دہشت
ملک پر اک عجیب سایہ ہے
ہارتی ہے یہاں محبت پھر
امن کی بات صرف کچھ دن تک
سر اٹھانے لگی ہے وہشت پھر!
قارئین کرام یہ کالم قلمبند کرتے ہوئے ہمیں انتخابی بوالعجبیاںصاف نظر آرہی ہیں۔ اللہ نے پاکستان پر اپنا کرم کیا کہ بغیر کسی ہنگامے اور دہشت گردی کے انتخابات مکمل ہو گئے لیکن مکمل ہونے کے باوجود اب تک متعدد حلقوں کے نتائج فیصلوں کے منتظر ہیں۔چاروں صوبوں میں مختلف امیدواروں نے عدالتوں سے رجوع کررکھا ہے اور درخواست دے رکھی ہے کہ یا تو انتخاب دوبارہ کروایا جائے یا امید وار کو اس کے یقین اور واضح اطلاع کے بعد کامیاب قرار دیا جائے۔ پاکستان کے ہر انتخاب میں اس طرح کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ پنجاب کے ایک حلقے کے امیدوار معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کا دعویٰ ہے کہ انتخابی عمل کے نگران R.Oنے انہیں اوران کی بیگم کو مرکز انتخاب سے گریبان پکڑ کر اور دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ انہیں یقین ہے کہ وہ اس حلقے میں جیت رہے تھے اب وہ عدالت سے انصاف کا تقاضا کررہے ہیں، یہ کالم لکھتے وقت انتخاب مکمل ہوئے 4دن ہو چکے ہیں لیکن اب تک بہت سے حلقوں کے نتائج سامنے نہیں آئے اور متعدد حلقوں کے امیدوار اپنے ساتھ ناانصافی کا رونا رو رہے ہیں۔ مہذب معاشروں میں ہر حلقے میں ووٹوں کی گنتی امیدواروں کے سامنے کی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں امیدواروں یا ان کے نمائندوں کو یہ آسانی میسر نہیں ہے اور یہیں سے شک و شبے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ گزشتہ کالم میں ہم نے اس قیاس کا اظہار کیا تھا کہ انتخاب کے بعد پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی اور ہم اب بھی اس اندازے پر قائم ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور دیگر صورتوں کے علاوہ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت کی مدت کے دوران آدھے آدھے وقت مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے نمائندے وزیر اعظم پاکستان کا کردارادا کریں لیکن ابھی تجویز زیر غور ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک راہ نما کا کہنا ہے کہ اگر معاملات ان کی امیدوں اور دعوئوں کے مطابق طے نہیں ہو پاتے تو وہ ایوان میں حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے اور حکومت کے اقدامات پر کڑی نظر رکھیں گے۔ پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت تحریک انصاف کو پاکستان کے عوام نے سراہتے ہوئے اسے بہت موثر انداز میں کامیاب کرایا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ اس جماعت کو قصداً تمام انتخابی مراعات سے محروم رکھا گیا۔ اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اسے باقاعدہ جلسے جلوس کی اجازت نہیں ملی۔ اس کے صف اول کے راہ نما یا تو داخلِ زنداں ہیں یا پوشیدہ ہیں ان تمام قدغنوں کے باوجود یہ جماعت انتخابی عمل میں سب سے زیادہ مقبول ثابت ہوئی۔ تحریک انصاف کے بانی تاحال داخل زنداں ہیں ان کے کچھ ساتھی ان سے ملاقاتوں کی کوشش کررہے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ ان کے نمائندوں اور وکلاء کو ان سے ملنے کی اجازت بھی آسانی سے نہیں مل رہی ہے۔ تحریک انصاف ابھی تک سوچ میں مبتلا ہے کہ وہ کسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی سعی کرے۔ یہ جماعتیں کچھ بھی سوچتی رہیں لیکن ہو گا وہی جو پاکستان کے طاقتور ادارے چاہیں گے اور انہیں ارباب حل و عقد کی خواہش پر نئی حکومت تشکیل پائے گی اور ایک مرتبہ ہم پھر اس یقین کااظہار کرتے ہیں کہ یہ سہرا مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سر بندھے گاکہ پاکستان کے مقتدر ادارے پہلے ہی سے یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرے اور اس بات پر کڑی نظر رکھے کہ حزب اقتدار عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلانے میں اپنا کردار تندہی سے ادا کرے۔ ہمیں امید ہے کہ ۱۰۔۱۲ دن میں تمام حلقوں کے انتخابات کے نتائج بھی سامنے آجائیں گے اور عدالتیں بھی انتخابی امیدوارں کی شکایات کا دیانتدارانہ فیصلہ کر لیں گی۔ اس وقت دنیا کی نظریں پاکستان کی سیاست پر لگی ہوئی ہیں اور ایک مستحکم پاکستان عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہم پاکستان کے مقتدر اداروں سے بھی التماس کرتے ہیں کہ زمامِ حکومت کسی سیاسی پارٹی یا پارٹیز کے حوالے کرتے وقت عوام کی خواہشوں کو بھی مدنظر رکھیں تاکہ بنائے جانے والی حکومت اپنی مدت پوری کرے اور پاکستان گومگو کی حالت سے نجات پائے۔ یاد رکھیے یہ پاکستان کے لئے بہت اہم موقع ہے اور مقتدر حلقوں کو بہت سوچ سمجھ کر زمامِ حکومت کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں دینی ہو گی۔