0

ریاستی دہشت گردی کاجواب:ستیہ گرہ

برصغیر پاک و ہند کی تحریکِ آزادی کی طویل تاریخ کے دوران ایک عوامی ہتھیار کو مہاتما گاندھی نے بہت کامیابی سے استعمال کیا تھا اور وہ تھا سول نافرمانی کا جسے گاندھی جی ستیہ گرہ کہتے تھے۔ ستیہ ہندی میں سچائی یا حق کو کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ غلامی سے آزادی مانگنے سے بڑھ کر کون سی سچائی ہوسکتی ہے !سب سے بڑا حق تو انسان کی آزادی ہے جو کائنات بنانے والے کی طرف سے اپنے بندوں کیلئے شاید سب سے بڑا انعام ہے اور بندوں سے ان کی آزادی چھین لینا یا بزور طاقت اسے غصب کرلینا انسانیت کیلئے خلاف سب سے بڑا گناہ ہے اور اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ بقول مولا علی کے، تم انہیں کیسے غلام بنا سکتے ہو جنہیں اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے۔گاندھی جی کی ستیہ گرہ کی مہم غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف تھی، ان کے خلاف جد و جہد کا ایک پر امن مظاہرہ تھا جو سامراجی تھے، استعماری تھے، اور سات سمندر پار سے آکر ہندوستان پر قابض ہوگئے تھے۔
عمران خان نے اپنے 24 نومبر کے عوامی احتجاج کی پسپائی اور ناکامی کے بعد ، جو ناکامیابی اس لئے ہوئی کہ جرنیلوں کی مافیا نے جو پاکستان پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے اور کسی بھی عوامی احتجاج کو اپنے کاروبار کیلئے خطرہ سمجھتی ہے اس پرامن احتجاج کو معصوم عوام کے خون سے ہولی کھیلنے کا خونی کھیل رچایا تھا، اب جو تازہ اعلان کیا ہے اس کے مطابق 13 دسمبر کو پشاور میں تحریکِ انصاف کا ایک بڑا اجتماع ہوگا جہاں نوسر بازوں کی کٹھ پتلی حکومت اور اس کے یزیدی سہولت کاروں سے دو مطالبات کئے جائینگے۔ پہلا یہ کہ ان تمام عوامی رہنماؤں کو جنہیں تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر غیر قانونی طور پہ قید میں رکھا گیا ہے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں فوری طور پہ رہا کیا جائے اور دوسرا یہ کہ 26 نومبر کے خونی سانحہ اور 9 مئی 2023ء کو جرنیلوں نے اپنے غنڈوں سے جن تنصیبات پر حملہ کروایا تھا اور جس کا ملبہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے سر پہ ڈال دیا گیا عدالتی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے!
اگر یہ مطالبات ، جو ہر اعتبار اور لحاظ سے جائز ہیں، سچائی اور حق پہ مبنی ہیں، منظور نہ کئے گئے تو پھر 14 دسمبر سے، عمران کے اعلان کے مطابق سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ہوگا اور اگر وہ بھی ثمربار نہ ہوئی تو اس کی شدت میں اضافہ کیا جائے گا! گاندھی جی کا ستیہ گرہ سامراجی حکومت کے اس رویہ کے خلاف تھا جس میں فرنگی حکمراں نفرت اور حقارت سے عوامی احتجاج اور جائز مطالبات کو رد کیا کرتے تھے یا لیت و لعل سے کام لیتے تھے تاکہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں۔ یہاں فرنگی راج کے پیر و کار یزیدی جرنیل ، جو پاکستان کے ریاستی نظام پر ستر برس سے قابض ہیں ، فرنگی سرکار سے دو ہاتھ آگے عوامی احتجاج کو بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیل کر کچلتے ہیں۔ ان کی ظالمانہ فطرت فرنگی حکمرانوں سے کہیں زیادہ بدتر ہے کہ وہ تو غیر ملکی تھے، سات سمندر پار سے آئے تھے، دیسیوں کو غلام سمجھتے تھے لیکن یہ یزیدی جرنیل اپنے ہی لوگوں کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ فرنگی اس طرح احتجاج کرنے والے ہندوستانی باشندوں کے سینے اپنی گولیوں سے چھلنی نہیں کرتے تھے جیسے ان درندوں نے 26 نومبر کی شام کو اسلام آباد میں اپنے پاکستانیوں کو عمارتوں کی چھتوں سے ایسے نشانہ بنایا جیسے مچان پر بیٹھے ہوئے شکاری جنگلی جانوروں اور درندوں کا شکار کرتے ہیں۔ فرنگی ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں ہندوستان تجارت کرنے کیلئے آئے تھے اور رفتہ رفتہ اس پر قابض ہوگئے، اس کے حکمران بن بیٹھے۔
پاکستان کے یزیدی جرنیلوں نے پہلے ملک کے نظامِ حکومت پر قبضہ کیا اور پھرکاروبار شروع کیا۔ پاکستان کی فوج دنیا میں وہ واحد فوج ہے جو اسی (80) سے زیادہ مختلف قسم کے کاروبار چلارہی ہے۔ یہ سیمنٹ اور فولاد سے لیکر ناشتہ میں کھائے جانے والے سیریل اور بچوں کے پینے کا خشک دودھ تک، سب کچھ بنارہی ہے۔ اس کا اپنا بینک ہے، اس کے ٹرک باربرداری کیلئےکراچی سے خیبر تک دندناتے پھرتے ہیں، اس کے ڈیری فارم ہیں، اسکول ہیں، یہ کھیتی باڑی بھی کرتی ہے اور دسیوں اقسام کے اس کے کارخانے ہیں۔ یہ فوج نہیں رہی ایک بہت بڑی مافیا بن چکی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا میں سب سے بڑی مافیا پاکستان کی فوج ہے !
فوج کی اکثریت ان دھندوں میں شریک نہیں ہے، یہ بہت سوں کا قول ہے لیکن اگر اکثریت ایک ایسی اقلیت کے خلاف خاموش ہے اور اپنی خاموشی سے اس کے حوصلوں کو ہوا دے رہی ہے جو اپنے سیاہ کرتوت سے پوری فوج کو بدنام کر رہی ہے تو پھر اکثریت کی نیت پر شبہ کرنا جائز ہے۔ عاصم منیر اور اس کے حواری جرنیل وہ ٹولہ ہیں، شرپسند عناصر کا جو پاکستان کے عوام کی امنگوں کے خلاف صف آراء ہے اور ان کا خون بہارہا ہے، صرف ان کی خواہش کے خلاف ہی نہیں کھڑا بلکہ لغوی اعتبار سے بھی ان کا خون بہا رہا ہے۔ یہی وہ کالے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے قوم آج اپنی فوج سے کھلم کھلا نفرت کر رہی ہے اور یہی قوم کل تک وہ تھی جو اپنی فوج پر اس کی ناکامیوں کے باوجود نثار ہوا کرتی تھی۔
عمران خان کا ستیہ گرہ کا فیصلہ بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی مثال ہے۔ اور کیا کرے وہ جب نشہء اقتدار اور طاقت سے مغلوب یزیدی بات کا جواب پتھر سے دے رہے ہوں؟ 26 نومبر کو عوامی احتجاج ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ، جرنیلوں کے طاغوتی رویہ کے بعد، یہ تھی کہ تحریکِ انصاف کے قائدین کی صفوں میں انتشار تھا۔ ستیہ گرہ کو کامیاب بنانے کیلئے عمران خان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے نائبین اور پارٹی لیڈر اس پر امن احتجاج میں پیش پیش رہیں اور گیدڑ بھبھکیوں ، دھمکیوں اور طاغوتی حربوں سے مرعوب نہ ہوں، شکست خوردہ نہ ہوں اور اسی عزم و ثابت قدمی سے اپنے محاذ پہ ڈٹے رہیں جس کی تاریخ گاندھی جی نے رقم کی تھی، اپنی قربانی اور اپنی ہر تحریک میں پیش پیش رہنے سے ! تحریکِ انصاف کے فدائین کو ہر قربانی کیلئے آمادہ رہنا ہوگا۔ ابھی آزاد کشمیر کے شہریوں نے اپنی تحریک احتجاج کو جس حوصلہ اور تنظیم کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار کیا ہے وہ تحریکِ انصاف کیلئے لائق تقلید ہونی چاہئے۔ انہوں نے اپنے عزم و حوصلہ سے آزاد کشمیر سرکار کو وہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا جس میں عوامی احتجاج کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
تحریک انصاف کے قائدین اور فدائین کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی عوامی تحریک قربانی کے بغیر کم ہی کامیاب ہوتی ہے۔ انقلاب کی ہرتحریک انگور کی بیل ہوتی ہے جسے بغیر خون دئیے پروان چڑھانا ناممکن ہوتا ہے۔ ابھی گذشتہ ہفتہ ہم نے دیکھا کہ جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لاء نافذ کرنے کی کوشش کی کیونکہ ان کی بیگم کی کرپشن کے قصے عام ہوگئے تھے لیکن عوام کے بھرپور احتجاج کے ساتھ ساتھ کوریا کی پارلیمان نے صدر کی کوشش کو ناکام بنادیا اور صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اب صدر کے خلاف آئین سے غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کی مہم زور پکڑ رہی ہے۔ اور عوامی احتجاج اور منظم مہم نے شام میں بشار الاسد کی آمریت کی بساط ہفتہ دس دن میں لپیٹ دی اور بشار الاسد کو ملک سے فرار اختیار کرنا پڑا۔ اس طرح عوام نے اپنے احتجاج سے اس آمریت کو ختم کردیا جو بشار الاسد کے والد، حافظ الاسد نے 54 برس پہلے شام اور شامیوں پر مسلط کی تھی!
شام میں عوامی احتجاج کی تحریک کی کامیابی میں پاکستانی عوام کیلئے ایک اور سبق بھی ہے اور وہ یہ کہ شام پر ایک اقلیتی ٹولہ، جس کا علوی مسلک سے تعلق تھا، ظلم اور جبر کے ذریعہ عوام کی اکثریت پر حکومت کر رہا تھا بالکل ایسے ہی جیسے پیشہ ور قاتلوں کا جرنیلی ٹولہ پاکستان کے چوبیس کڑوڑ عوام کے سینوں پر ستر برس سے مونگ دل رہا ہے۔ عمران خان کی ستیہ گرہ کی مہم سچائی اور حق کہ تحریک ہے جس کے جواب میں اگر پاکستانی عوام نے اسی تساہل اور بد نظمی کا مظاہرہ کیا جس نے 24 نومبر کی تحریک کو ناکام کیا تو پھر پاکستانی عوام کو ان یزیدی جرنیلوں کی غلامی کا طوق نہ جانے کب تک اپنی گردن میں پہننا ہوگاجو اپنی سنگینوں اور بندوقوں کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہیں، جن کی آنکھوں پر بے محابا اقتدار اور طاقت کی چربی چڑھی ہوئی ہے اور جو بات کا جواب گولی سے دینے کے عادی ہیں کہ ان بزدلوں کی ساری بہادری اپنے عوام کے سینوں کو چھلنی کرنے میں مضمر رہی ہے!
پاکستان کے عوام نے اگر ملک میں منظم ستیہ گرہ کی مہم چلائی تو بیرونِ ملک پاکستانی بھی ہر قدم پر ان کا ساتھ دینگے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں میں یہ سوچ بھی جنم لے رہی ہے کہ پاکستان کے یزیدی جرنیلوں کی جان اس ناجائز کاروبار اور دھندے میں ہے جو یہ جرنیلوں کی وردی پہنے بنئیے ملک کی دولت کو لوٹنے اور بٹورنے کیلئے چلاتے آئے ہیں۔ ان کے کاروبار اور ان کی مصنوعات کا باقاعدہ اور منظم طریقے سے بائیکاٹ ہونا چاہئے۔ جب ان کے پیٹ پر لات پڑیگی تو یہ بنئیے اور مہاجن بلبلائینگے کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے ! سو یہ چار مصرعے پاکستان کے عوام اور خاص طور پہ عمران کی ستیہ گرہ کی مہم کو ایک نذرانہ ہیں :
قاتلوں کی گولیوں کا ہے جواب ستیہ گرہ
ظلم سے، طاغوت سے لے گا حساب ستیہ گرہ
سامراجی حکمرانوں کو کیا تھا زیر، کل
اپنے فرعونوں پہ لائے گا عتاب ستیہ گرہ!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں