قاضی عیسیٰ سپریم کورٹ سے بحیثیت چیف جسٹس رخصت ہو گئے۔ پاکستانی سپریم کورٹ کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو ان کو بدترین اور کرپٹ جج کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ ان کا دور صرف 17یا 18ماہ کا تھا لیکن فوج کے کہنے پر انہوں نے جو جو کارنامے انجام دئیے اور جس طرح تحریک انصاف پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ،عمران خان سے اپنے خلاف ریفرنس کا جس بھونڈے طریقے سے انتقام لیا وہ انصاف کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوا۔ کسی بھی جج یا چیف جسٹس کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ اس حد تک گر جائےاور عملی طور پر دشمنی پر اتر آئے کہ پوری دنیا کی عدالتیں اور انصاف کے پنڈت حیران رہ گئے کہ ایک سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اتنی گراوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہ آخری وقت تک کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح ان کو ایکسٹینشن مل جائے چاہے وہ 68سال کی عمر کی صورت میں ہو یا آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت میں ہو یا پھر کوئی نیا منصب ان کے لئے پیدا کیا جائے نہ تو فوج اور نہ یہ حکومت ان کو چھوڑنا چاہتی تھی۔ انہوں نے ہر صورت اور ہر حال میں فوج اور حکومت کا ساتھ دیا لیکن بھلا ہو مولانا فضل الرحمن کا وہ حکومت اور آئینی ترمیم میں ایک پریشر گروپ بن گئے اور ان کے ووٹوں کے بغیر یہ آئینی ترمیم پاس نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے حکومت اور فوج دونوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور قاضیٰ عیسیٰ کو رخصت ہونا پڑا ورنہ ان کا جانے کا ارادہ نہیں تھا اور نہ فوج کا ان کو بھیجنے کا ارادہ تھا۔ تحریک انصاف نے بھی مولانا کے ساتھ مل کر ہوشیاری سے کھیل کھیلا اور مولانا کو پوری طرح حکومت کے ساتھ نہیں جانے دیا۔ مولانا کو بھی یہ اندازہ ہو گیا کہ حکومت سے اب ان کوکچھ نہیں ملنا۔ آئندہ حکومت عمران خان کی ہی بننی ہے یہ شہباز شریف کی حکومت چند ماہ کی مہمان ہے اس کے بعد دوبارہ الیکشن ہونگے اور عمران خان آئندہ وزیراعظم ہونگے ۔ مولانا گھاٹے کا سودا نہیں کرنے والے ہیں وہ ہمیشہ اپنے اور حکومت کے مستقبل پر نظر رکھتے ہیں۔
قاضی عیسیٰ کے کارنامے کیا کیا ہیں وہ بہت طویل اور انصاف کے تقاضوں سے کوسوں دور ہیں۔ اقتدار میں اور چیف جسٹس کی کرسی سنبھالنے سے پہلے انہوں نے عطا بندیال کے خلاف مریم صفدر سے سپریم کورٹ کے باہر نعرے لگوائے اور دھمکیاں دلوائیں۔ حلف اٹھاتے وقت انہوں نے اپنی بیوی کو برابر میں کھڑا کر لیا جو آج تک تاریخ میں نہیں ہوا۔ پھر انہوں نے عمران خان کا مقدمہ کھول لیا۔ تمام تر بحث اور وکیلوں کی دلیلوں کے باوجود انہوں نے تحریک انصاف سے ’’بلے‘‘ کا نشان چھین لیا۔ دنیا حیران پریشان رہ گئی کیسا چیف جسٹس ہے کیسا انصاف کررہا ہے ایک پارٹی سے انتقام لے رہا ہے لیکن عوام نے بھی پلٹ کر قاضی عیسیٰ پر بھرپور وار کیا تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا لیکن الیکشن کمیشن بھی جو فوج کے ساتھ ملا ہوا ہے اس نے تحریک انصاف کی آدھی سے زیادہ سیٹیں دھاندلی سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دے دیں ساتھ ساتھ سنی اتحاد کونسل کا جھگڑا ڈال دیا قانون کے تحت آزاد ممبروں کو کسی نہ کسی پارٹی کیساتھ شامل ہونا ہوتا ہے یا پھر وہ آزاد ممبر تصور ہوتے ہیں۔ قاضی عیسیٰ نے بہت ظلم اور جبر کیساتھ تحریک انصاف پر حملہ کیا اور حملہ کرتا ہی رہا ہر اپیل پر اور ہر پٹیشن پر تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دیتا رہا۔ جب سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک اور رٹ دائر کی تو قاضی عیسیٰ نے ہوشیار دکھا کر فل کورٹ بلا لیا وہی اس کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ جج اس کے خلاف نہیں جائیں گے لیکن جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک نے مل کر بازی پلٹ دی اور الیکشن کمیشن کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ 8ججوں کی اکثریت سے آیا۔ قاضی حیران رہ گیا اور یہیں سے اس کا زوال شروع ہو گیا۔ قاضی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 8 جج اس کے خلاف ہو جائیں گے۔ حکومت نے بھی اس کو محسوس کر لیا فوج نے بھی اپنی منصوبہ بندی بدل لی ۔اب وہ ہر قیمت پر جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ چاہے ان کو اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑتا اور انہوں نے قاضی کو پھر استعمال کیا ایک نیا آرڈیننس لائے جسٹس منیب اختر کو نکالا جسٹس امین کو لائے اس کمیٹی میں عمر عطا بندیال کا فیصلہ تبدیل کرا دیا اور اس طرح 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ تاریخ کبھی بھی قاضی عیسیٰ کو معاف نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس کی سیٹ سے ہٹتے ہی قاضی عیسیٰ کو جواب ملنا شروع ہو گیا سب سے پہلے ان کے 5 ساتھی ججوں نے ان کو الوداعی پارٹی میں شرکت سے انکار کر دیا اور وہ اس پارٹی میں شامل نہیں ہوئے لیکن وہ لوگ یحییٰ آفریدی کی تقریب حلف برداری میں صدارتی محل میں شریک ہوئے۔ قاضی عیسیٰ کا لندن پہنچتے ہی جو گالیوں اور مخالف نعروں سے استقبال ہوا وہ میڈیا پر پوری دنیا نے دیکھا امریکہ میں ہر جگہ آج کل جو ان کے ساتھ ہورہا ہے اس کو بین الاقوامی میڈیا بھی دکھا رہا ہے غرضیکہ برے کام کا برا ہی انجام۔ اس نے اپنے باپ کے نام کو بھی دھبہ لگا دیا ہے پاکستانی عدالتی تاریخ ہمیشہ اس کو جسٹس منیر اور جسٹس شاد حسین خان کی طرح برے نام ہی سے یاد رکھے گی۔
0