0

انتشار کی دھمکیاں

شومئی قسمت کہ ہم 77سال کی آزاد زندگی گزارنے کے باوجود بھی جمہوریت کے معنی نہیں سمجھ سکے یا یوں کہہ لیں کہ ہم اعجاز ِ سیاست کو عوامی مسائل کے حل کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اقتدار کو منزل سمجھ کر کرتے ہیں۔ عوامی مسائل کا حل ہو یا احکام ِ دین کے فرمودات،ان کو کو خاطر میں نہ لاکر سیاست کرنے سے جن ناقابل ِ تلافی نقصانات سے سیاست کو مختلف ادوارمیں تنزلی کا سامنا رہا ہے ہمارے سیاسی رہنمائوں نے ماضی کے تلخ تجربات کو بھلا کر اُسی راہ ِ سیاست کا انتخاب کیا جس پر چلتے ہوئے اُنھیں پھانسی ،جلا وطنی ، برطرفیاں ملیں ۔مخالفین پر بہتان تراشیاں ،الزامات کے تیر برسانا روایات ِ سیاست کے اہم اجزائے ترکیبی ہیں جس کے بل بوتے پر وطن ِ عزیز کے گُلشن میں کانٹے بکھیرنے کاکام جاری ہے اس قدر بغض و عناد ہے ان سیاسی جماعتوں میں کہ اگر کسی حکمران نے کوئی اچھا کام کیا ہوتو اُس کی تعریف نہیں کرتے کوشش یہی ہوتی ہے ان کی کیسے اس کام میں سے کیڑے نکال کر خود کو عوام کے سامنے عالی مرتبت ثابت کریںہر حکمران نے جانے والے حاکم کی کبھی تعریف نہیں کی اور اسی رستے پہ چلتے ہوئے کسی اپوزیشن نے کسی بہتر کام کے لئے حکومت کا ساتھ نہیں دیا چند دن پہلے کی بات جب غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم حد سے تجاوز کر گئے تو قومی اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس کی اپوزیشن جماعت سنی اتحاد (تحریک انصاف ) نے مخالفت کی ۔اس حیران کر دینے والی مخالفت پر جب حکیم سعید مرحوم کی پیشن گوئی یاد آئی تو بخدا اُن کے لئے دعائے مغفرت کی کہ انھوں نے کئی سال پہلے ان باتوں کا عندیہ اپنی کتاب جاپان کی کہانی میں دیا تھا جن کا سامنا ہم آج کر رہے ہیں ۔ملک میں پھیلی بے یقینی اور انتشار سے بھری سیاسی روش سے قوم کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی منتشر ہو چکی ہے جس کی بڑی شعور کا قحط ہے اس قحط سے عقل نڈھال ہو کر زمینی حقائق کا جائزہ لینے کی سکت نہیں رکھتی، بس جو اُس کے منہ نوالہ رکھ دے اُسی کے گیت گاتی ہے یہ طرز ِ عمل صاحب ثروت ممالک نے ہماری قومی نفسیات کا جائزہ لینے کے بعد اپنایا جس میں وہ کامیابی سے رواں ہیں ۔ہاں ان ممالک کے سامنے ملکی استحکام کی سلامتی کے لئے پاک فوج دیوار ِ چین کی طرح کھڑی ہے جس نے ریاست کے ساتھ ساتھ ایٹمی تنصیبات کو بھی اپنی حفاظت میں لیا ہوا ہے نہ جانے وہ کون سورما ہیں جو میرے ملک کی سیاست کو امن و سکون سے نہیں چلنے دیتے ملک میں جب بھی سرمایہ کاری کی بات چلے ،سٹاک ایکسچینج بہتر پوزیشن پر چلنے لگے تو جانے کیوں اپوزیشن ملک میں کھلبلی مچانے کے لئے انتشار کی دھمکیاں دینے لگتی ہے۔ تحریک ِ انصاف کی جانب سے 24نومبر کو ملک بھر میں احتجاج کی کال نے تحریک انصاف کے رہنمائوں میں تفرقہ سا ڈال دیا ہے ایک گروہ کا موقف ہے کہ اگر مذکورہ تاریخ پر احتجاج کیا گیا تو اس سے عمران خان کی قید میں طوالت اور بشریٰ کو دوبارہ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تحریک ِ انصاف کی قیادت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ عوام جم غفیر سڑکوں پر لا کر حکومت کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر سکے۔ گو کہ بانی کے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بشریٰ بی بی نے بغیر کسی اعلان کے سیاست میں ابتدائی قدم رنجا فرما دیاہے جوکہ ملک میں انتشار پھیلانے کی ایک کڑی ہو گی لیکن اطمینان یہ ہے کہ صورت ِ حال اس نہج پر نہیں پہنچی کہ ملک کے جوان یا پسماندہ عوام سر پر کفن باندھ کر وفاق پر چڑھائی کر یں۔ انتشار کی مذکورہ دھمکیاں دینے والے آج بھی جانتے ہیں کہ انھیں ناکامی ہو گی مگر بانی کے سامنے منہ دھو کر جانا اُن کی مجبوری ہے۔ حکومت و دیگر ادارے اگر نو مئی کا حساب بروقت لے لیتے تو آج یہ انتشار کی دھمکیاں سننے کو نہ ملتیں۔ بہر حال ریاست کے نگہبانوں کو ایسے انتشار کا سدباب کرنا آتا ہے کیونکہ ریاست کے استحکام پر کسی فرد ِ واحد کو اہمیت حاصل نہیں ہونی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں