کتاب نصاب اور جھوٹ
انسان کی زندگی میں کتابیں اہم کردار ادا کرتی ہیں مگر کون سی کتا ہیں؟ جواب تو یہی ہوگا،ساری کتابیں ، جی ہاں ساری کتابیں، کتابیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی کتابیں مگر کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو جھوٹ کا پلندہ ہوں اور ان کتابوں کو بڑے اہتمام سے ہم نصاب میں شامل کر دیتے پھر اس کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں، پاکستان کی سیاست میں اس دو عملی نے بڑا فیصلہ کن کردار ادا کیا، کیسے ہو گیا کہ ہندوستان کے وہ بچے جنہوں نے انگریزی نظامِ تعلیم میں لفظ اور ہندسوں کی پہچان سیکھی وہ سب کے سب انگریزوں کے خلاف ہو گئے، جناح نہرو گاندھی، پٹیل مولانا آزاد، حسرت موہانی جو ہر وغیرہ وغیرہ یہ سب انگریزی اسکولوں سے فارغ التحصیل تھے ، سارے بڑے نام ایسے ہیں جنہوں نے آکسفورڈ اور میں تعلیم پائی لوٹے تو سب کے سب آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے انگریز کو معطعون کرتے ہوئے ، انگریزی نظامِ تعلیم نے ان کی ایسی ذہن سازی کیوں نہ کی کہ وہ انگریز کے ہی گن گاتے، پچھلے دنوں ڈاکٹر ظفر عارف کی برسی تھی ظفر عارف میرا چچازاد تھا اس نے آکسفورڈ سے پی ایچ ڈی کیا کراچی یونی ورسٹی میں فلاسفی پڑھاتا رہا ہمارا گھرانہ نیم مذہبی تھا مگر سارے عقائد ویسے ہی جیسے ہر مسلمان کے ہوتے ہیں تو ایسا کیا ہوا کہ ڈاکٹر ظفر عارف اشتراکیت پر ہی لکچر دیتا رہا فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے باہر بڑے لان میں اس کا لکچر سننے کے لئے HUMANITIES کے علاوہ سائنس کے طلبا بھی چلے آتے، برطانیہ ایک سرمایہ دار ملک ہے سرمایہ داری کو ہی DEFEND کرتا ہے سرمایہ داری ہی اس کی معیشت ہے تو اس کی درس گاہوں سے ایسے لوگ کیوں نکلتے ہیں جو سرمایہ داری کے خلاف ہیں، عارف جیسے طلباء کے THESIS تعلیمی ادارہ قبول کر لیتا ہے، اور ان کو اسناد جاری کر دیتا ہے، پاکستان کے کے ایک بڑے ماہر تعلیم وقار عظیم تھے خدا ان کی مغفرت کرے انہوں نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا کہ پاکستان میں وہ نصاب پڑھایا جاتا ہے جو طلباء کی اس طرح ذہن سازی کرتا ہے کہ ایسی نسل تیار ہو جو حکومتی پالیسیوں سے اتفاق کرتی ہو، ایک سوال پر وقار عظیم ہنسے اور بہت خوشگوار لہجے میں بولے کہ نصاب کی ترتیب سوادِ اعظم کے مزاج سے ہم اہنگ کی جاتی ہے آپ دیکھ لیں کہ پوری مشنری ایک نکتے کے گرد گھوم رہی ہے کہ معاشرہ راضی بہ رضا کی تصویر ہو ہم جو مواد اسلامیات یا دینیات کے لئے اکٹھا کرتے ہیں ویسا ہی نصاب انگریزی، فارسی اور اردو کے لئے تلاش کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھ جیسے لوگ جو تھوڑا پڑھے لکھے ہیں وہ ایسا مواد تلاش کرنے میں مدد کرتے ہیں ، سائنس کے طلباء کے بارے میں حکومتی موقف یہ ہے کہ یہ طلباء محض TECHS ہوتے ہیں مگر ابتدائی درجات میں ان کو ایک شکر گزار مسلمان بننا سکھا دیا جاتا ہے ، وہ بھی کتابیں ہیں برطانیہ میں ایشیائی طلباء کو اشتراکی بنا دیتی ہیں اور وہ بھی کتابیں ہیں جو کسی ڈاکٹر اور انجینئر کو یہ بات ذہن نشیں کراتی ہیں کہ ٹوپی اوڑھنے سے ثواب ملتا ہے اور پلنگ پر بیٹھ کر ٹانگیں ہلانا بد شگونی ہے ڈاکٹر وقار عظیم جیسے لوگ مشنری کے پرزے ہوتے ہیں جو اپنی صلاحتوں کو اچھے دام پر فروخت کرتے ہیں مگر ان ماہرین تعلیم نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ذہنی ارتقاء کو روکا نہیں جا سکتا اور ایک زمانہ ایسا آئیگا جب علی الاعلان وہ باتیں زیر بحث آجائیں گی جو ایمان کا حصہ ہوتی ہیں، سوشل میڈیا آزاد ہے پچھلے دس پندرہ سالوں میں نوجوانوں نے ہزاروں سوال کھڑے کر دئے ہیں اب پوچھا جا رہا ہے کہ اگر لاس اینجلس میں بد ترین آگ خدا کی جانب سے غزہ میں قتل عام کا انتقام ہے تو خدا غزہ کے بچوں کو مرنے سے کیوں نہ بچا سکا، قابل غور بات یہ ہے کہ یہ مباحث مغرب میں نہیں، یہ مباحث وہاں ہیں جہاں یہ جھوٹ پڑھایا گیا کہ ایک بڑھیا رسول کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی تھی، جامع مسجد دہلی کے امام کا یہ جھوٹ نصابی کتابوں کا حصہ بن گیا الا ماشا اللہ پاکستان کے ارباب حل و عقد نے بہت سے جھوٹ چھپانے کی کوشش کی، اور اس کے لئے سیاسی اسلام کی ایک چادر بنی گئی یہ کام جلدی میں ہوا، سو چادر چھوٹی بنی اب یہ حال ہے کہ اس چادر سے کبھی سر کھل جاتا ہے اور کبھی پاؤں ، چادر بھی تار تار ہو چکی ہے اب اس چادر کی پیوند کاری کے لئے اہل جبہ و دستار کے پاس دلائل ختم ہو چکے ہیں انہوں نے کچھ ایسے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان رکھ لئے ہیں جو کلین شیو ہیں اور پھٹی چادر کی پیوند کاری کی کوشش کرتے ہیں یہ مکالمہ نہیں مباحثہ سوشل میڈیا پر جاری ہے، اخبارات اور جرائد میں وہ لوگ نظرنہیں آرہے جو کبھی نظریہ پاکستان کی بات کرتے تھے یا پھر شیخ سعدی کی عقلیت پر لکچر دیا کرتے تھے اس بوڑھی نسل کو یہ توفیق تو نہیں کہ وہ اپنے سماجی گناہوں کا اعتراف کرے مگر یہ ہنر ہے کہ وہ کہتے پھریں گیںنوجوان نسل بگڑ چکی ہے، جھوٹ اس قدر بولا گیا کہ خدا کی پناہ اور اس جھوٹ پر عقیدت کی سنہری چادر چڑھا دی گئی ہے مگر لوگ اب سنہرا رنگ پسند نہیں کرتے رنگوں کی پسند کے بارے میں مزاج بدل گئے ہیں ابوالکلام آزاد نے INDIA WINS FREEDOM لکھی ہم مولانا کو کانگریسی کہتے رہے مگر یہ بھی ہوا کہ مولانا کی کتاب کو غور سے پڑھا گیا، اس کتاب میں بھی بہت کچھ سچ لکھا تھا، لکھا تھا کہ تم پاکستان کو متحد نہ رکھ سکو گے، کیونکہ تم قوم نہیں، اور پھر اٹھارویں ترمیم نے پاکستان میں چار پاکستان بنا دئے ، اب یہ ایک باریک دھاگے سے بندھے ہوئے ہیں اگر مجیب کے چھ نکات مان لئے جاتے تو شائد اٹھارویں ترمیم کی ضرورت نہ رہتی ، اب پاکستان کی بات کوئی نہیں کرتا سب صوبائیت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور اقبال ان سب کا منہ تک رہا ہے، بڑا مشکل ہے یہ مان لینا کہ خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی، ہم نے یہ بات تو پاکستان کے عوام تک پہنچا دی کہ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار جنرلز، حج اور جرنلسٹ ہیں مگر بہت ساری تاریخ چھپا لی ظفر علی خاں کو بابائے صحافت کہا گیا مگر یہ نہیں بتایا کہ اخبار انگریز کی دی ہوئی پوٹلی پر چلتا تھا اور اس زمانے میں جو اخبار نکالتا تھا اسے صحافی لکھ دیا جاتا تھا زمیندار مسلمانوں کی بات کرتا تھا تو سماچار ہندوؤں کی کیونکہ سیاست کی فضا ہی کچھ ایسی تھے سو مسلم اخبار ہوں یا ہندو وہ سب جھوٹ کا کاروبار کرتے تھے پچاس سال جھوٹ بولتے رہے تو جھوٹ کو ہی سچ مان لیا گیا، انگلینڈ میں قیام کے دوران کچھ بھارتی ملے جنہوں نے اعتراف کیا کہ بھارت میں جھوٹی تاریخ لکھی گئی ، یہ سچ ہے کہ پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا گیا مگر اس بات کو بھی قبول کر لینا چاہیئے کہ جھوٹ کی حفاظت کے لئے طاقت کا استعمال کیا گیا، اور اس پر دین کی حفاظت اور حب الوطنی کا ملمع چڑھایا گیا شرم آتی ہے کہ ہم ستتر سال سے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں جھوٹ کو چھپا رہے ہیں اور جھوٹ کی پردہ پوشی کر رہے ہیں، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مسلسل جھوٹ بول رہی ہیں، دینی جماعتیں کفر تول رہی ہیں مگر اس جھوٹ سے چھٹکارا نہیں ، ستتر سال کے بعد آخر یہ کہنا پڑا کہ محمود غزنوی ایک لٹیرا تھا اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ ہم نے اپنے جو ہیرو بنا رکھے ہیں وہ ہمارے ہیر و ہیں نہیں پچھلی صدی میں ستر کی دہائی میں سندھی دانشوروں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہمارا ہیرو راجہ داہر ہے محمد بن قاسم نہیں، پنجاب سے بھی بہت ہلکی آواز میں دلا بھٹی اور رنجیت سنگھ کی بات کی جانے لگی، ستتر سال سے صرف جھوٹ پر گزارا ہے اب جھوٹ کھل رہا ہے تو بہتر ہے اپنی تاریخ درست کر لیں، زندگی کے جدید ضابطے بنا لیں، نظریات کو پنپنے دیں تاکہ سانس لی جا سکے آج گنڈا پور نے اپنے ایک انٹر ویو میں تاریخ کو درست کرنے کی کوشش کی ہے جو خوش آئند ہے مگر ان کا کیا کریں جن کو جھوٹ بولنے پر ملازم رکھا گیا ہے، مگر اس کا کیا کریں کہ کبھی کبھی جھوٹ کو بچانے کے لئے اپنے سچ کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے۔