0

اس پستی کی کوئی انتہا ہے؟

غریب کا اپنی غربت اور ناداری پہ رونا معمول کی بات ہے اور سمجھ میں آتی ہے۔ جس دور ِبربادی سے پاکستان ان دنوں گزر رہا ہے اس میں غریب کا جینا تو ہر گذرتے دن کے ساتھ کٹھن سے کٹھن ہوتا جارہا ہے۔ وہی بات ہے کہ جو پرانی کہاوت ہے کہ ننگی اوڑھے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ جس غریب کی کل کمائی پانچ چھ سو روپے روز سے زیادہ نہ ہو وہ اپنے بچوں کو کیا کھلائے گا اور کیا پلائے گا اس مہنگائی کے دور میں جہاں سبزیوں اور دالوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوں!
لیکن غریب سے زیادہ مشکل ان سفید پوش شرفاء کیلئے ہے جن کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا دن بہ دن مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے اور ان کے پاس غریب کی سی سہولت بھی نہیں ہے کہ ہاتھ اونچے کرکے کھڑا ہوجائے اور کہےکہ دیکھو اس دامن میں کچھ نہیں ہے سوائے دردِ فلاکت کے!
کل میرے ایک دیرینہ دوست نے ، جو میری ہی طرح سفارت کے منصب پر فائز ہوا، ملک و قوم کی حتی المقدور خدمت کی، نام کمایا، عزت کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو ریٹائرمنٹ کا لبادہ پہنایا اور پھر اسلام آباد میں رہنے کو ترجیح دی، مجھے فون کیا۔ ایک عرصہ کے بعد ہم رفیقوں میں بات ہوئی، حال چال پوچھا، خیریت دریافت کی۔ اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے کرم سے پیری عطا کی تاکہ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو جوان ہوتے دیکھ سکیں۔ لیکن جب میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اسلام آباد میں کیسے گذر رہی ہے تو اس سے رہا نہیں گیا۔ کہا کہ دیکھو کسی اور سے میں یہ بات نہیں کہہ سکتا جو تم سے کہہ رہا ہوں اور وہ یہ کہ ریٹائر ہوتے وقت جو یہ سوچا تھا کہ اب چین کی نیند سوسکیں گے وہ خواب ان کٹھ پتلیوں کے دور میں بہت بھیانک تعبیر لیکر آیا ہے!
میرے دوست کو اچھی، معقول پنشن ملتی ہے لیکن جو مہنگائی کا عالم ہے اس میں دو میاں بیوی کیلئے بھی اپنی سفید پوشی کو بے داغ رکھنا کارِ دارد بن گیا ہے۔ میرے دوست نے بتایا کہ اس کا جولائی کے مہینے کا بجلی کا بل کچھ زیادہ نہیں یہی کوئی بتیس ہزار روپے ہے اور یہ اس کفایت شعاری کے باوجود ہے کہ اسلام آباد ی شدید گرمی میں بھی شب خوابی کے کمرے کا ایر کنڈیشنر زیادہ سے زیادہ چھہ گھنٹے چلتا ہے!
زندگی کرنا ان کیلئے جو واقعی شریف ہیں،محض نام کے نہیں، ایک ایسا پہاڑ بنتا جارہا ہے جسے پار کرنے میں ان کی عمر بھر کی کمائی صرف ہوئی جارہی ہے۔
میں بار بار کہتا ہوں، اور یہ کہنے میں مجھے ہرگز ہرگز بھی کوئی خوشی نہیں ہوتی، کوئی تسکین نہیں ملتی، کہ میری عمر کے لوگوں کیلئے، میرے ہم عمر اور ہم عصروں کیلئے، یہ انتہائی قلق اور ملال کا باعث ہے کہ ہم اپنے سامنے اس ملک کو تباہ اور برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں جس کے قیام کا نعرہ لگاتے ہوئے ہم نے آنکھیں کھولی تھیں۔ ہمارا شعور ہی پاکستان کے نعرے کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور اپنے ماں باپ کی انگلی پکڑ کے ہم نے اپنے آبائی گھروں کو خیر باد کہا تھا اس امید کے سہارے کہ ہم ایک ایسے آزاد ملک میں زندگی بسر کرینگے جہاں آزادی کے نعمت کے ساتھ ساتھ ہمیں انسانیت کا بھرپور ادراک نصیب ہوگا اور ایسے معاشرے کی تشکیل ہوگی جس میں انسان کا احترام زندہ معاشرے کی دیگر خصوصیات کے ساتھ سرِ فہرست ہوگا!
لیکن اس خواب کی تعبیر بھیانک کرنے والے ہمارے اپنے حکمراں ہیں اور جہاں حکمرانوں کا ذکر ہو وہاں پاکستان کے بدمست اور اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کا تذکرہ زیبِ داستان ہی نہیں ہوتا بلکہ پورے فسانے کا مرکزی پلاٹ ہوتا ہے!
پلاٹ کے ذکر پہ یاد آیا کہ آپ میں سے بہت سوں نے وہ قصہ تو سنا ہوگا جو ابتدا میں لطیفہ لگتا تھا لیکن وقت اور پاکستان کی بدنصیب اور خونچکاں تاریخ نے اسے حقیقت کا روپ دے دے دیا ہے۔
قصہ یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کی ایک کانفرنس ہورہی تھی اور یہ بھی حقیقت اپنی جگہ اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے جرنیلوں کو سیاستدانوں سے کہیں زیادہ کانفرنسیں کرنے کا جنون ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خبروں میں رہیں اور پاکستانی قوم آگاہ رہے کہ ان کے اصل حکمراں کون ہیں اور کون اس حیثیت میں ہے کہ چاہے مسندِ اقتدار پہ کوئی بھی بیٹھا ہو وہ پردے کے پیچھے سے اس کی ڈور ہلاتے رہیں اور اسے کٹھ پتلی کی طرح نچاتے رہیں!
تو ایسی ہی ایک کور کمانڈر کانفرنس میں ایک جرنیل صاحب اونگھ رہے تھے۔ نیند پوری نہیں ہوئی تھی یا کسی قسم کے نشہ کے اثر میں تھے۔ بات ہورہی تھی دشمن کی چالوں کی جس کیلئے سپہ سالار نے دشمن کے پلاٹ کی اصطلاح استعمال کی۔ جیسے ہی بڑے صاحب کے منہ سے پلاٹ کا لفظ ادا ہوا اونگھتے ہوئے جرنیل چونک کے بیدار ہوئے اور فرمایا، سر، اگر کارنر کا پلاٹ ہے تو میں بھی اس کا امیدوار ہوں!
بنیئے تو بیچارے مفت میں بدنام ہیں لیکن ہمارے پاکستانی جرنیل کاروبار کے معاملہ میں بنیئوں کو میلوں دور چھوڑ چکے ہیں۔ کاروبار یا دکانداری میں ان کا کوئی حریف نہیں، کوئی ثانی نہیں، کوئی نہیں جو ان کے مقابل آسکے۔
آپ نے دنیا کے کسی اور ملک کی فوج کے بارے میں سنا ہے کہ وہ کاروبار کرتی ہو، صنعتیں چلاتی ہو اور صنعتیں بھی ایسی متنوع کہ ایک فیکٹری فولاد بنارہی ہے تو دوسری فیکٹری بچوں کے پینے کا خشک دودھ بناتی ہو یا صبح کے ناشتے میں کھانے والا کارن فلیکس بنا رہی ہو؟
ایک دو نہیں، اسی (80) سے زائد مختلف کاروبار ہمارے محافظوں کی سرپرستی میں کامیابی سے جاری و ساری ہیں جن میں ریٹائرڈ جرنیلوں اور دیگر افسروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد کھپایا جاتا ہے۔
حکیم الامت نے تو فرمایا تھا کہ
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
لیکن ہمارے کاروبار کے رسیا جرنیلوں نے اپنے قبیلے کے افراد کو اہلِ ایماں سے بھی بڑھا دیا ہے اور وہ وسیلے ایجاد کئے ہیں کہ تا حیات اس ملک و قوم کے سینے پر مونگ دلتے رہیں اور کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ دیں کہ ہر کام بظاہر قاعدہ قانون کے مطابق ہورہا ہے!
لیکن ملک کے سب سے بڑے اور مؤقر اخبار، ڈان، نے اپنے 26 اگست کے شمارہ میں پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی تازہ ترین رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق وزارتِ دفاع کے تحت جتنے بھی شعبہ آتے ہیں ان سب میں، بشمول ہماری محافظ فوج کے ادارے، ان میں بیشمار بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ اربوں کے کانٹریکٹ بغیر کسی پبلک آگہی کے من پسندوں کو دے دیئے جاتے ہیں۔ اکثر ٹینڈر کسی اخبار میں شائع ہونے کے بجائے فوج کے اپنے ذرائع سے برائے نام تشہیر دئیے جاتے ہیں اور پھر بندر بانٹ کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے۔
یہ اس فوج کا کردار ہے جس کا سربراہ، بات بے بات پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتا ہے لیکن اس کے ضمیر پر کبھی یہ بات گراں نہیں گذرتی کہ قوم کی کمائی پر اپنی من مانی کرنا اور ضابطہ اور قانون کی دھجیاں اڑانا قوم و ملک کے ساتھ سب سے بڑی غداری کے مترادف ہے۔
عاصم منیر نے ملک پر جو فسطائیت مسلط کی ہے اس نے پاکستان کی بچی کھچی اقدار کو بھی فوج کے بوٹوں تلے روند دیا ہے۔لیکن جرنیل خود کو ملک کا مالک سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ایک مقبوضہ سرزمین کے باشندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے!پلاٹوں کا جادو جرنیلوں کے سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ تازہ ترین واردات یہ ہے کہ جرنیلوں کو اسلام آباد کی مرگلہ پہاڑیوں میں کئی ایکڑ زمین کی ہوس ہے جس کیلئے جواز یہ تراشا گیا ہے کہ یہ زمین فوج کے شہداء کے ورثاء میں تقسیم کی جائے گی لیکن پاکستانی قوم اب ، عمران خان کی بدولت، اتنی باشعور ضرور ہوچکی ہے کہ ان ہتھکنڈوں سے مرعوب نہ ہو، ان جعلسازیوں میں نہ آئے۔ سب جانتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اور پاکستان کے بدمست جرنیلوں کی پلاٹوں کی بھوک ایسی ہے کہ زمینی مربع جتنے قبضے میں ہوں اتنے ہی کم ہیں۔دورِ یزیدی میں جو معاشی تباہ حالی ہے وہ تو اپنی جگہ سہی لیکن اس سے بدتر وہ تہذیبی ابتری ہے جو ملک کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔شہباز کی کٹھ پتلی حکومت ہر وہ کام کرنے کیلئے بسر و چشم حاضر ہے جس کا اشارہ یزیدی ٹولے سے ملتا ہے۔اس کٹھ پتلی سرکار کی دو ترجیحات ہیں ایک عمران خان کو کسی نہ کسی بہانے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا اور دوسرے آئین کو اس طرح یزیدی ٹولہ کے حق میں توڑنا مڑوڑنا کہ اس کی روح سلب ہوجائے اور اس کا حلیہ بگڑ جائے۔سو ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ وہ جسے شر کی تثلیث کہنا ہر طرح بجا ہے اپنی جگہ برقرار رہے۔ عاصم منیر فوج کا سپہ سالار رہے، ننگِ عدالت فائز عیسیٰ مسندِ عدل پہ براجمان رہے اور پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا فاسق، راجہ سکندر سلطان، الیکشن کمیشن کا سربراہ بنا رہے اور قانون کے پرزے ہوا میں اڑاتا رہے!
تہذیبی زوال کی انتہا یہ ہے کہ ایک با حمیت قوم کو فخر ہونا چاہئے تھا کہ اس کا ایک فرزند، عمران خان، دنیا کی سب سے معروف اور موقر یونیورسٹی کا چانسلر بننے کا امیدوار ہے اور اس کی کامیابی کے آثار اور سب دوسرے امیدواروں کے مقابلہ میں کہیں بہتر ہیں۔
لیکن تف ہے فوج کی کٹھ پتلی نواز لیگ اور اس کے نام نہاد مشاہیر پر کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کو خطوط بھیجے، باقائدہ فریاد کی، واویلا کیا، کہ ایک ایسے فرد کو کیوں اپنا چانسلر بنانا چاہتے ہو جو پاکستان میں معتوب یا سزا یافتہ ہے!
لیکن گلی کے کتوں کے بھونکنے سے راہگیر سڑک چلنا تو نہیں چھوڑتا۔ سو ننگِ قوم و ملت بے ضمیر نوازیوں کی فریاد آکسفورڈ کی انتظامیہ نے ان کے منہ پر مار دی۔ واقعی شریف ہوتے تو اس بے عزتی کے بعد کچھ نہ بولتے لیکن شرافت تو ان نام نہاد شریفوں کو چھو کر بھی نہیں گئی۔عمران خان نے بہت اچھا کیا جو نواز کی یہ تجویز کہ تمام سیاسی پارٹیاں مل بیٹھیں اس کے منہ پہ ماردی یہ کہکر کہ وہ اور اس کی تحریکِ انصاف اگر بات کریگی تو ان سے جن کے ہاتھ میں ان کٹھ پتلیوں کی تمام تر ڈوریں ہیں۔ بات بھی درست ہے۔ مداری سے بات کی جائے نہ کہ اس کے اشارے پہ ناچتی ہوئی کٹھ پتلیوں سے!
تو لیجئے آخر میں یہ چار مصرعے آپ کی نذر ہیں
نام سے عمران کے اس درجہ خائف ہے یزید
کانپنے لگتی ہیں ٹانگیں نام سے کپتان کے
کائر و بزدل ہے جرنیلی قبیلہ ملک کا
بھاگتا ہے دُور اب سائے سے بھی عمران کے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں