0

عدت

عدت کا لفظ عد سے نکلا ہے جس کے معنی گننا یا شمار کرنا ہے اس مدت ممانعت میں عورت کو دوسرا کوئی نکاح کرنے سے روکا گیا ہے یعنی اجازت نہیں دی گئی کوئی بھی گر یہ حد عبور کر لے تو یہ عمل خلاف ِ دین اور غیر شرعی تصور ہو گا نکاح کے خاتمے کے بعد ایک مخصوص مدت تک عورت کو دوسرے نکاح سے ممنوع رکھنے کا دورانیہ عدت کہلاتا ہے جس کی مدت 4ماہ 10 دن ہیں اور ان ایام کو واجب قرار دیا گیا ہے عدت وہ مقررہ مدت ہے جس کی پابندی ہر اُس عورت پر لازم ہے جو اپنے شوہر سے الگ ہو ،الگ ہونے کی وجہ چاہے طلاق ہو یا خلع ،فسخ نکاح ہو یا شوہر کی وفات لیکن خلوت صیحہ کا ثابت ہونا لازمی امر ہے عدت کی تشریح کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ کسی کی کردار کشی کی جائے بلکہ شرعی نقطۂ نظر سے روز مرہ مسائل کا درست حل مقصود ہے اب ہمارا آئین تو ہمیں اسلامی ملک ہونے کی نوید دیتا ہے مگر کوئی بھی اس ملک میں جاری سودی نظام کے سدباب کے لئے عملی قدم نہیں اُٹھاتا سپریم کورٹ نے جیسے عدت کے مسئلے پر شرعی نظریات کو فوقیت دیتے ہوئے من مانی و من پسند والی سہولیات کی نفی کی ہے خواہش ہے کہ اسی اسلامی روش پہ آگے بڑھتے ہوئے عدالت ِ عالیہ سودی نظام کو بھی ملکی معیشت میں ممنوع قرار دے تو اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا چہرہ نکھر سکتا ہے مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ جو شخص غیر شرعی کام کر کے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اولیت دے وہ اسلامی روایات کا ، احکامات کا پابند کیسے ہو سکتا ہے ؟پھر اُس کے پیروکار اُسے کیوں اسلامی شخصیت سمجھتے ہیں ؟اس بیشعوری پہ کئی مرتبہ بات کر چکا ہوں اور ایسی ضعیف الاعتقادی کی مثالیں عرصہ دراز سے پنپ رہی ہیں جس سے معاشرہ اپنی پسند کے حصول کے لئے قانونی پابندی و دینی احکامات کو نظر انداز کر نے کی جسارت کرتا رہا ہے کیونکہ پسند و ناپسند کاعمل پابندیوں کا محتاج نہیں ہوتا ہے وہ خواہش کی تکمیل کے لئے ہر دیوار عبور کرتا ہے خاور مانیکا اپنے گھر اُجڑنے کا ذمہ دار صرف مرید کو سمجھتے ہیں حالانکہ پیرنی بھی ہر غیر اخلاقی ،غیر شرعی فعل میں برابر کی ذمہ دار ہے فرح گوگی چونکہ ملک سے باہر ہے ورنہ اور بہت سی کہانیاں حقائق لئے قانون کے سامنے ہوتیں کہنا اور سمجھانا صرف یہ ہے کہ گھر اُجاڑنے میں فرد ِ واحد کا نہیں اجتماعی سوچ کا عمل ہوتا ہے۔مدت ِ عدت کی گنتی ایک اہم فعل ہے جو آغاز ِ وقت طلاق یا وفات سے ہوتا ہے یوں عدت بھی طلاق یا وفات کے وقت سے واجب ہوتی ہے عورت کے لئے عدت کے ایام کا تذکرہ تاریخ میں موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ قبل از اسلام بھی عورت کو عدت کی پابندی کرنا ہوتی تھی بیوہ یا طلاق یافتہ کو قید میں ڈال دیا جاتا جس کا اختتام زندگی کے ساتھ ہوتا تھا عورتوں کو دوسری شادی سے محروم رکھنااور انھیں منحوس سمجھنا روایت تھی بیوہ عورتوں کے بال جو خوبصورتی کی علامت تھے انھیں کاٹ دیا جاتا ہندو مذہب میں بیوہ کو خاوند کی لاش کے ساتھ ہی جلا دیا جاتا اس رسم کو ستی کا نام دیا گیا ہے ستی نہ ہونے والی عورت کو ایسی خوراک دی جاتی جو اس کی جنسی خواہشات کو نہ اُبھار ے ستی کے انتہائی تکلیف دہ عمل سے انکار کرنے والی عورتوں کو آرائش و زیبائش کے ساتھ ساتھ زندگی کے معاشرتی ملاپ سے مکمل محروم رکھا جاتا تھا والدین یا رشتہ داروں کے ملنے پر سخت پابندی لاگو ہوتی تھی تاریخی مطالعہ اس علم سے بھی آگاہی دیتا ہے کہ مطلقہ عورتوں کو عدت کے دوران مرد کے گھر میں ہی رکھا جاتا مگر نان نفقہ کی تکالیف اُسے پہنچائی جاتیں تا کہ وہ گھر سے بھاگ جائے جب عدت اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہوتی تو اُن سے رجوع کر لیا جاتا گویا طلاق اور رجوع کے اس کھیل میں عورت کو آزادی نصیب نہ ہوتی اور نہ وہ اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں کوئی احسن فیصلہ کر پاتی اُس کی زندگی کوآسودگی سے بے نیاز کر کے ُپرآشوب بنا نا غیر اسلامی روایات کا حصہ رہی ہیں احسان ہے رب ِ کریم کا جس کے دین کے طفیل ہمیں انسانیت کادرس سمجھایا گیا ہے یہ دین ِ اسلام کی وجہ ہے کہ عورتوںکو اُن کے حقوق سے آشنائی ملی احکام ِ ِ الہٰی میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے واضح ہو کہ احکام ِ الہٰی میں کسی ترمیم کی یا اپنی سہولت کی خاطر کوئی خود ساختہ بات گھڑنے کی گنجائش نہیں کیونکہ اسلام فرقوں سے پاک دین ہے جو ہر زمانے کے لئے ہے لہٰذا حتی الوسع کوشش ہونی چائیے کہ دینی مسائل کوتمام فقہی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے احکام ِ الہٰی کی روشنی خلق ِ خدا کے علم میں لایا جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں