0

سیلاب

سیلاب سیلِ آب ہے، پانی جو فراز سے نشیب کی طرف بہتا ہے آبشار بنے یا جھرنا یا کوئی گاتی بل کھاتی ندی، سب نظر فریب دل فریب مگر یہ نہ تونظر کا فریب نہ دل کا، ایسا منظر جس کی ہر صورت دل اور نظر کو کھینچتی ہے، مجھے آبشار ، اور جھرنوں کو دیکھنے کا ہمیشہ سے ہی شوق رہا، کاغان، کالام اور سوات میں یہ منظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں، ہنزہ ویلی میں بھی چھوٹے چھوٹے خاموش آبشاروں سے بہت ہی برد بار جھیلیں بن جاتی ہیں، ان جھیلوں میں کشتی رانی کا لطف ہی کچھ اور ہے اور اگر کوئی حسین ہم سفر بھی ساتھ ہو تو جھیل خود گنگناتی ہے، منظر باتیں کرتے ہیں، اب لوگوں کو ایسے پر فضاء مقامات پر جانے کے مواقع مل جاتے ہیں، یہ تب ہوا جب انگریزوں نے پہاڑوں پر HILL STATIONS بنائے ان HILL STATIONS تک جانے کے راستے بنائے تب کہیں پتہ چلا کہ پہاڑ خوبصورت ہوتے ہیں ورنہ اسے قبل تو مولوی سے یہی سنا کہ دیکھو اللہ نے کیسے ہیبت ناک پہاڑ زمین پر میخوں سے گاڑ دئے ہیں، ہم نے بچپن میں پہاڑوں کی ہیبت کے بارے ہی سنا، شاعری میں بھی آبشاروں کا ذکر کم ہی ملتا تھا، چونکہ روائیت غزل کی ہی تھی تو کوہِ گراں کی بات ہی ہوتی تھی، شائد مصطفیٰ زیدی نے پہلی بار کوہِ ندا کی بات کی، اور بہت بعد میں بشیر بدر نے پہاڑوں سے اترتی آئیتوں کی بات کی، غزل محبوب کے گرد ہی ٹھہر گئی تھی پہلی بار آرنلڈ نے ہندوستانی شاعروں سے کہا کہ وہ مناظر قدرت پر شاعری کریں، اور شاعر کی نظر نظم پر ٹھہری ، خوبصورت نظمیں لکھی گئیں اور جب آزادی کی تحریک چلی تو یہ نظم اظہار کا بڑا ذریعہ بنی ، ذکر تو پانی سے شروع ہوا یہ تحریک آزادی کہاں سے آگئی ، اُردو کی قدیم شاعری میں پانی کا ذکر کم ہے، بعد میں جدید شاعری نے پانی کو ایک استعارہ بنا دیا جس کا مفہوم MULTI DIMENSIONAL ہے اسی پانی نے آنسو کو بھی اہم بنا دیا، بہت سے جدید شعراء نے اپنے مجموعوں کے نام بھی پانی کی مناسبت سے رکھے، بہت منفرد نام ہیں، پانی ایک توازن کا مظہر ہے جب یہ توازن ختم ہوتا ہے تو پانی سیلاب بن جاتا ہے، پانی سیلاب نہ بنتا اگر ہم ENVIRONMENT سے واقف ہوتے اور پانی کو مشتعل نہ کرتے، جہالت اور ملک دشمنی نے پاکستان میں پانی کو مشتعل کیا اور اس اشتعال سے آج ہم پریشان ہیں، پاکستان کی ابتدائی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم مون سون کے موسم میں مشرقی پاکستان میں طغیانیوں کی خبریں ملتی تھی، یہ طغیانیاں اکثر دریائے نربدا سے پھوٹتی تھیں مشرقی پاکستان کا بڑا علاقہ زیر آب آجاتا تھا، بنگالیوں کی پوری پوری بستیاں بہا کر لے جاتا تھا چونکہ بنگالیوں کا روزگار اس دریا سے جڑا ہوا تھا لہٰذا سیلاب کے بعد وہ بستیاں پھر بنا لیتے ، اور اگلے برس ان کو پھر قیامت کا سامنا ہوتا تھا، مغربی پاکستان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مغربی پاکستان میں سیلاب آیا کریں گے اور یہ سیلاب انکا سب کچھ بہا کر لے جائینگے شروع شروع میں جب امریکہ پاکستان پر بہت مہربان تھا تو اس نے منگلا ڈیم اور سکھر بیراج بنا کر دیئے تھے اور اشارا دے دیا تھا کہ پانی پاکستان کے اگلے عشروں میں شدید ضرورت ہو گا حالانکہ حکومت وڈیرہ شاہی کی رہی مگر عقل کے دشمن ان وڈیروں نے ڈیم کی ضرورت کو کبھی نہیں سمجھا ،TIMBER MAFIA نے ملک کے سارے جنگلات کاٹ لئے ، دنیا کا اصول ہے کہ جتنے
درخت کاٹے جائیں اتنے ہی درخت لگا دیئے جائیں امریکہ نے لکڑی پر انحصار کم کرنے اور جنگلات کو بچانے کے لئے مصنوعی لکڑی بنا لی ہے جس کو TREX کہا جاتا ہے اور اب یہ TREX ڈیک بنانے ، فرش بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، یہ بہت دیر پا ہیں تو یہ TREX سائیڈنگ کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں، پاکستان کو ENVIRONMENT کی اہمیت کا اندازہ بھی بعد میں ہوا، اور جب اندازہ ہوا تو پانی سر سے گذر چکا تھا، یہ سیاست دان ہی تھے جنہوں نے کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا اور یہ سیاست دان ہی تھے جنہوں نے ڈیم بنانے کی ضرورت کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا، اور اب سیلاب پورے پاکستان کی بربادی کا سبب ہے، وڈیروں کو سیلاب کی گزرگاہ کا پتہ ہے سو وہ اپنی زمینیں بچانے کے لئے سیلاب کی گزر گاہ کو عام آبادیوں اور کچی آبادیوں کی طرف موڑ دیتے ہیں، اور ان کی زمینیں اور ان کی فصلیں سیلاب سے محفوظ رہتی ہیں، ہم پوچھتے رہتے ہیں کہ اس سیلاب میں کون سا وڈیرہ، سیاست دان، حج، جنرل، صحافی، تاجر یا اشرافیہ کا رکن ڈوبا، مگر سالہا سال سے یہ خبر سنی نہیں، سوال یہ ہے کہ سیلاب غریبوں کو ہی کیوں برباد کر کے جاتا ہے، مذکورہ بالا افراد کی کمیونٹی کیوں محفوظ رہتی ہے، چاروں صوبوں میں کوئی وڈیرہ، کوئی زمیندار، کوئی حج کوئی جنرل یا اشرافیہ کا کوئی فرد نہیں ڈوبتا، نقصان ہمیشہ عام فرد یا غریب کا ہوتا ہے، اور جب سیلاب کےلئے عالمی امداد آتی ہے تو اس بڑا حصہ وڈیرہ اور زمیندار لے اڑتا ہے، اور یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا ہے۔
2022 کا سیلاب شدید تھا، ایسا لگا کہ سیلاب سارا پاکستان ہی بہا کر لے گیا، عالمی طاقتوں نے یہ اعتراف کیا ENVIRONMENT میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے اور سیلاب سے پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جائیگا مگر بڑے ممالک نے مدد کے جو وعدے کئے تھے وہ کبھی وفا نہیں کئے ، عمران نے چور چور کا اتنا شور مچایا کہ جو قلیل امداد آئی بھی تو ارباب حل و عقد کو یہ یقین دہانی کرانی پڑی کہ امداد کا استعمال شفاف ہوگا، جو خبریں آئیں وہ یہ تھیں کہ سیلاب زدگان کے لئے حدیقہ کیانی اور جماعت اسلامی نے کچھ گھر بنا کر دیئے تھے ، علاقے کے ممبر قومی اسمبلی ممبر صوبائی اسمبلی جنہوں نے ان خستہ حال لوگوں ووٹ لئے تھے انہوں نے سیلاب زدگان کی کتنی مدد کی، کیا ترقیاتی فنڈ ان کے لئے مختص کئے گئے، سیلاب ہر سال آتے ہیں مگر مون سون کے آنے سے پہلے نہ تو سیلاب کی گزر گاہ کے قریب غریب افراد کی محفوظ نقل مکانی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کو محفوظ مقامات پر قبل از وقت پہنچایا جاتا ہے، اور ان ان پڑھ پر لوگوں کو یہ شعور ہی نہیں کہ وہ مون سون سے پہلے اپنی املاک کو محفوظ رکھنے کا کوئی معقول بندوبست کریں ، مقامی صحافی نما لوگ مائیک پکڑ کر ان کی حالت زار کو ٹیلی وژن پر دکھا کر حکومت سے نفرت میں اضافہ کرتے ہیں، یہ ایک ایسی سازش ہے جو آزادیء اظہار کے نام پر آسانی سے کی جاتی ہے اور عوام کو حکومتوں سے متنفر کرتی ہے، حکومت کے پاس وافر ذرائع ہوتے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی خاطر خواہ مدد کر سکے مگر یہ کیسا اندھیر ہے کہ اس موقع پر سیلاب زدگان کے نہ تو مساجد کے دروازے کھلتے ہیں نہ ہی مزاروں کے ، جب کہ مساجد مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے فنڈز اکٹھا کرنے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں اور چندہ مافیا کبھی اس چندے کا حساب نہیں دیتی، یہ ان کا کاروبار ہے جس کے لئے ان کو کسی قسم کی کوئی INVESTMENT کی ضرورت نہیں ہوتی ، سیلاب اب ایک مستقتل فیچر ہے اور اس کا سدِ باب ضروری ہے، ہمارے نام نہاد مسلم برادر ممالک نے اب منہ موڑ لیا ہے،امریکہ ناراض ہے کہ پاکستان میں چین کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں اس لئے IMF سے معاہدہ ہونے میں مستقل تاخیر ہو رہی ہے اگر سعودیہ اور امارات قرض رول اوور نہیں کرتے تو IMF معاہدہ نہیں ہوگا اور قرض نہ ملنے کی صورت میں وہ تھوڑی امداد جو ہو سکتی ہے وہ بھی نہ ہو سکے گی، پاکستان کے عوام کے مسائل ختم نہیں ہونگے جب تک ملائیت اور وڈیرہ شاہی کا سر نہیں کاٹا جاتا عوام کی مشکلات کم نہیں ہونگی اور یہ کام فوج ہی کر سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں