0

سیاست کی دیگ میں ہے کیا ؟

اس بار منفرد اور انوکھی سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے جس سے پہلے کبھی تعارف نہیں تھا ملک ایک جانب دہشت گردی ،بد امنی کی نذر ہو رہا ہو سول و دفاعی لوگ دشمنوں کی گولیوں و دہماکوں کا نشانہ بن کر جام ِ شہادت نوش کر رہے ہوں اور سیاست کے کنگ کانگ ایک دوسرے سے نبرد آزما اس انداز سے ہوں کہ دیگر اہم ذمہ داریوں کو یکسر نظر انداز کر دیں یہی وجہ ہے کہ سیاست اپنی اہمیت کھو رہی ہے جمہوری نظام کا وجود لاغر ہو کر اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لے رہا ہے اور عوام خام مال کی طرح ان کے نظریات میں جل رہی ہے عوام جو ہر مصیبت میں ہراول دستہ بنتی ہے اُسے جل کر راکھ کی پیشن گوئی تو روحانی طور پر موصول ہو جاتی ہے مگر یہ معلوم کرنے سے ہمیشہ قاصر رہی ہے کہ سیاست کی دیگ میں ہے کیا ؟ بیلا روس کا 68رکنی وفد اسلام آباد پہنچ چکا ہے اور ہم اپنے دارلخلافے کو سیاسی حالات کے پیش ِ نظر منجمد کئے بیٹھے ہیں بیلا روس کا یہ وفد جو کہ توانائی ،خارجہ ،صنعت، انصاف و مواصلات کے وزراء سمیت 43کاروباری شخصیات پر مشتمل ہے اور انھیں یقینی طور پر ہمارے ملک کے سیاسی حالات سے اُن کے سفیر نے مطلع بھی کیا ہو گا بیلاروس کے صدر بھی اپنی کابینہ کے ہمراہ سرمایہ کاری کی خواہشات کے ساتھ پاکستان کو عندیہ دیا کہ ملک کسی غیر ملکی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں میں گھرا لگتا ہے حکومت ِ پاکستان کو سدباب کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے اب خدا کرے کہ کہ ملک میں سیاسی استحکام لوٹ آئے تا کہ میرے غریب وطن میں سرمایہ کاری کی مد میں ترقی و بہتر معیشت کی روشنی غریب کی جھونپڑی تک بھی پہنچے مجھے کوئی خوشی نہیں ہوتی کہ جب حکومت یہ ڈھول پیٹنے لگتی ہے کہ زر ِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ،سٹاک ایکسچینج 99ہزار کے انڈیکس پہ پہنچ گیا یا فلاں ملک نے اتنا قرضہ دے دیا کیونکہ دیکھا ہے کہ ان بڑھکوں سے معیشت کبھی نہیں سنبھلی اور نہ ہی حقیقی معنوں میں ایک عام شہری کے لئے ضروریات ِ زندگی کی اشیاء سستی ہوئیں ہیںظلم تو یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام نے اُس بجلی کے بھی پیسے ٹیکسوں کے ساتھ ادا کئے جو کہ پیدا ہی نہیں کی گئی اسی لئے لوگ یا ایک عام شہری اپنے آپ کو باعزت نہیں غلام سمجھتا ہے ٹیکس دینے کے بعد بھی بل ادا کرنے کے بعد بھی اُسے نہ بجلی میسر ہے اور نہ گیس ۔روٹی کپڑا مکان سے لیکر تبدیلی تک کا سفر کافی ہے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کو سمجھنے کے لئے ۔مگر کیا کریں ہمارے اندر جذباتی بے شعوری نے ہمیں ہر بار سیاست کی چوکھٹ پر کھڑا کر کے وہاں سے نامراد ہی لوٹایا ہے موجودہ سیاسی بے اطمینانی کو دیکھتے ہوئے دل میں اُمنگ جاگتی ہے کہ وطن عزیز میں شمالی کوریا کی طرح کم جونگ ان جیسی شخصیت پیدا ہو جو ہمیں قانون و آئین و اسلامی روایات کا پابند بنا کر رکھے مقصد کسی آمرانہ شخصیت کی حمایت کا نہیں بلکہ اُن خوبیوں کا متلاشی ہوں جو سیاسی قائدین میں ناپید ہیںقحط الرجالی کا یہ عالم ہے کہ آزادی کے بعد ایوب آمریت کے جال میں پھنسنے سے ہم آئی ایم ایف کے قرضوں میں پھنسے تو آج بھی ہیں معاشی بدحالی کی وجہ سے جرائم کی بڑھتی شرح ،فوری انصاف کی عدم فراہمی ،اداروں میں کھلے عام کرپشن کے ساتھ ساتھ حالات اس حد کو پہنچ چکے ہیں سیاست جماعت کہلوانے والے قائدین کی اعانت سے احتجاج کے دوران عسکری اداروں کے 4اہلکاروں کو شہید اور کئی کو زخمی کر دیا یعنی سیاست و دہشت کے درمیان اب فرق کرنا ناممکن ہو چلا۔حکومت نے جو کیا اُس میں دیر کی ان ریاست کے دشمنوں کی حد بندی اٹک سے پار نہیں ان کے گھر میں کرنی تھی میرا عقیدت بھرا سلام ہے پاک فوج کو جس نے ریاست کے استحکام کو ترجیح دی ۔حکومتی ترجیحات میں نہ جانے یہ بات کیوں نہیں اہمیت لے رہی کہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدن میں اضافہ کیسے ممکن ہو گا بھارت میں فی کس آمدنی 2698ڈالر،بنگلہ دیش میں 2624ڈالر ،نیپال میں 4062 ڈالر،سری لنکا میں 3929ڈالر جب کہ وطن ِ عزیز میں فی کس سالانہ آمدنی 1587ڈالر ہے ابھی تک حکومت کے پاس اپنے ان ہمسایہ ممالک کی پیروی کرتے ہوئے معیشت پر توجہ نہیں ترقی پذیرممالک ترقی کی جانب جبکہ ہم غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں اگر ہماری ترقی ہے بھی تو صرف باتوں میں ہے عملی طور پر پسماندگی کی دلدل میں پھنسے اُمید کی ٹہنی کو پکڑے ہوئے ہیں یہ جو ٹاسک فورس ملک میں ریاستی دیشت گردی کرنے والوں کے لئے قائم ہوئی ہے کہ ایسے لوگوں کو پس ِ زنداں کیا جائے تو ایک ٹاسک فورس ہمارے معاشی ماہرین کے لئے بھی ہونی چائیے تا کہ اندازہ ہو کہ یہ معاشی ماہرین سیاست کی دیگ میں کیا تیار کر رہے ہیں اس میں سودی قرضوں کے مصالحے تو شامل نہیں جس سے دنیا و آخرت دونوں میں جلن ہی ملے کوئی تو خیال کرے اس کا !!!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں