0

مستحکم بنیادیں

دانش کے مڈل ٹیمپل سے آراستہ جانتے ہیں کہ استحکام کے لئے کسی نعرے یا بیانیے کی ضرورت درکار نہیں ہوتی بلکہ اسے عملی طور پر ذہانت سے حالات دیوار پر لکھی تحریریں پڑھ کر اس کی مستحکم بنیادوں کو بھرنا ہوتا ہے شومئی قسمت کہ ہم ساتھ سے زائد دہائیوں سے آزادی نعمت لئے پاک سرزمین پر سانس تو لے رہے ہیں مگر اس آزاد ریاست کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں انسانی و اخلاقی حوالاجات سے لیکر سیاسی ،سماجی ،معاشی ،حتیٰ کہ عدل و انصاف کی فراہمی میں بھی زنہار رہے ہیں یعنی وہ کا م جو قائد ہمیں نصیحت کے طور کہہ گئے تھے ہم اُن کی برعکس اشکال پر فن ِ مصوری کر کے خود کو ستم ظریفوں نے قائد سمجھ لیاپھردیکھ لیں کہ اس آشفتہ سری سے آج ہم آزاد ملک میں غیروں کے قیدی بن کر زندگی گزار رہے ہیں کسی دل جلے کی بر محل بات کہ کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے ۔کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے ۔ گویا آزادی کے بعد، جبر کے طویل وقفوں کی کٹھن آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود بھی ہم باہمی مفادات کی آبیاری نہ کر سکے تو وطن ِ عزیز کے گلشن کا ایک حصہ ہم سے علیحدہ ہو کر اپنا نشمین بنا بیٹھا آج اُس نشمین پہ بہاروں کی آمد آمد ہے اور ہم ترمیمات کے جال میں بند ،ناوک میں رکھی الزام تراشیاں پھر بوقت ِ ضرورت ان کا استعمال اور صوبائی حکومت کا دارلخلافے پر حملہ آور ہونا ،ابتذال اور مناقشے کا ماحول ہمیں جاہلیت کے دور میں دھکیل چکا ہے مگر ہم اپنی منقار پہ نازاں پھولے نہیں سما رہے تو ان حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اس روزن ِ در شکستگی کی جانب کوئی متوجہ ہونے والا اس ہجوم ِ بیکراں میں وجود ہی نہیں رکھتا ۔ادارے مضبوط بنانے کے عمل کو پس ِ پُشت ڈالتے ہوئے معتبر اذہان کے اشخاص بدست و گریباں ہیں راوی نے اپنے عرصۂ حیات میں کسی منصف کو دوسرے ساتھی منصف کے بارے میںقصراللسانی کا مرتکب ہوتے ہوئے غیر اخلاقی مثالوں کی بے جا تنقید نے سماعت کو متاثر نہیں کیا یہ معترضہ جملے سُن کر یوں لگا کہ سیاست کے ساتھ ساتھ اب مُہذب ، قابل ِ قدر اداروںسے ادب و احترام کوچ کر گیا ہے کیونکہ سیاسی روابط کا اداروں کے اہلکاروں میں پنپنا جانبداری کی صیح یا غلط فضاء کو جنم دیتا ہے جس سے ہم آہنگی یا انصاف کی بجائے دھینگا مشتی کی مشقیں جاری ہوتی ہیں جو ملک کی مستحکم بنیادوںمیں دڑار ڈالنے کانقطہ آغازہوتا ہے جیسے 2013کی سیاست بناء ثبوت کے الزامات سے بھری غیر اخلاقی جملوں سے لبریز رطب اللسانی سے عاری تھی وہ آج تک خصوصی طور پر تحریک انصاف کی سیاسی ثقافت کا روپ دھار چکی ہے کیونکہ ایسے کرداروں کی قبلہ نمائی نہیں کی گئی اور نہ کوئی مثبت پیش رفت سے آداب ِ گفتگو سے معماران ِ نئی نسل کو آگاہ کیا گیا قاضی فائز عیسی جو پہلے پاکستانی ہیں جنھیں مڈل ٹیمپل نے اُن کارکردگیوںی بدولت اپنے دامن میں جگہ دینا اپنے لئے فخر سمجھا ایسی قابل ِ قدر شخصیت کو سیاسی مخاصمت کے پیش ِ نظر تحریک ِ انصاف سے روابط رکھنے والے پاکستانی جوانوں نے تضحیک کا نشانہ بنایا کم از کم اس سانحے سے یہ دو باتیں کھل کر سامنے آگئیں کہ ایک اس موجودہ نسل میں اعلی اخلاقی تربیت کا شدید فقدان ہے اور دوسری نہایت اہم بات یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو بگڑے ہوئے والدین ملے گے اخلاقیات سے تہی دست ایسی نسل کو راہ ِ راست پر لانا اک جہاد ہو گا مسلم اُمہ کی ان ہی نفسانی ، جذباتی کمزوریوں کو جانتے ہوئے مسلم دشمن قوتیں جن کی چشم ِ حسودمیں ہمارے لئے صحرائے تعصب ہے اُنھیں ہمارا معاشی طور پر بہتر ہونا ، ایٹمی طاقت کی صلاحیتوں سے مالا مال ہونا نہیں بھاتا اسی لئے اُن کے ہاتھ یہ لا اُبالی اور بے شعوری سے لبا لب بھری یہ خواندہ نسل ایک بہترین ہتھیار کے روپ میں اُنھیں میسر ہے جو کہ مستحکم آزاد ریاست کی اہمیت اور آنے والے خطرات سے بے خبر ہے ان کو حب الوطنی پر لانے کے لئے اگر سخت ترین اقدامات نہ کئے گئے تو مخالف قوتیںہماری مستحکم بنیادوں کو کمزور کردے گی صوبائی خانہ جنگی کا آغاز کے پی کے حکومت کی جانب سے ہونا قابل ِ غور نہیں بلکہ لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ صوبائی وزیر ِ اعلی نے اُن صوبائی ملازمین کو شاباشی کے طور انعامات و ترقیوں سے نوازا ہے جو صوبائی قیادت میں احتجاج کے طور پر وفاق پر حملہ آور ہوئے تھے قید سے رہائی پر ان ملازمین پر عنایات کے ساتھ ُگل پاشی ملک کی مستحکم بنیادوں پر حملہ کی حوصلہ افزائی ہے میرے خیال میں دفاعی اداروں کو اب جاگ جانا چائیے کیونکہ یہ نو مئی کا اعادہ ہے جس کا ادراک ضروری ہے تا کہ ریاست مستحکم بنیادوں پر قائم رہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں