ہفتہ وار کالمز

ایک صدر ایک بادشاہ!

اردن کے شاہ عبداللہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکہ آئے ہوے ہیں۔ امریکی صدر نے منگل چار فروری کو غزہ پر قبضے کے بارے میں جو بیان دیا تھا اسمیں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ دو ملین فلسطینیوں کو اردن اور مصر منتقل کرنے کے بعد غزہ کو مڈل ایسٹ کا Riviera بنا دیں گے۔ انگریزی کے اس لفظ کا مفہوم سمجھنے کے لیے میں نے ڈکشنری سے رجوع کیا تو اسمیں لکھا تھا کہ یہ معتدل آب و ہوا کے علاقوں کا ساحلی تفریحی سبزہ زارہے جو جنوب مشرقی فرانس اور شمال مغربی اٹلی میں ہوتاہے۔ غزہ کیونکہ گذشتہ پندرہ ماہ سے مسلسل خبروں میں ہے اس لیے اسکی تاریخ اور جغرافیہ مجھ جیسے ہر اخبار بین کو معلوم ہے۔ یہ بحیرہ روم کے کنارے ایک خوبصورت ساحلی پٹی ہے جسے اسرائیل نے کئی عشروں سے ایک Concentration Camp (قیدیوں کو یکجا رکھنے کی جگہ)بنایا ہوا ہے۔یہاں بجلی اور اشیائے ضروریہ صیہونی ریاست کی مرضی سے مہیا ہوتی ہیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل کہا جاتا ہے۔ بحیرہ روم‘ اسرائیل اور مصر کے حصار میں گھری ہوئی اس ساحلی پٹی کی کل لمبائی پچیس میل ہے ۔اسرائیل کے قیام کے وقت لاکھوں فلسطینیوں کو انکے گھروں سے بیدخل کر کے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ میںرہنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ فلسطینیوں کی تین نسلوں نے 77برسوں میں ویسٹ بینک اور غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کی جگہ پکے گھر‘ دکانیں‘ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں اور اسپتال بنا دیئے۔ وکی پیڈیا کے مطابق 2022 میں غزہ اور ویسٹ بینک میں شرح خواندگی 97.84 فیصد تھی جب کہ اسی سال اسرائیل میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد 91.75 فیصد تھی۔ فلسطینیوں کے بارے میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ اتنے محکوم اور محروم ہونے کے باوجود انکی شرح خواندگی اتنی زیا دہ کیوں ہے ۔ اسکا جواب یہ ہے کہ فلسطینی جانتے ہیں کہ علم ایک طاقت ہے اور آزادی اس طاقت کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔
غزہ کے لوگوں کو بحیرہ روم کے ساحل سے بے پناہ محبت ہے ۔ وہ اپنے بچوں کو اس بحر بیکراں کے ساحل پر کھیلتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جو اسرائیلیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ صیہونی غزہ کے ساحلوں کو ایک طویل عرصے سے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے چار فروری کے اعلان سے چند روز پہلے غزہ کو پہلے ایک بڑا Demolition Site یعنی ایک منہدم اور تباہ شدہ قطعۂ زمین کہا اور پھر اسے ایک Colossal Tourist Spotیعنی ایک شاندار سیاحتی مقام کا اعزاز بھی دے دیا۔ اسوقت کسی کو یہ خبر نہ تھی کہ غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کا اصلی منصوبہ کیا ہے۔ جلد یا بدیر انہوں نے اس منصوبے کا اعلان تو کرنا تھا مگر اسکے لیے انہیں کسی خاص موقعے کی تلاش تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی چار فروری کو واشنگٹن آمد نے انہیں یہ موقع فراہم کر دیا یا پھر انہیں اسی لیے بلایا گیا تھاکہ انہیں انکی موجودگی میںیہ مژدہ جاں فزا سنا دیا جائے۔ نتن یاہو اس روز خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ انہوں نے تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئےاسوقت تومحدود رد عمل پر اکتفاکیا مگر یروشلم پہنچ کر انہوں نے بے اختیار کہہ دیا کہ ’’ صدر ٹرمپ کا غزہ کے بارے میں ایک انقلابی اور تخلیقی ویژن ہے اور وہ اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ ‘‘ انکے اس اظہصار تشکر نے صدر امریکہ کے اس ارادے کے مصمم ہونے کا پتہ دے دیامگراس عزم صمیم کو اسوقت تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا کہ جب تک اردن کے شاہ عبداللہ اور مصر کے صدر فتح السیسی بیس لاکھ فلسطینیوں کو اپنی سرحدوں کے اندر آباد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ دونوں کئی مرتبہ صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہ عبداللہ واشنگٹن میں بھی اپنی بات پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔
پیر کی شام فاکس نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ مصر اور اردن نے اگرانکی بات نہ مانی تو انکی امداد بند کی جا سکتی ہے۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا ’’ میرا خیال ہے کہ اردن پناہ گزین لینے پر تیار ہو جائیگا۔‘‘ ہو سکتا ہے کہ شاہ عبداللہ نے صدر ٹرمپ کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہو۔ وہ بادشاہ سہی مگر وائٹ ہائوس میں درجنوں کیمروں کے سامنے صدر امریکہ کو انکار تو نہیں کر سکتے۔اردن کے بادشاہ نے پس پردہ یہ ضرور کہا ہو گا کہ بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی پہلے ہی انکے ملک میں موجود ہیں۔ آجکل اردن میں صدر ٹرمپ کے ’’ ویژن‘‘ کے خلاف ہونیوالے مظاہرے بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ شاہ عبداللہ اپنے ملک کی دگر گوں معاشی صورتحال کے پیش نظر ہر سال امریکہ سے ملنے والی 905 ملین ڈالر کی امداد بھی نہیں کھونا چاہتے اور اپنے عوام کے غیض و غضب سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ شاہ عبداللہ کی سلطنت دائو پر لگی ہوئی ہے مگر صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ وہ اردن کی امداد بڑھا دیں گے۔ اہل غزہ اور اردن کے لوگوں نے اگر صدر ٹرمپ کی اس ڈیل کو مسترد کر دیا تو پھر کیا ہو گا۔ غزہ کوئی امریکی ریاست توہے نہیںکہ وہاں سے پناہ گزینوں کو ڈیپورٹ کر دیا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہ عبداللہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے ہنگام کہتے کیا ہیں اور صدر ٹرمپ ڈیل بنانے کے لیے اردن کی امداد میں کتنے اضافے کا اعلان کرتے ہیں۔ بادشاہوں پر ایسے وقت آتے رہتے ہیں۔ شاہ عبداللہ اگر واشنگٹن آنے پر آمادہ ہو گئے ہیں تو تذبذب کی اس گھڑی کے بارے میں کچھ سوچ کر ہی آئے ہوں گے۔ امید ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے مہمان بادشاہ کو اس بند گلی سے نکلنے کا راستہ دے دیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button