بالآخر ایک امریکی پروفیسر نے بتا ہی دیا کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں کس کا ہاتھ تھا؟یہ معلوم تو سب پاکستانیوں کو تھا لیکن امریکی حکام حسب دستوراس سے انکار کرتے رہے۔بائیڈن نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔لیکن کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک حلیف ملک کی حکومت گرائی جا رہی ہو اور صدر کی مرضی بھی اس میں شامل نہ ہو؟
امریکہ کے دانشورپروفیسرجیوفری سیکس سے سوال کیا گیا، کہ امریکن سی آئی اے دنیا میں بُرے لوگوں کو ڈھونڈھ کر ختم کرنا چاہتی ہے، تو کیا بنگلہ دیش اور پاکستان کے مقبول عام اور منتخب وزیر اعظموں کو ہٹانے میں بھی انہی کا کردار تھا؟
پروفیسر سیکس نے کہا، ’’کہ ان دونوں واقعات میں مجھے معلوم نہیں کہ سی آئی اے کا کتنا ہاتھ تھا لیکن پاکستان کے عمران خان کو ہٹانے میںامریکن حکومت کا ہاتھ تو ضرور نظر آتا ہے، اور شاید بنگلہ دیش میں بھی۔پاکستان کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ وہ ایسے کہ اس دفتر کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور مشرقی ایشیا، ڈونلڈ لونے حکومتیں بدلنے میں وہی کردار ادا کیا جو انہی کی طرح کی ایک امریکن عہدیداروکٹوریا نیولینڈمشرقی یورپ میں کرتی تھی جیسے یو کرائین میں۔اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ ایک عام سا طریق کار ہے جس میں اکثر و بیشتر سی آئی اے پہل کرتا ہے ، اگرچہ یہ بھی ضروری نہیں، جب یو ایس فیصلہ کرتا ہے کہ وہ فلاں کی حکومت پسند نہیں کرتا اور فلاں کی کرتا ہے،تو اس نا پسند والی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔اس معاملہ میں امریکہ ہی دنیا کاوہ واحدملک نہیں جو ایسا کرتا ہے۔صرف فرق یہ ہے کہ امریکہ اتنی کثرت سے یہ کاروائی کرتا ہے کہ جیسے ہماری خارجہ حکمت عملی کا یہ بنیادی اصول بن چکا ہے۔بجائے اس کے کہ سفارتکاری سے اور باہمی افہام و تفہیم سے اختلافات دور کئے جائیں، امریکہ وہ کرتا ہے جسے ہم کسی حکومت کا تختہ الٹنا regime change))کہتے ہیں۔یہ حرکت دنیا میں ہر جگہ کی جاتی ہے کہیں سی آئی اے، کہیں دفتر خارجہ ، یا محکمہ دفاع، اس کام میں کاروائی کرتے ہیں۔کہیں تو ایک رفاہی ادارہ جس کا نام National Endowment for Democracy، بھی ایسی حرکات میں شامل ہوتا ہے اور اسے حکومت سے امداد ملتی ہے۔ان سب اداروں کو حکومت استعمال کرتی ہے اور ایسے کہ ضرورت پڑنے پر ان حربوں سے لا تعلقی بھی دکھا سکے۔کبھی یہ ملٹری کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیتی ہے، کبھی قاتلانہ حملہ، کبھی سیدھا سیدھا صاحب صدر کو اپنے کسی ہوائی جہاز میں بٹھا کر اغوا کر لینا، جیسے کچھ عرصہ پہلے ہیٹی کے صدر کے ساتھ کیا گیا۔پاکستان میں جو کچھ ہوا، میں نے اس پر لکھا ہے ۔ وہاں عمران خان روس، چین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے۔یہ کہتے ہوئے کہ ہم کسی کے ساتھ طرف داری نہیں کرتے۔یہ پالیسی امریکی کتاب میں سب سے بُری بات سمجھی جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں تو ہمارے خلاف ہو۔اس لیے امریکہ نے فیصلہ کیا کہ عمران خان کی چھٹی کر دی جائے۔اس پر عمل درآمد کے لیے ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر کے ساتھ ملاقات کی اور اس کو دھمکی دی کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات سخت خطرے میں ہیں۔اس کی وجہ وزیر اعظم ہیں جنہیں بدلنا ہو گا۔خواہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے۔اسطرح پاکستان کی خلاصی ہو سکتی ہے۔یہ پیغام سفیر صاحب نے پاکستان بھجوا دیا اور اس کے ساتھ ہی ان کو ہٹانے کی کاروائی شروع ہو گئی۔اور ایک مہینے میںیہ سب کو نظر آگیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ عمران خان نے ایک عوامی جلسے میں سفیر صاحب کے پیغام کو لہراتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کیا کر رہا ہے؟ پھر جب خان کو کرسی ہٹا دیا گیا تو ان پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا جس کی وجہ سے وہ جو کہ پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ہیں، آج بھی جیل میں ہیں۔اور باوجودیکہ کہ عمران خان کو جیل میں ڈال دیا، ان کے چاہنے والے عوام نے انتخابات میں ان کو سب سے زیادہ ووٹ ڈالے۔لیکن فوج نے ان ووٹوں کی تعداد میں جعلسازی کروائی۔ فوج ہر موقع پر خان کے خلاف رہی اور امریکہ نے اس پر صاد کیا۔‘‘
بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ کیا وہی عوامل تھے جو جیوفری سیکس نے بیان کیے یا کچھ اور بھی تھا؟اس راقم کی رائے میںیہ خواہش در اصل اس امریکہ کے اس دوست کی تھی جو بڑے عرصہ سے خان سے بد دل ہو گیا تھا۔جب سے عمران خان نے مسلمان ملکوں کی حمایت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی اور وہ باتیں کہیں جو کسی اور مسلمان ملک کے سر براہ کو کہنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔یہی نہیں ۔ خان نے مسلمانوں کے عالمی تعاون کے ادارے میں بھی دلچسپی لینی شروع کر دی۔یہ تقریباً طے ہو چلا تھا کہ خان کو اس کا سربراہ بنا دیا جاتا۔اس چھوٹے لیکن انتہائی طاقتور ملک نے ایک لمبے عرصہ سے یہ قسم کھائی ہوئی ہے کہ وہ کسی ایسے اسلامی لیڈر کو برداشت نہیں کریں گے جس میں مسلمانوںکی قیادت کرنے کی صلاحیت ہو، جوش ہو اور جذبہ ہو۔خیر یہ ایک نقطۂ نظر ہے۔ ورنہ پاکستان کا دوسرا بڑا دشمن ملک اس کا اپنا ہمسایہ ہے جو نواز شریف کو وزیر اعظم کی جگہ دیکھنا چاہتا ہے اور خان سے خائف ہے۔ اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں اپنے مشترکہ مفادات کی وجہ سے اکٹھے ہو گئے ہوں۔ کم از کم امریکی دفتر خارجہ کے جنوب اور مشرقی ایشیا کے محکمہ میں، جہاں با اثر افسران میں صہیونیوں اور ہنود کا غلبہ ہے، وہاں کے افسر اعلیٰ ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر کے ذریعے جو دہمکی خان کو بھجوائی، اس کے تانےبانے وہیں سے ملتے نظر آتے ہیں۔اب اس با اثر گروہ کے ساتھ اگر کچھ شاطرپاکستانی باغیوں کو ملوا دیا جائے تو معاملہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ان باغیوں میں صحافی اور سابق سفارت کار حسین حقانی، سابق فوجی سپہ سالار قمر باجوا اور نواز شریف کا کنبہ سارا شامل کر لیا جائے تو اس سے بہتر سازشی گروہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔اس کی نشانیاں سازش کے منصوبہ میں نظر آتی ہیں جو غیر ملکی نہیں بنا سکتے تھے۔ کیونکہ کس طرح پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ کامیابی سے لانا ، پاکستانی سیاست کی اونچ نیچ سے بخوبی واقف ہونے کی دلیل ہے۔ اور کس طرح ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کر کے اپنے مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں، یہ پاکستانی سیاستدان اور صحافی ہی بہتر جانتے ہیں۔
پاکستان میں مختلف طاقتور حلقے ملک کے اثاثوں کی لوٹ مار میں تندہی سے مشغول ہیں۔ کچھ تو اپنے ذلیل مقاصد کے حصول میں اتنے مدہوش ہیں کہ انہیں پاکستان کی معیشت، بھلائی اور مستقبل کی بھی پرواہ نہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال مندرج ذیل بیان سے ملاحظہ ہو:
سوشل میڈیا پر دیکھے جانے والی ایک اور وڈیو سے جانئے۔ اس کا عنوان ہے: آگ کی دیوار۔’’کچھ باتیں ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔مثال کے طور پر دو چار ملک وہ ہیں جنہیں پاکستان ایک نظر نہیں بھاتا۔ ان کا نام نہیں لے سکتاکیونکہ پھر میری یہ وڈیو بین ہو جائے گی۔ ان کے پاس آرٹیفیشل انتیلیجنس ( اے آئی)لگی ہوئی ہے،اس میں ڈیٹا آ رہا ہوتا ہے اور اپنے سارے دشمن ملکوں کی خبریں انہیں ملتی رہتی ہیں کہ کون سا ملک کس شعبہ میں ترقی کر رہا ہے؟ کس ایریا میں ڈائون جا رہا ہے؟جن جن ایریاز میں وہ دیکھتے ہیںکہ وہ اوپر جا رہا ہے، مثال کے طور پر پاکستان اگر کسی شعبہ میں اوپر جا رہا ہے،وہ اس کو ہٹِ کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ اس کو کہتے ہیں اکنامک ہٹمین۔وہ اس لیے ہٹ کرتے ہیں کہ وہ ملک ترقی نہ کر سکے۔پاکستان میں بیس سال سے ہر انڈسٹری نیچے جا رہی ہے۔زراعت ہماری تباہ ہو گئی۔ٹیکسٹائل ہماری جو ریڑھ کی ہڈی تھی وہ ختم ہو گئی۔ہر ملک میں ایسے سرکاری ملازم ہوتے ہیں جنہیں انہوں نے خریدا ہوتا ہے۔تو وہ ان کو کہتے ہیں اس اس انڈسٹری کو آپ نے کیسے ضرب لگانی ہے، اور اے آئی (مصنوعی ذہانت)اس کا پورا پلان بنا کر دیتی ہے۔بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔اب پاکستان میں آئی ٹی کا ایریا ترقی کر رہا تھا۔اس کو ہٹِ کیا گیا۔ بیوقوف بنایا گیا۔اس کی انٹر نیٹ کی سپیڈ کو ہٹ کیا گیا۔بہت سے لوگوں نے غلط کام کیا۔ ایساحکومتی ترجمان لگایا گیا جو فائر وال کو فائبر وال کہتا تھا۔ تو ان لوگوں سے کیا امید رکھ سکتے ہیں۔کسی نے کوئی تحقیق نہیں کی۔ ایک انڈسٹری جو آگے بڑھ رہی تھی وہ بھی نیچے چلی گئی۔معاملہ صاف ہو گیا بس ختم۔ اب کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔آپ انہیں ولن نہیں سمجھئے گا، ولن ہم خود ہیں۔کتنے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا؟یہ تو ہماری یوتھ تھی جن کے پاس ایک جاب بچا تھا ۔ اب کوئی جاب نہیں ہے۔یہ ایک فری لانسر زکا کام تھا جس سے وہ روزی کما رہے تھے۔کچھ کی زندگیاں بہتر ہو رہی تھیں۔سوچئیے کہ پاکستان میں زیادہ لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں، لیکن کتنوں نے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کیا؟ کسی نے نہیں کہا کہ پانی نہیں دیتے، کوئی پلے گرائونڈ نہیں ہے۔ایجوکیشن نہیں دی۔ یونیورسٹیا ں ہماری کسی کام کی نہیں، ہم نے کبھی کسی کو الزام نہیںدیا۔کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا۔ایک ہمارے لیے راستہ کھلا تھا فری لانسنگ اور ای کامرس کا، تم نے اس کے آگے بھی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔کتنے لوگوں نے احتجاج کیا؟ چھوڑیں بنگلہ دیش کے چار سو طلباء ہلاک ہوئے۔اپنی پوری قوم کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔چھوڑیں کہ الیکشن کیا ، یہ کیا اور وہ کیا۔اپنے حق کے لیے کتنے پاکستانی نو جوان باہر نکلے؟ہم بھیڑ بکریاں بھی نہیں، کیڑے مکوڑے ہیں۔‘‘
یہ ایک جلے بھنے پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔ بات تو سچ ہے اگرچہ کڑوی ہے ۔ اصل میںمسئلہ وہی ہے کہ بیرونی طاقتیں ہماری اندرونی طاقت پر بری طرح اثر انداز ہیں اور اور اس سے وہ کام کروا رہی ہیں جو کوئی اپنے وطن او رعوام کے ساتھ نہیں کرتا۔ یعنی کھلم کھلا ظلم و ستم کی آندھی چلانا، جسے فسطائیت کا نام دیا جاتا ہے۔صرف اس لیے کہ کہیں وہ اسلام پسند قائد اقتدار میں نہ آ جائے۔یہ اس لیے بھی زیادہ اہم بن گیا ہے کہ پاکستان خدا کے کرنے سے اب صرف ایک اسلامی ریاست نہیں، یہ ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ اس کے پاس نہ صرف ایٹمی اثاثے ہیں وہ ان کو استعمال کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اگر ایک ایسے اسلامی ملک میں کوئی سر پھرا قائد آگیا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے؟اس لیے اسی میں سب کا فائدہ ہے کہ اس شخص کو اقتدار میں نہ آنے دیا جائے۔اگر عوام اس کو چاہتے ہیں تو ان کا دماغ درست کیا جائے۔اس کی پارٹی کو تتر بتر کر دیا جائے تا کہ وہ اگر آزاد ہو بھی جائے تو پارٹی کو بحال نہ کر سکے۔اب آپ اگر یہ بیان پڑھ کر سمجھ چکے ہیں تو آپ کو سمجھ آ گیا ہو گا کہ بڑا سین کیا ہے؟اور اس کے ساتھ آپ یہ بھی سمجھ گئے ہوںگے کہ پاکستانی طاقتیں ان باہروا لوں کے ایما پر کیا ظلم ڈھا رہی ہیں؟ صرف پاکستان کے حکومتی نظام کو تباہ نہیں کیا جا رہا ہے اس کی معیشت، بیرونی سرمایہ کاری، زر مبادلہ کے حصول کے ذرائع ، اور اس کا انفرا سٹرکچر، سب کو بنیادوں سے اکھیڑا جا رہا ہے۔ اب اگر عمران خان واپس اقتدار میں آ بھی جائے تو اس کو دہائیاں لگیں گی پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں۔
0