شاہی فیصلے، پڑھیے اور سر دھنیئے
نیا سال کچھ کے لیے تو نئی خوشیاں لایا ہے اور کچھ کے لیے سوائے بھیانک مستقبل اور تاریکی۔ اب امریکہ کی مثال لے لیں۔ ہمارے نئے بادشاہ جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ہمسایہ ممالک کو ناراض کر دیا ہے۔ پہلے تو کینیڈا کو بتایا کہ ہم تمہیں کئی سالوں سے امداد دے رہے ہیںجس سے تمہیں بیرونی خطرات لا حق نہیں ہوتے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ہم تمہیںاپنی اکاونویں (۵۱) ریاست بنا لیں۔ یہ بات کینیڈینز کو بہت بری لگی۔ انہوں نے ترنت جواب دیا ، ہماری جوتی تمہاری ریاست بنتی ہے۔ٹرمپ نے انہیں کہا کہ امریکہ کو نہ تمہاری بنی کاریں چاہئیں، نہ لکڑی اور نہ دودھ۔ یہ سب ہمارے پاس وافر ہے۔ کاریں ہم امریکہ میں بنا لیں گے۔البتہ تمہیں جو ہم سکیورٹی دیتے ہیں،وہ ہم نے اٹھا لی تو تمہارا کیا بنے گا؟جناب عالی؟کینیڈینز کا کہنا ہے کہ امریکنوں کے مقابلے میں کینیڈا میں مہنگائی کی شرح کم ہے۔صحت کی سہولتیں سستی ہیں اور تقریباً ہر شعبے میں امریکہ سے زیادہ اچھی ہیں۔ ہمارا دماغ خراب ہے کہ امریکہ کی ریاست بن جائیں؟
بادشاہ سلامت نے صرف کینیڈا کو ہی نہیں، پانامہ والوں کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ ادھر ڈنمارک والے گرین لینڈ پر بُری نظر ڈالنے پر بادشاہ سلامت سے ناراض نظر آتے ہیں۔اصل میں ڈونلڈٹرمپ کو یہ وہم ہے کہ اس طرح وہ امریکہ کو اس کی پرانی عظمت واپس دلاسکے گا، جو مختلف جنگوں میں امریکہ کھو چکا ہے۔ ویت نام میں اور پھر افغانستان میں انتہائی شرمناک شکست کھا کر ملک سے نکلے۔ تو وہ زخم ابھی تازہ ہیں۔ اس لیے امریکن سپاہی پا نامہ جیسے ملک پر حملہ کر کے کچھ کسر پوری کر لیں گے۔غالباً پانامہ والے ویسے ہی ہتھیار پھینک دیں گے؟
صدر ٹرمپ نے غیر قانونی نقل مکانی کرنے والے تارکین وطن کے خلاف بہت بڑی جنگ کا اعلان کر دیا ہے،بلکہ ایگزیکٹو آرڈر پاس کر دیا ہے۔ امریکہ میں جتنے غیر ملکی تارکین وطن ہیں ان سب کو واپس میکسیکو بھیج دیا جائے گا۔ وہ صرف قانونی طریقے سے نقل مکانی کا ویزا لیکر واپس آ سکیں گے۔اب غور فرمایئے کہ امریکہ میں کئی کاروبار جیسے کہ ریسٹورانٹ، کار گیراجز،اور چھوٹے موٹے بزنس انہیں تارکین وطن کی مہربانی سے چل رہے ہیں۔یہ زیادہ تر باورچی خانے میں کام کرتے ہیں ، یا دوسری نظروں سے اوجھل جگہوں پر،اس لیے انہیں کوئی نہیں دیکھتا۔ کیونکہ ان کے پاس کام کرنے کا پرمٹ نہیں ہوتا کم از کم فی گھنٹہ کی اجرت سے بھی کم رقم پر نوکری کرتے ہیں جو پھر بھی انہیں میکسیکو کے مقابلہ میں زیادہ اُجرت ہوتی ہے۔مالک ان پر سوشل سکیورٹی بھی ادا نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی اور ٹیکس۔ اس لیے یہ دونوں کے لیے جیت ہی جیت کا سودا ہوتا ہے۔ اب غور کریں کہ یہ سارے کارکن اگر نکال دیئے گئے تو ایک دم ملک میںکام کرنے والوں کا کال پڑ جائے گا۔جو مقامی بے ہنر والی آبادی چاہتی ہے۔یعنی بلیو کالر ورکرز۔ ان کو کم از کم 10 سے 15 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے دینا پڑے گا، دوسرے ٹیکسز علیحدہ۔ ریسٹورنٹ کو یہ وارہ نہیں کھائے گا اور اکثر بند کرنے پڑیں گے۔ اور ٹرمپ صاحب کو بارڈر کھولنے پڑیں گے یا جلدی جلدی ان کو ویزے دینے پڑیں گے، تا کہ گلشن کاکاروبار چلے۔ادھر ٹرمپ نے ایک اور ایگریکٹو آرڈر پاس کیا ہے کہ حکومت کے تمام محکمے افراط زر کو کم کرنے میں مدد دیں اور جہاں تک ممکن ہے قیمتیں کم کروائیں۔ تو یہ دونوں کام کیسے ہوں گے؟تعجب ہے۔
بڑے لوگ ، سیاست دانوں کی حمایت لینے کے لیے، بے سوچے سمجھے ایسے احکامات جاری کر دیتے ہیں کہ عقل حیران رہ جائے۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال ہمارے پیارے صوبے پنجاب سے آئی ہے ۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم شریف نے حکم پاس کیا ہے کہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نمبر پلیٹ والی گاڑیا ںنہیں آنے دی جائیں گی۔ ذرا غور فرمائیے کہ محترمہ نے ایک جنبش قلم سے ملک کی اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ بھلا کیسے؟ حضوروالا، جب کراچی کی بندرگاہ سے مال اندرون ملک نہیں جائے گا اور نہ اندرون ملک کا مال کراچی جا سکے گا تو پاکستان کی برآمدات اور درآمدات کا کیا بنے گا؟پہلے تو یہ سارے ٹرک پنجاب کے بارڈر پر لائنیں لگ کر کھڑے کردیئے جائیں گے۔ پھر رانی صاحبہ کو کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا کر اس مسئلہ کا حل نکالنا پڑے گا اور اس حل پر عمل کرنے میںکئی دن، ہفتے اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔ اس اثنا میں اگر ٹرکوں میں پھل اور تازہ سبزیاں بھری ہیں، وہ تو سب ضائع ہو جائیں گے۔ سمجھدار لوگ عدالتوں کا رخ کریں گے۔ صرف یہی نہیں، پنجاب والوں کی نمبر پلیٹوں پر دوسرے صوبے والے ویسی ہی پابندی لگا سکتے ہیں۔ پھر دیکھئے کہ ملک میں کیسا طوفان برپا ہو سکتا ہے؟ پنجاب کی نمبر پلیٹوں کی بلیک مارکیٹ ایسی بڑھے گی کہ ایک پلیٹ دس، بیس ہزار روپے میں بکے گی۔لوگ باگ پنجاب کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں چرا کر دوسرے صوبہ والوں کو دوگنے بھائو پر بیچیں گے۔اور بھی ہمارے ذہین شہری کئی طریقے نکال لیں گے۔
اکثر صوبے اور ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرحد پر ٹول لگا دیتے ہیں، اس لیے کہ وہ دوسرے علاقے کی گاڑیوں سے سڑکوں کا نقصان ہوتا ہے اس کے لیے آمدنی بڑھا سکیں۔یہی ایک معقول راستہ ہے نہ کہ جو محترمہ رانی صاحب نے چنا ہے۔ عمران خان صحیح کہتے ہیں ایک تو یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں اس پر کوشش بھی نہیں کرتے۔ ہماری پنجاب کی رانی صاحبہ تو اُردو کا ایک فقرہ بھی لکھنا نہیںجانتی ہیں، سوائے بلیک میل کی آڈیو دڈیو بنوانے اور میک اپ کرنے کے انہیں آتا کیا ہے؟ہمارا اندازہ ہے کہ یہ حکم اگر چند گھنٹوں میں نہیں تو چند دنوں سے زیادہ قائم نہیں رہے گا۔
رانی صاحب کا دودھ تو پنجاب کے بچے پی رہے ہیں، اور ان کی مائیں خوش ہیں۔ جب بڑوں کو بازار میں دودھ نہیں ملتا تو وہ بھی بچوں کا دودھ چائے میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچے بڑے سب مریم شریف کا دودھ پی کر ان کو دعائیں دیتے ہونگے۔ویسے بھی مریم نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ سب کی ماں ہیں۔ لیکن کیسی ماں؟ جو عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو کسی لحاظ کے بغیر پولیس سے مار پڑواتی ہے۔ان کو غائب کروا دیتی ہے۔ اگر وہ تحریک کے قائدین ہیں تو ان کو ہفتوں ، مہینوں تک کال کوٹھری میں، بغیر عدالتی حکم کے، رکھنا ان کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ بڑی ظالم ماں ہے۔ بالکل سوتیلی۔ اسے سوائے اپنی پبلسٹی کے اور کسی چیز سے غرض نہیں۔ حتیٰ کہ درسی کتابوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ سنا ہے کہ محترمہ نے حکم صادر کیا ہے کہ دسویں جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب میں ایک ایکسٹرا باب لگایا جائے۔نصاب گیا بھاڑ میں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس باب میں انکی اور انکی والدہ کے کارنامے شامل کیے جائیں۔اب سوائے جھوٹ اور افترا کے اور کیا ہو گا، یہ سوچنے کی بات ہے۔ تاریخ میں اگر نام کمایا بھی ہو تو وہ اس شخص کی وفات کے بعد لکھا جاتا ہے۔ اب رانی صاحبہ کی وفات پتہ نہیں کب ہو گی؟ تب تک پہلی دوسری جماعت کے بچے کس کلاس میں ہو نگے اور اس وقت کا حاکم کیا فیصلہ دے گا؟
اب ٹرمپ صاحب کے آرڈیننس کا حال سنئے۔ انہوں نے ایک حکم پاس کیا کہ جو بچے امریکہ میں پیدا ہوئے لیکن ان کے ماں باپ کے پاس قانونی شہریت نہیں تھی تو وہ بچے امریکی شہریت کے حقدار نہیں ہو سکتے۔ امریکی آئین ان تمام بچوں کو جو امریکہ میں پیدا ہوئے ان کو امریکی شہری بننے کا حق دیتا ہے۔ اس لیے کچھ متاثرہ لوگوں نے عدالت میں اس ٹرمپ کے حکم کو چیلنج کر دیا۔اب یہ کوئی پاکستانی عدالت تو ہے نہیں کہ مقدمہ سال ہا سال تک لٹکتا رہے۔ عدالت نے ترنت فیصلہ سنا دیا کہ ٹرمپ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس قانون کو بدل سکے۔اب ٹرمپ بھائی کو اپیل کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ سپریم کورٹ بھی کچھ مدد دے سکے گی۔اگر ٹرمپ نے اپنی پالیسی کو چلانا ہے تو آئین میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ لیکن راقم کا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کا میاں شہباز نے بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اب سنا ہے کہ بھاری شرحوں پر نجی بینکوں سے ایک ارب ڈالر کا قرض لیا گیا ہے۔ اور اس قرض کے لیے پاکستان کے قیمتی اثاثے گروی رکھے جائیں گے۔یہ قرض اس لیے لینا پڑا ہے کہ محکمہ دفاع کی مانگیں کم نہیں ہوتیں۔ان کا بجٹ اٹل ہے اور انہوں نے اپنی نفری کم نہیں کرنی۔پاکستان جائے بھاڑ میں۔
دفاع کی مانگیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اب وہ پیکا ایکٹ کی ترمیم چاہتے ہیں جس کے مطابق صحافیوں کو جھوٹی خبریں شائع کرنے پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔صحافیوں کو یہ قانون ذرا پسند نہیں آیا۔ یہ تو آزادی صحافت پر کھلا حملہ قرار دیا گیا ہے۔ 14فروری کو پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے فیصلہ کن دھرنا‘ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اب دیکھیے حکومت صحافیوں کے احتجاج کو در خور اعتنا سمجھتی ہے یا طاقت کے نشہ میں چور رہ کر معاملات کو طول دے گی؟صحافیوں نے بھی لکھ کر قسم کھائی ہے کہ ان کے مطالبات قبول ہونے تک دھرنا جاری رہے گا۔ اب میڈیامیں شہباز کے کارناموں پر کون قصیدے لکھے گا؟اور ان کی صاحبزادی کی ذرا ذرا سی بات پر کون تصویریں چھاپے گا؟ سیاست دان کی آکسیجن ہی صحافی مہیا کرتے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کے کارناموں کو صحافی بڑھا چڑھا کر نہ لکھیں تو وہ شہرت کیسے حاصل کریں گے؟وہ فیک نیوز ہوگی کہ نہیں؟
اب اس بات میں کوئی غلو نہیں کہ صاحبزادی کئی دفعہ اپنا چہرہ پلاسٹک سرجری سے بدلوا چکی ہے اور ۲۵ یا تیس سالہ عفیفہ نظر آتی ہے، نئے قانون کے حوالے سے تو بالکل فیک نیوز ہے، تو بے چارے صحافیوں کا کیا بنے گا؟وہ تو ایک تصویر چھاپ کر گناہگار بنیں گے؟
پاکستان کا بنے گا کیا؟ خان صاحب کی بالکل بجا فرمائش ہے کہ حزب مخالف اگر مذاکرات چاہتی ہے تو صرف دو انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کر دے۔ ایک 26 نومبر اسلام آباد کے قتال کا اور دوسرا9 مئی کے واقعہ کا، جس پر مخالفین نے ایک طوفان اٹھایا ہوا ہے۔ کتنی سیدھی سی بات ہے کہ یہ دونوں واقعات پاکستان کی تاریخ میں دہشت ناک ہیں۔9مئی کے بعد سے ہزاروں بے گناہوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور کئی مارے بھی گئے۔ 26 نومبر کو اسلا م آباد میں مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی اور کئی سو بندے مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی چھان بین بنتی ہے کہ نہیں؟ گولیاں چلانے کا انتظام کرنے والوں اور حکم دینے والا کا احتساب ہونا چاہیے کہ نہیں؟ اسی طرح9مئی کے واقعات کابھی۔خان صاحب تو انصاف مانگ رہے ہیں،کوئی خیرات نہیں۔یہ تو کسی بھی جائز حکومت کا فرض تھا کہ وہ انکوائری کمیشن بناتی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرواتی۔لیکن جب دال میں کالا ہو تو حکومت تو کترائے گی کیونکہ عین ممکن ہے اس کے ہاتھ رنگے ہوں۔ حکومت اب آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے اور حکومت اور تحریک کے مذاکرات اب کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔ یہی نہیں۔ خان نے مذاکرت بند کروا دیئے ہیں۔ کوئی فائدہ ہی نہیں۔اب یہ تو ہونے سے رہا کہ حکومت اقبال جرم کر لے، جو کہ کمیشن بننے پر اسے کرنا پڑتا۔
9مئی کے واقعات تو ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں۔ اس میں جو سادہ سے سوال اٹھتے ہیں، ان کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ کمیشن کو تو ذرا سی بھی مغز ماری نہیں کرنی پڑے گی اور بادشاہ کا محل دھڑام سے نیچے گر پڑے گا۔اور یہی وہ ڈر ہے جو اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی۔کیونکہ اگر وہ اس ڈرامے کی خالق نکلی تو یہ غداری کےزمرے میں آئے گا۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ تو مر جائے گی 9مئی کے ڈرامہ کی تحقیقات نہیں ہونے دے گی۔اس لیے مذاکرات جائیں بھاڑ میں۔کیونکہ کچھ ایسا ہی معاملہ 26 نومبر کا بھی ہے۔
اب چودھری صاحب کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عدالت عالیہ پر اپنا قبضہ اور مضبوط کرے۔ اور کوئی فیصلہ نہ ہونے دے جس میں خان اور ان کی بیوی کی سزائیںختم ہوں۔ یقیناً ہمارے جعلی حکمرانوں کی بھی یہی خواہش ہے۔ وہ پانچ دس سال مزے سے حکومت کریں۔ ملک خواہ دیوالیہ ہو یا نہیں۔لیکن ، جیسے کے قرائن بتاتے ہیں، عدالت عالیہ میں حالات بدل رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ 26ویں ترمیم وڑ جائے۔اور سب سے سینئیر جج چیف جسٹس بن جائیں۔ اور عدلیہ کو بھی انصاف میسر آئے۔سب کچھ ممکن ہے۔