سمجھ میں کچھ نہیں آتا !
![سمجھ میں کچھ نہیں آتا !](https://urdutimesusa.com/wp-content/uploads/2024/02/asif-ali-1.png)
اپنے بزرگ دوستوں میں سے ایک نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیںبلکہ حاصل کردہ تعلیمات کے فلاحی پہلوئوں کو سمجھ کر عملی زندگی میں اُسے اپنانا انسانی معراج کی علامت ہے بصورت ِ دیگر اسے نظر انداز کرنا منفی طرز ِ عمل ہوگا جسے خواندہ معاشرے کی جاہلیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسے کوئی بار بار قرآن ِ پاک پڑھے مگر اُس کے ترجمے سے ناواقف رہے یعنی جو پڑھا وہ بابرکت ضرور ہے لیکن اُس کے مطلب سے بے خبر رہنا اور کلام ِ الہی کی ہدایات کو نہ سمجھنا دانشمندی نہیں ہے بلکہ جاہلیت کا بڑھاوا ہے لوگ رسمی طور پر ان باتوں سے وقتی اتفاق تو کرتے ہیں مگر بات کی روح سے اپنائیت نہیں رکھتے یہ بیشعوری کا آسیب جسے رفع کرنے کے لئے قرآن پاک اتارا گیا اور سینہ بہ سینہ جسے محفوظ کر کے اللہ نے ہر زمانے کیلئے روشن ہدایات پھیلادیں ہیں ایمان کے ترازو سے لیکر دنیاوی زندگی کی گزر بسر اور آخرت کے سماں تک کا نقشہ موجود ہے میرے نکتہ نظر جو اس کتاب کو اس کلام ِ الہی کو حفظ کر گیا اُس کے لئے دنیا کا کوئی دوسرا علم مشکل نہیں ہو سکتا اس کے باوجود دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ جو روانی سے انگریزی بولے اُسے ذہین فطین سمجھنے میں لوگ دیر نہیں لگاتے بلکہ بڑی دیر تک متاثر رہتے ہیں ایسے ماحول میں کہنا پڑتا ہے کہ انگریزی بھی دیگر زبانوں کی طرح ایک زبان ہے مگر کسی کے فر فر انگریزی بولنے سے اُسے پڑھا لکھا تصور کرنایا اُسے تعلیم یافتہ جاننا حماقت ہے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ تجاہل ِ عارفانہ کی یہ روش کیوں نسل در نسل پھیلتی ہی جارہی ہے ؟اب تو بیشعوری نے ملک کے طول و عرض میں اپنے ٹھکانے مضبوط بنا لئے ہیں یہ بیشعوری کی پہلی سیڑھی ہے جسے دھائیوں پہلے پھلانگتے ہوئے اب ہم بیشعوری کے ٹاپ 10میں ہیں ۔190ملین پائونڈ کی خرد برد کا فیصلہ تو سامنے آ گیا سزائیں بھی تخفیف ہو گئیں القادر ٹرسٹ کے زیر ِ سایہ بننے والی یونیورسٹی کو بھی قومی تحویل لینے کا عدالتی حکم آ گیا مگر 190 ملین پائونڈجو کہ ہماری کرنسی کے مطابق 70ارب روپے بنتے ہیں ان کی ریکوری کیسے اور کب ہو گی مہنگائی کی دھوپ میں جلتی عوام اور غربت کے کیچڑ میں لتھڑی خلق ِ خدا منتظر ہے کہ کب تک سفید پوش لٹیرے عوامی وسائل پر ملکی خزانے پر بوجھ بنیں گے ایسے کردار کے بندے کو کوئی دکان پر سیلزمین نہیں رکھتا پتہ نہیں ہم بحیثیت قوم کیوں ان لٹیروں کو بڑے بڑے ایوانوں میں پہنچا تے ہیں جو ہمیں اپنے ذاتی مفادات کے لئے خط ِ غربت سے نیچے گرانے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتے ۔اذہان ِ خلق کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ سمجھ نام کی فضلیت ہمیں ودیعت ہی نہیں ہوئی اور اگر کہیں مل بھی جائے تو اُن کی بدن بولی سے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتاکیونکہ انھوں نے بھی شخصیت پرستی کی بیماری کی وجہ سے اپنی پسند کی شخصیت کو الوہئیت کے ہالے میں بٹھا رکھا ہے لہٰذا کسی دوسرے کی جگہ ناممکن ہے دوسرے لفظوں میں جگہ خالی نہیں ہے انھوں نے اپنے اپنے دماغوں میں اپنی پسند کے لوگوں کو اعلی ارفع مقام پر فائز کیا ہوا ہے جس کی جگہ پر کسی دوسرے کو منتقل کرنا کار دارد ہے اسی بیشعوری کو بھانپ کر سیاست اپنے روپ بدلنے میں گوہر یکتا لئے ہوئے منصب پر براجمان رہتی ہے بڑی آسان اور سمجھ میں آنے والی حالیہ کرپشن کی داستان جو تبدیلی سرکار کے نام پر بھاگتی ہوئی القادر یونیورسٹی میں اپنی اونچی نیچی سانسوں کو بحال کرنے میں ان دیکھی طاقتوں سے پانی کی طلبگار دکھائی دے رہی ہے ایسے سانحے کے بعد بھی اگر عوام کہے کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو دانش سے تہی دست ایسے ہجوم ِ بیکراں کو غلامی کے طوق تلے سسکتے رہنے دینا چائیے شاید کچھ صدیوں بعد پے در پے غلامی کی شدتوں سے ضمیر جاگ جائے اور شخصیت پرستی کی پرانی میلی چادر کو اُتار پھینکیں حیرانی اُن پر ہے جو تعلیمی ڈگریوں سے لدے ہونے کے باوجود سچ اور جھوٹ کا تعین کرنے کی بجائے شخصیت پرستی کے حصار میں گِھر کر جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں یعنی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ناخواندہ کو تو زمانے کی الف ب سے مثالیں دے کر سمجھایا جا سکتا ہے مگر خواندنگی سے لبریز ان مہاتمائوں کو کیسے سمجھایا جائے سمجھ میں نہیں آتا کہ قوم کے دانشمند نظریات سے ہٹ کر شخصیت کے گرویدہ کیوں ہوتے ہیں ؟بابا چوریاں جھوٹ سامنے آنے کے بعد تو غیر مسلم بھی ایسے لوگوں کو منہ نہیں لگاتے مگر میرے ملک کے لوگ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے میں بہتر محسوس کرتے ہیں نہ جانے کیوں ؟ سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔