وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ایرومین کا دورہ

وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ایرومین کا دورہ

امریکی وزیر خارجہ روبیونے کہا ہے ایرومین کے دورے کے موقع پر کہاکہ یہاں آ کر بہت خوشی ہوئی۔ مغربی کرے میں ہوائی جہازوں کو ٹھیک کرنے کی ہماری 25 فیصد صلاحیت یہیں ہے اور آپ اس جگہ کھڑے ہیں جہاں یہ کام ہوتا ہے۔ آپ کو محض مہاجرت روکنے کے لیے ہی اس ترقی کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا بھر میں متوسط طبقہ پیدا کرنے کے لیے بھی اس کی خاص اہمیت ہے اور یہ سب کچھ نجی شعبے کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایک یہ وجہ بھی ہے کہ میں یہاں آنے کا خواہش مند تھا کہ یہاں سرمایہ کاری کے لیے بہت دوستانہ ماحول ہے۔ میں صدر بوکیلے کو طویل عرصہ سے جانتا ہوں جنہوں نے سلامتی اور استحکام مہیا کرنے کے لیے شاندار کام کیا ہے۔ محض ان کمپنیوں کی موجودگی کے سبب یہ ممکن نہ ہوتا جو یہاں طویل عرصہ سے کام کر رہی ہیں۔ اس کے بجائے یہ ترقی اور وسعت ہے جس کی بدولت ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ روزگار کو دیکھیں تو یہ ایسی نوکریاں ہیں جو ہم امریکہ میں بھی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت اچھی اور معقول اجرت اور صلاحیتیں مہیا کرنے والی نوکریاں ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے آپ مزید بڑے پیمانے پر اور پورے کرے میں دیکھنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس جگہ آنا بہت خوشی کی بات اور متاثر کن احساس ہے۔یو ایس ایڈ کے ساتھ میری پریشانی اس دور سے چلی آ رہی ہے جب میں کانگریس میں تھا۔ یہ یکسر غیرمتاثر کن ادارہ ہے۔ اسے محکمہ خارجہ میں پالیسی سے متعلق ہدایات کا جواب دینا ہوتا ہے اور اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لہٰذا، یو ایس ایڈ کے بہت سے کام جاری رہیں گے اور وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہوں گے، لیکن اسے امریکہ کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔میں نے اپنے عہدے کی توثیق سے متعلق ہونے والی سماعت میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہمارے خرچ کردہ ہر ڈالر اور ہماری مالی مدد سے چلنے والے ہر پروگرام کو امریکہ کے قومی مفادات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ یو ایس ایڈ کی تاریخ رہی ہے کہ وہ اس بات کو نظرانداز کرتا آیا ہے اور یہ سمجھتا رہا ہے کہ جیسے وہ کوئی عالمی خیراتی ادارہ ہے جس کا قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ٹیکس دہندگان کے دیے ہوئے ڈالر ہیں۔میرے لیے یہ اطلاعات نہایت پریشان کن ہیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے پر رضامند نہیں ہوئے جو محض یہ سادہ سے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ یہ پروگرام کیا کرتا ہے، یہ رقم کون حاصل کرتا ہے، ہمارے ٹھیکے دار (کنٹریکٹر) کون ہیں اور کسے مالی وسائل مل رہے ہیں۔ احکامات کی اس سطح پر خلاف ورزی کے باعث پختہ اور سنجیدہ جائزہ لینا ممکن نہیں رہا جو میرے خیال میں بیرون ملک دی جانے والی امداد کے بارے میں لیا جانا چاہیے۔ ہم یہاں ٹیکس دہندگان کی دی ہوئی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ یہ عطیہ دہندگان کے دیے ہوئے ڈالر نہیں ہیں۔ یہ ٹیکس دہندگان کے ڈالر ہیں اور ہم پر امریکی عوام کا حق ہے کہ ہم انہیں یہ یقین دہانی کرائیں کہ ہم بیرون ملک جو ڈالر خرچ کر رہے ہیں وہ ہمارے قومی مفادات کی تکمیل کے کام آتے ہیں۔ اب تک یو ایس ایڈ میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں نے اس معاملے میں تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے