جیب اور جان

312

پاکستان میں اتنی تیزی سے کورونا وائرس کے متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے اسے ان ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا ہے جہاں یہ وبا خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے سات جون کو اس ادارے نے حکومت کو ایک خط بھیجا جس میں سختی سے لاک ڈائون نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ پاکستان ان شرائط پرپورا نہیں اترتا جو لاک ڈائون ختم کرنے کیلئے ضروری ہیںاسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق جمعے کے دن چوبیس گھنٹوں میں 6604 نئے کیسز سامنے آئے اسوقت ملک میں پونے دو لاکھ متاثرین موجود ہیں اور اس رپورٹ کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد 3382 ہو چکی ہے ملک بھر میں ایسے اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں فل ہائوس کے بورڈ لگے ہوے ہیں ہر شہر میںبپھرے ہوے لوگ ڈاکٹروں اور نرسوں پر تشدد کر رہے ہیں یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہیلتھ کیئر اسٹاف تیزی سے وائرس کا نشانہ بن رہا ہے نو مئی کو جب لاک ڈائون ختم کیا گیا تو اسوقت کل متاثرین کی تعداد پچیس ہزار کے لگ بھگ تھی اسکے ایک ماہ بعدایک لاکھ سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوے میڈیکل ماہرین کے مطابق جولائی اور اگست میں متاثرین کی تعداد نو لاکھ تک جا سکتی ہے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے یہ تعداد بارہ لاکھ بتائی ہے دوسری طرف اسپتالوں کی صورتحال یہ ہے کہ دو کروڑ کے شہر کراچی میں چند بڑے اسپتالوں میں سے ہر ایک میں وائرس کے مریضوں کیلئے صرف دو سو بستر مختص کئے گئے ہیںاس شہر میں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق صرف 751 وینٹی لیٹرز ہیںوزیر اعظم عمران خان کووڈ انیس کے بارے میں متضاد بیانات جاری کرتے رہتے ہیں شروع میں انہوں نے اسے ایک عام فلو قرار دیا پھر نیم دلی کیساتھ لاک ڈائون نافذ کیا تو وہ اتنا نرم تھا کہ جلد ہی میڈیا پر کھچا کھچ بھرے ہوے بازاروں کی ویڈیو کلپس گردش کرنے لگیں جوں جوں متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا حکومت اس بیانئے کو دہرانے لگی کہ پاکستان جیسا غریب ملک اسلئے کسی سخت لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اسکے ڈھائی کروڑ لوگ اگر ہرروز اجرت حاصل نہ کریں تو انہیں فاقے کرنا پڑیں ان ڈھائی کروڑ میں سے ہر ایک اوسطاًچھ افراد کی کفالت کرتا ہے اسلئے لاک ڈائون کے متاثرین کی تعداد پندرہ کروڑ تک جا پہنچتی ہے یہ بیانیہ کئی ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں نے اپنایا ہوا ہے اس حکمت عملی کے حق میں آخری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ کورونا سے لڑ کر مرا جائے بہ الفاظ دیگر یہ طرز فکر عام کرنے والی حکومتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ بہادر بنو وائرس کا مقابلہ کرو ہمیں خواہ مخواہ تنگ نہ کرو اس حکمت عملی نے کئی بد نصیب ممالک کو ایک خطرناک تجربے سے دوچار کر دیا ہے یہ حکومتیں در اصل معیشت کو بچانے کیلئے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیںلیکن اصل صورتحال خدا ہی ملا نہ وصال صنم جیسی ہے لوگوں کی جانیں بھی نہیں بچ رہیں اور معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق اگلے مالی سال میں پاکستان کی معیشت سکڑ کر 0.2پرفیصد رہ جائیگی ملک میں ریکارڈ شدہ 74ملین ملازمتوں میں سے 18 ملین ختم ہو جائیں گی بھارت کی اکانومی سات فیصد سے سکڑ کر چار فیصد تک آجائیگی اور چین کی معیشت بھی آٹھ فیصد سے گر کر 4.5 تک آجائیگی ان دونوں ممالک کے پاس ہاتھ پاوئں مارنے کیلئے جگہ ہے مگر ایک فیصد سے کم شرح نمو رکھنے والے ممالک میں غربت انتہا تک جا پہنچے گی اسکا مطلب یہی ہے کہ جس جیب کو بچانے کیلئے جانیں قربان کی جا رہی ہیںاس میںسوراخ پڑ جائیں گے
ان حالات میں ضرورت اسبات کی ہے کہ معیشت کو انسانی زندگی پر ترجیح دینے والی حکومتیں انشراح صدر کے ساتھ اپنا بیانیہ پیش کریںاور عوام کو بتائیں کہ انکی حکمت عملی کن دلائل کی وجہ سے بہتر ہے مگریہ حکمران دو چار گھسی پٹی باتوں سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے انکا زور بیان عام آدمی کو روزگار دینے اور معیشت کو بچانے پر ٹوٹتا ہے یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ معیشت کا مقصد کیا ہے اسکا سادہ جواب یہی ہے لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کئے جائیں تاکہ وہ اپنی آمدنی سے خوراک اور دیگر اشیاء خرید سکیںمگر امریکی ماہر معاشیات پال کروگ مین کی رائے میں پیسہ ہر مرض کی دوا نہیں ہے پیسہ تو ایک خاص منزل تک پہنچنے کا راستہ ہے کروگ مین کا کہنا ہے کہ وہ منزل زندگی کی ہے کوئی حکومت اگر لوگوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتی تو اسے فوراًحکمرانی سے ّدستبردار ہو جانا چاہیئے کروگ مین نے ظاہر ہے کہ انتیس مئی کا کالم ڈونلڈ ٹرمپ کی لاک ڈائون ختم کرنے والی پالیسی کے خلاف لکھا ہے مگر اس کالم میں اس نے ہر حکومت کے فرائض پر روشنی ڈالتے ہوے کہا ہے کہ کسی بھی حکومت کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دے بلکہ اسکا اصل کام لوگوں کی زندگی میں بہتری لانا ہے کوالٹی آف لائف کو improve کرنا ہے بنیادی بات یہی ہے کہ زندگی ہو گی تو اسمیں بہتری آئیگی اور اگر کوئی حکومت معیشت کو زندگی سے بہتر سمجھتی ہے تو اسے زندگی کی اہمیت کا پتہ ہی نہیںایسی حکومت اخلاقی طور پر حکمرانی کا جواز کھو بیٹھتی ہے اسے زندگی کو بے وقعت کرنے سے پہلے ہی اقتدار سے دستکش ہو جانا چاہیئے کروگ مین سادہ لفظوں میں بڑی بات کہنے کا فن جانتا ہے اس نے لکھا ہے کہ موت سے بچنا ہی زندگی ہے اور ہر حکومت کایہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو موت سے بچائے اور زندگی کے خوبصورت ہونیکا یقین دلائے کروگ مین کہتا ہے کہ Open too late and we lose some money. Open too soon and we risk killing many people which will probably force a second, even more costly lock down تو پھر سوال یہ ہے کہ ان حکمرانوں کو اگر لاک ڈائون دوبارہ نافذ کرنا پڑیگا تو انہوں نے پہلے کو ختم کیوں کیا اسکا جواب یہی ہے کہ یہ حکمران زیادہ سوچ بچار کے عادی نہیں ہیںانہیں یقین ہے کہ کورونا بہت جلد چلا جائیگا اس دوران جو ہو گا دیکھا جائیگا خواہ مخواہ دل جلانے کی ضرورت نہیںاموات کو روکا نہیں جا سکتا لہٰذامعیشت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کروگ مین کی رائے میں یہ سب ایسے مفروضے ہیں جنکی بنیاد willful ignorance یعنی دانستہ عدم واقفیت پر ہے یہ حکمران خود تو جانتے ہیں کہ کورونا کتنی خطرناک وبا ہے مگر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ فلو کی طرح ہے انکی حکمرانی کی ساری عمارت جھوٹ اور منافقت پر کھڑی ہے یہ صرف اپنے عوام ہی کو نہیں اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہے ہیںوہ لوگ جنکی جیبیں خالی ہیں اورجانیں دائو پر لگی ہوئی ہیں وہ انکے ہتھکنڈوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وقت آنے پر وہ اپنا فیصلہ ضرور سنائیں گے یہ شعر انہی حکمرانوں کے بارے میں کہا گیا ہے
یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے
اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا!
عتیق صدیقی