپیل کی اجازت دی جائے، پاکستانی وکیل اس کا مقدمہ لڑے کوئی بھارت وکیل جس کے پاس یہاں کا لائسنس نہ ہو یہ مقدمہ نہیں لڑ سکتا، البتہ بھارتی وکلاء مشاورت کر سکتے ہیں، بہرحال ایسی سرزمین پر جو دہشت اس شخص نے پھیلائی اور کتنی جانوں کا زیاں ہوا، کتنے لوگ اپاہج ہو کر زندہ درگور ہوئے، عوام ظاہر ہے کہ اس کی سزائے موت کو ہی جائز گردانتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی فیصلہ بھی قابل قبول نہ ہو گا۔
کلبھوشن کو 2016ء تین مارچ کو پکڑا گیا تھا اور ابھی تک یہ اپنے انجام کو نہیں پہنچا اور یہ کوئی نئی بات نہیں جب کوئی حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے بڑا ہنگامہ مچایا جاتا ہے، چار یا پانچ روز تک شہ سرخیاں چلتی رہتی ہیں، لوگ تبصرے کرتے رہتے ہیں چند دنوں بعد یہ واقعہ ذہنوں سے محو ہو جاتا ہے۔کبھی کبھی وقفے وقفے سے آواز اٹھائی جاتی ہے، معاملہ عدالت میں جاتا ہے، رفتہ رفتہ ٹھنڈ پڑ جاتی ہے جیسے کہ ماڈل ٹائون کا قتل عام، بلدیہ کی فیکٹری کی آتشزدگی یا نقیب اللہ مرڈر کیس، عزیر بلوچ کی تقاریر، شریف خاندان کے کارنامے، زرداری کی فوں فاں، بلاول کی الٹی اور بونگی تقریریں، مولانا کا استعفیٰ مانگنے کا نعرہ بلند ہوتا رہتا ہے اور پھر بغیر انجام تک پہنچتے ہوئے سب کچھ ٹھپ ہو جاتا ہے، روز سننے کو ملتا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی، عوام تذبذب کا شکار ہوتے رہتے ہیں، ان سب وجوہات کی بنا پر اداروں کی کارکردگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے، عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلے کر کے کیسز نمٹائے، ایک جج سے سوال کیا گیا کہ ججوں کا فرض نہیں یا ان پر لازم نہیں کہ انہیں صحیح فیصلہ کرنا چاہیے تو ریٹائرڈ جج نے جواب دیا لازم تو ہے مگر اکثر اپنی ملازمت اور روزی روٹی کا سلسلہ بھی جج کے سامنے آجاتا ہے، جب عدالتیں ہی خوف و ہراس کا شکار ہو جائیں گی تو مثبت نتائج کہاں سے آئیں گے کسی ملک کی بقاء کے لئے عدالتی نظام کا غیر جانبدار اور مضبوط ہونا بہت ضروری ہے، کرپشن کی جڑ سے بیخ کنی کی جائے؎
میں تو سمجھاتھا کہ دو چار ہی ہونگے
تیرے شہر میں تو ہر شخص منافق نکلا!
کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو زندگی سے آزاد کروا دیا جاتا ہے، ابھی سندھ کی ایک صحافی کا انجام دیکھا ہو گا اب اقرار الحسن بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں، انہیں بھی مار دئیے جانے کا خطرہ ہے، یہ حکومت کی بھاری ذمہ داری ہے کہ ایسے صحافیوں، اینکر کو سخت سکیورٹی فراہم کی جائے، ہمارے باضمیر جج، اینکر، میڈیا پربولنے والے صحافی جو بڑی بے جگری سے کرپٹ مافیا کاراز فاش کرتے ہیں ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے ورنہ لوگوں کا حوصلہ پست ہو جائے گا اورکرپشن مافیا کا خاتمہ ناممکن ہو جائے گا۔
کراچی جو اس ملک کا بہت اہم شہر ہے اس کی گلیاں ندی، نالوں کی صفائی کا بیڑا بڑے بڑے سورمائوں نے اٹھایا ،علی زیدی صاحب بھی آئے لیکن نالوں کی صفائی نہ ہو سکی یہاں کا میئر وسیم اختربھی کہیں نظر نہیں آتا، وزیراعلیٰ سندھ نئے سوٹ سلوانے میں لگے ہوئے ہیں، کراچی کے سیوریج واٹر کا نظام بلدیہ کے ہاتھ میں تھا اور بلدیہ ایم کیو ایم چلارہی تھی، سیوریج کا نظام بہت پہلے ناکارہ ہو گیا تھا، پائپ لائنیں ٹوٹ پھوٹ گئیں اور گندہ پانی صاف پانی کی نالیوں سے مل گیا جس سے عوام کو صاف پانی بھی میسر نہیں، اب جو زیادہ بارش ہوئی تو زیادہ پانی آیا( بقول بلاول) تو گٹر بھی ابل پڑے پانی کی نکاسی کا ناقص نظام پانی جو نالوں میں گرنا تھا نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے جمع ہو گیا اب وہ گھروں میں ٹھاٹھیں مارہا ہے؎
یہ میرے چاروں طرف بھیڑ ہے گونگے بہروں کی
کسے خطیب بنائوں کس سے خطاب کروں!!