ہفتہ وار کالمز

وردی میں کالی بھیڑیں !

بچپن میں بزرگوں کو جب یہ کہتے سنتے تھے کہ کمینہ اپنی اوقات کہیں نہ کہیں دکھاکے رہتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کمینہ کے پاس اپنی اوقات دکھانے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟
اب یزیدِ وقت، عاصم منیر نے اپنے طرزِ عمل سے ہمیں کسی شبہ یا وہم میں نہیں رکھا کہ کمینہ اپنی اوقات کیسے دکھاتا ہے۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ عمران خان نے کس دردِ دل اور پاکستان اور اپنی قوم کیلئے اس کے دل میں جو خلوص اور محبت کا جذبہ ہے اس سے مجبور ہوکے یزیدِ پاکستان کو ایک خط بہت تفصیل سے تحریر کیا ہے جس میں ان تمام وجوہات کی واضح نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے عمران کی ذات کو پابندِ سلاسل رکھا ہوا ہے، پندرہ ماہ سے زائد عرصہ سے، اور اس کے علاوہ یزید نے اپنی فسطائیت اور طاغوت کا جو نظامِ جبر پاکستان پر مسلط کیا ہوا ہے اس نے پاکستان کو کیسے جگ ہنسائی کا سامان بنایا ہوا ہے !
ہمیں یقین ہے کہ عمران کو وہ خط تحریر کرتے ہوئے کوئی خوش فہمی نہیں تھی کہ وہ جس کو قوم کے درد سے مجبور ہوکے مخاطب کر رہا ہے وہ کس فطرت اور مزاج کا ہے لیکن یہ اندازہ شاید اسے نہیں تھا کہ اس کا مکتو علیہ کس درجہ کمینہ اور کم اوقات ہے کہ وہ خط کا جواب دینا تو کجا پہلے تو صاف انکار کرے گا کہ عمران کا خط اس تک پہنچا بھی نہیں ۔
جی ہاں، یزید کے ابنِ زیاد، یعنی فوج کے تعلقاتِ عامہ کے نگراں جرنیل نے پہلے تو ڈھٹائی سے یہ انداز اختیار کیا کہ ان کے والی سرپرست کو کوئی خط موصول نہیں ہوا پھر جب زیادہ شرم دلائی گئی تو بڑی نخوت سے یہ کہا کہ کسی کو اگر سیاسی معاملات میں خط لکھنا ہو تو وہ حکومتِ وقت کو لکھے اسلئے کہ اس ابنِ زیاد کے قولِ کاذب کے مطابق فوج کا سیاسی معاملات سے کیا لینا دینا!
خدا کی لعنت ہو ایسے شیطان کے چیلوں پر جن میں غیرت اور شرم کی کوئی رمق تک نہ ہو۔ یہ فوج کا وہ نقیب ہے جو ہر سیاسی معاملہ پہ اپنے تابع فرمان صحافیوں کو بلاکے کئی کئی گھنٹے بکواس کرتا رہتا ہے،ہرزہ سرائی عمران اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کمینہ کی جرأت دیکھو کہ کہتا ہے فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے!
یزیدی زہر کیسے قوم کے بطن میں پھیل گیا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے ہفتے یزید کے اسی گماشتے کو کراچی میں علماء کے ایک کنونشن سے خطاب کرنے کیلئے بلایا گیا جہاں اس نے جو بکواس کی سو کی لیکن اس کو مدعو کرنے والے بے ضمیر اور دین فروش ملاؤں نے اس کی جو مدح سرائی کی اسے سن کرہر بے یقیں کو یقین آگیا کہ بقول حکیم الامت، علامہ اقبال، دینِ ملا فی سبیل للہ فساد !
اس ابنِ زیاد کی بوٹ پالش کرتے ہوئے ایک ملا نے یہ فتوی صادر کردیا کہ آئی ایس پی آر ( جس نام سے فوج کے تعلقاتِ عامہ کو عام طور پہ جانا جاتا ہے ) کا محکمہ تو، نعوذ باللہ رسولِ اکرم کے زمانے سے چلا آرہا ہے !
ملا دین فروشی کر رہے ہیں تو ان کے ممدوح جرنیل ملت فروشی کے کاروبار میں مگن بلکہ غرق ہیں!
لگتا ہے کہ عمران نے بھی ٹھان لی ہے کہ جھوٹے کو جھوٹے کے گھر تک پہنچا کے دم لے گا !
اسے بھی یہی معلوم ہوگا کہ جس یزید کو وہ ملک کی زبوں حالی کی طرف متوجہ کرنا چاہ رہا تھا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا اور جواب ہو بھی کیسے؟ جو ملک کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار ہے وہ کیا جواب دے گا۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اسلئے وہ نہ چل سکتا ہے نہ بھاگ سکتا ہے۔ کس منہ سے یزید کہے گا کہ نہیں وہ نہیں کوئی اور پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار ہے، کوئی اور ہے جس نے پاکستان کو دنیا میں مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔ کوئی اور ہی ہے جس نے قوم کو بد ترین فسطائیت کے جال میں پھنسا کے چھوڑا ہے !
تو عمران نے قوم کو اور دنیا کو یزید کا سیاہ، گھناؤنا چہرہ دکھانے کیلئے ایک اور خط آٹھ (8) فروری کو تحریر کردیا ہے جس کا متن سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قیدی عام میڈیا پر بھی الم نشرح ہوگیا ہے۔
عمران نے اپنے اس دوسرے مکتوب میں پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اس کیلئے خط لکھنے کا محرک یہ ہے کہ قوم میں فوج کے رویہ اور کردار کے ضمن میں جو بے چینی اور اضطراب ہے یزید کی توجہ اس کی طرف مبذول کروائی جائے کہ وہ فوج جس سے قوم پہلے والہانہ محبت کرتی تھی اب اسی فوج کیلئے عوام کے دلوں میں بیزاری اور نفرت بڑھتی جارہی ہے، فوج اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے جو نہ فوج کے حق میں نہ ہی قوم کے حق میں نیک فال ہے !
عمران نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف الفاظ میں یزید کو جتادیا ہے کہ اس کی تمام ترذمہ دار وہ، بقول اس کے، "کالی بھیڑیں” ہیں جو یزید کی سرپرستی میں نظامِ فسطائیت کو فروغ دے رہی ہیں اور قوم کے دلوں میں اپنی ذلیل اور گھٹیا حرکتوں سے نفرتیں بڑھا رہی ہیں!
عمران نے اپنی مثال دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یزید کا ایک نمائندہ، کوئی چھٹ بھیا، رذیل کرنل اڈیالہ جیل میں اسی مقصد کیلئے بٹھایا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو جتنا ذہنی اور جسمانی طور پہ ایذا پہنچا سکے پہنچائے۔
یہ چھٹ بھیا کرنل ظاہر ہے کہ اپنے آقا اور سرپرست یزید عاصم منیر کی طرح سے ہی کسی کم نسب خاندان کا فرد ہوگا۔ یہ کالی بھیڑیں جو قوم پر مسلط ہیں اور اس کو ہر طرح سے ایذائیں پہنچا رہی ہیں پنجاب کے چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں کی پیداوار ہیں اور ایسے کم نسبوں اور کمینوں کو جب طاقت مل جائے، قوم و ملک کی بدنصیبی اور بد اعمالیوں کے صلہ میں، تو وہی اوچھی اور ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں جو عاصم منیر اور اس کے اردگرد کالی بھیڑیں کر رہی ہیں!
یہ چھٹ بھیا کرنل جو عمران کی نگرانی پہ مامور ہے خود کو ہرقانون اور آئینِ پاکستان سے بالاتر سمجھتا ہے ۔ اڈیالی جیل کا سپرنٹنڈنٹ، بقول عمران کے ایک نیک نفس اور شریف انسان تھا جسے اس رذیل کرنل نے اپنے غنڈوں کے ہاتھوں ایذائیں پہنچائیں اور اس کے گھر والوں کو بھی نہیں چھوڑا۔
عمران نے خاص طور پہ یزید کو اس امر کی جانب متوجہ کیا ہے کہ اس کے دورِ یزیدی میں چادر اور چاردیواری کی جس طرح توہین اور تکذیب ہورہی ہے اسے دیکھتے ہوئے تو سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ اپنے ہی ملک کی فوج ہے یا کسی دشمن ملک کی جس نے پاکستان پر قبضہ کرلیا ہے اور اب اسے مقبوضہ گردانتے ہوئے وہ حرکتیں کر رہی ہے جو دشمن بھی نہیں کرتے!
عمران بذاتِ خود نیک ہے، شریف النفس ہے اسلئے اس نے اپنے خط میں بقول شخصے ہاتھ ہولا رکھا ہے، شرافت کے دائرہ میں بات کی ہے ورنہ تو وہ اس نام نہاد (جعلی) حافظِ قرآن کو یاد دلاسکتا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کی متفق علیہ حدیث ہے کہ کم نسب کی اطاعت ضروری نہیں ہے!
عمران اس یزیدِ پاکستان کو یاد دلاسکتا تھا ، بلکہ اسے آئینہ دکھا سکتا تھا کہ لو، اس میں اپنے کریہہ خد و خال دیکھ لو کہ پاکستان پر تجھ جیسے کمینے نے وہ نظامِ فسطائیت مسلط کیا ہوا ہے جس سے ہٹلر کے فسطائی جرمنی کو بھی شرم آجائے۔
دنیا پاکستان میں جو لاقانونیت کا نظام دیکھ رہی ہے، اسلئے کہ آج کی ڈیجیٹل دنیا نہ اندھی ہے نہ بہری ہے اور نہ ہی گونگی ہے، اس پر دنیا کو بھی حیرت ہے کہ یہ یزیدی دنیا کو ایک نام نہاد اسلامی جمہوریہ کا کیا نقشہ دکھانا چاہتے ہیں؟
تو پاکستان کے کشکولِ گدائی میں قرضوں کی بھیک ڈالنے والے آئی ایم ایف نے جو وفد پاکستان روانہ کیا ہے وہ اسلام آباد میں صرف پاکستان کی وزارتِ خزانہ سے ہی بات نہیں کرنے آیا بلکہ ان اداروں میں بھی تحقیقات کرے گا، ان سے بھی، بشمول سپریم کورٹ آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل، ملاقاتیں کرے گا جو قانون کی بالادستی اور حکمرانی کیلئے کلیدی شعبے گردانے جاتے ہیں۔
آئی ایم ایف کا وفد کرید کرید کے یہ جاننا چاہے گا کہ پاکستان میں جو موجودہ لاقانونیت ہے اور ملک میں جس وسیع پیمانے پر انسان کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں ان کے پسِ پشت کیا محرکات ہیں، کون ان کا ذمہ دار ہے اور کون فسطائیت کے اس نظامِ جبر کو ملک و قوم پر مسلط کئے ہوئے ہے!
ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف تو یزیدی ٹولہ اور اس کی کالی بھیڑوں کے تابع فرمان نہیں ہے۔ سو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ماہرین اور کارندے اپنی تحقیقات کے نتیجہ میں اپنے ادارہ کو کیا رپورٹ پیش کرسکتے ہیں اور اس رپورٹ پر ادارے کا کیاردِ عمل ہوگا!
اس کے علاوہ یورپی یونین کے انسانی حقوق کے ادارےکے سربراہ نے ابھی جو اسلام آباد میں پورا ایک ہفتہ گذارا ہے اور جو کچھ اس نے وہاں صورتِ حال کا مشاہدہ کیا ہے اس کے کیا تاثرات ہوتے ہیں اور ان سے پاکستان کے حق میں کیا مضمرات مرتب ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے یزیدیوں کے نظامِ جبر سے آزاد اور مبرا اداروں اور شخصیات کی پاکستان کے فسطائی نظام کے بارے میں رائے کیا ہوگی اس کے متعلق بلا خوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی ہی کہیں گے !
لیکن چھٹ بھیے عاصم منیر اور اس کے کم نسب اور کم ظرف حواریوں اور سیاسی گماشتوں کو اس سے کیا سروکار، وہ تو بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں اور عمران خان کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند رکھنے کے سوا ان کی اگر کوئی اور ترجیح ہے تو وہ پاکستان کی بچی کھچی ہوئی دولت پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔
جہاں تک یزیدیوں کا تعلق ہے عمران خان کی دردمندانہ آواز صدا بہ صحرا ہی رہے گی۔ اصل سوال تو قوم کا ہے کہ وہ کب تک سوئی رہتی ہے اور اس کے جاگنے کی کوئی امید ہے یا نہیں!
عمران کی نذر یہ چار مصرعے ہیں:
؎چھٹ بھیے کی اوقات کو سمجھو، عمران
کم نسب کو منہ لگاتے کیوں ہوتم
نالی میں رکھو جو بارہ سال بھی
پھر بھی کتے کی نہ سیدھی ہوگی دم!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button