0

ترامیم کا سہارا

میں عجز و انکسار میں ڈوبا اک عام سا لکھاری جو سود اور جھوٹ کے خلاف لکھتے نہیں ڈگمگاتا بالکل اسی جذبات کو لئے میں دور ِ حاضر میں پیش ہونے والی اور دوتہائی اکثریت سے آئین کی کتاب میں بااثر طورپر درج ہونے والی 26ویں ترمیم کے حق میں ہوں خوبیوں یا خامیاں کی بحث کو تھوڑے توقف کے بعد بیان کرتا ہوں اول تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ جسٹس منیر مرحوم کی قائم روایات یا اسی رستے پہ رواںانصاف کی بجائے قصیدہ گوئی کے علمبردار، مدح سرا منصفوں کا راستہ روک کر ،اس روش کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے من مانی کے فیصلوں کی روک تھام کر دی گئی لیکن ابھی بھی جمہوریت کی لہلہاتی فصلوں کو ان دیکھے سیلاب کا خطرہ موجود ہے تاریخی ماہرین ترامیم کے اس بند کو سیلابی طاقت کے مقابل کمزور سمجھنے کا عندیہ دے رہے ہیں اسے بعید از قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا اصولی طور پر دیکھا جائے تو اس مذکورہ ترمیم کے ذریعے عدالتوں کے معزز منصفین کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے فیصلے دینے ہیں کسی دوسرے ادارے خصوصی طور پر پارلیمان کے فیصلوں پر یا آئین سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی پسند کے فیصلے نہیں ٹھونسنے کاش دیگر اداروں کے لئے یہ ترمیم کارگر ہو جائے کہ وہ ریاست کے استحکام کو مد نظر رکھتے ہوئے مداخلت کی بجائے اپنے اپنے آئینی دائرے میں کام کریںمیں قانون کا طالب علم نہیں ہوں مگر خواہش ہے کہ ایسا قانون بھی ہو جو اداروں کی کارکردگی بہتر یا اہداف کی تکمیل نہ کرنے پر بھی سزا ،جزا دے تاکہ بہتر مقابلے کا رحجان ملک میں پیدا ہو اور ریاست کا سفر خوب سے خوب تر کی جانب بڑھتا رہے،جانتا ہوں کہ سوچنے میں اور کام کو عمل پذیر کرنے میں آگ کے دریا کو ڈوب کر پار کرنے والی بات ہے اس لئے کہ اقتدار پرستی کے شائق طبقے سے لیکر ایک عام آدمی تک جو اپنے مفاد میں کسی دوسرے کی شراکت پسند کرنے سے کتراتا ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ ترامیم سے آمریت کا راستہ نہیں رکتا اُس کے لئے عوامی شعور اور قانون کا صرف کتابوں میں ہونا کافی نہیں ہوتا قانون کی عملی شکل اور انصاف کا بغیر دبائو کے ممکن ہونا جمہوری بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے آمریت کے سیلاب میں آئین کئی بار غرقاب ہوا تو کسی ایک جمہوری طاقت نے آرٹیکل 6لگانے کی کوشش نہیں کی دوست کے ان تاریخی دلائل سن کر بات کا رخ بادبانی کشتی کی طرح موڑتے ہوئے کہا کہ یار ترمیم کچھ ہو کہ نہ ہو مگر حکومت کا یہ عندیہ دینا انتہائی خوشگوار ہے کہ جنوری 2028میں سودی نظام کی مکمل بیخ کنی ہوگی اور ملکی معیشت میں اللہ کی برکات سے بہت سے دیرینہ مسائل پر قابو پایا جا سکے گا دعا ہے کہ حکومت نے جس ارادے کا اظہار ایوان میں کیا ہے اُس پر پورا اُتر سکے کیونکہ سود سے نجات میں ہی سب کی خیر ہے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سود پہ بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ کہانیوں میں سنتے تھے کہ دیو کی جان طوطے میں ہے ،طوطے کی گردن مروڑ دو ،دیوخو د بخود مرجائے گا اسی طرح یہود کی جان سود میں ہے اگر سودی نظام کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہود کی طاقت خود بخود ختم ہو جائے گی صرف معیشت کے حوالے سے نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کی سربلندی کے لئے بھی سود اور یہود دونوں کا یکسر خاتمہ عصر ِ حاضر کا اہم تقاضا ہے جس پر عمل پیر ہونا ہی نجات کا سبب ہے مسلم اُمہ کی نسل کشی کے ارادے لئے اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں کی مسلسل نسل کشی کر رہا ہے عالمی عدالت ہو یا اقوام ِ متحدہ کسی کو خاطر میں نہ لاکر جنگی جرائم و انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اس کی طاقت کو کم کرنے کے لئے مسلمانون کی یکجہتی و سودی نظام ِ معیشت کا خاتمہ ناگزیر ہے ۔ترامیم کے حوالے سے کچھ نقائص مذکورہ ترمیم میں موجود ہیں جن کے لئے شنید ہے کہ 27ویں ترمیم بھی لائی جا سکتی ہے تحریک ِ انصاف کا مولانا فضل الرحمان کی پیروی میں 26ویں ترمیم کو ماننا پھر کمیٹی میں نہ بیٹھنا غیر سیاسی فعل لگا جیسے بیرسٹر گوہر نے اپنے بانی کی ناراضگی کو بھانپتے ہوئے فلسطین یکجہتی کانفرنس میں شمولیت سے انکار کیا تھا ایسے بچگانہ طرز ِ عمل پر حکیم سعید مرحوم کے بانی پی ٹی آئی پر لکھے جملے دل پر دستک دینے لگتے ہیں ترامیم کے سہارے حکومتی اُمور کی انجام دہی صرف الفاظ کی ادائیگی لگتی ہے اس وقت ملک کو آگے بڑھانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا اقتدار سے ہٹ کر ریاستی استحکام کے لئے اپنے خیالات میں ترمیم کرنا لازمی امر ہے تنقید کسی بھی سیاسی جماعت کی کسی بھی اُمور پر اہمیت کی حامل ہوتی ہے مگر مغائرت کا یہ ماحول وسعت ِ مشاہدہ پر پردے ڈال دیتا ہے جس سے نظروں کی کشادگی میں اپنائیت کا مہمیز ہونا رک سا جاتا ہے بہتر ہو گا کہ ساری سیاسی جماعتیں آئینی ترامیم کو ترجیح دینے سے پہلے اپنی اخلاقی قدروں میں اپنے برتائو میں اچھی سی ترامیم کر لیں تا کہ ملک اسی ترا میم کے عملی خلوص و سچائی سے آگے بڑھے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں