0

یہ ہو کیا رہا ہے؟

غالب کو تقدیر سے بھی گلہ تھا اور زمانے سے بھی۔ اسی لئے تو بڑے درد کے ساتھ کہا تھا
حیراں ہوں دل کو، روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو پاس رکھوں نوحہ گر کو میں!
نوحہ گر پاس رکھنے کا مقدور تو ہمارا بھی نہیں ہے لیکن جو دو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں وہ بلا شبہ ایسا ہے کہ میرزا کی طرح ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں!
ابھی یہ سطور لکھنا ہی شروع کی تھیں کہ نظر اس خبر پہ اٹک گئی کہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل میں عسکریت پسندوں نے، جو دہشت گردوں کیلئے استعمال ہونے والی جدید اصطلاح ہے، ایک مسافر بس کو روک کے اس کے تمام مسافروں کو نیچے اتارا، پھر ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد تئیس (23) مسافروں کو اس بنیاد پہ وہیں قتل کردیا کہ ان کا تعلق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے تھا!
اس سانحہ سے ایک دن پہلے اسی بلوچستان کے رحیم یار خان کے تھانہ ماچکا میں پولیس کے سپاہیوں اور وہ جو کچے کے ڈاکو کہلاتے ہیں کے درمیان مقابلہ میں ڈاکوؤں نے تیرہ (13) پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور اس دیدہ دلیری کے ساتھ کہ ڈاکو پولیس تھانہ کی حدود میں داخل ہوئے اور پولیس والوں کو بھون ڈالا!
دہشت گردوں یا عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوتے نظر آتے ہیں اور اس کا سبب بھی سمجھ میں آتا ہے۔ قانون کے دائرے سے باہر حرکتیں کرنے والے ہر اس موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جب وہ قانون کو کمزور دیکھ سکیں، کمزور پائیں اور اپنی من مانی کرنے کیلئے ان کو اس سے بہتر ماحول اور کوئی دستیاب نہیں ہوتا۔
وہ پرانی کہاوت تو سب نے ہی سنی ہوگی کہ گھر کا دروازہ اگر رات کو کھلا ہوگا، یا کھلا چھوڑ دیا جائے، تو چور تو آپ سے آپ آئے گا۔ چور تو کھلے دروازوں کی تلاش میں رہتے ہیں!
پاکستان میں کٹھ پتلی سرکار اور اس کے پسِ پشت سہولت کار اپنی سطح پر اپنی الگ قسم کی دہشت گردی میں مبتلا ہیں۔ ملک میں کیا ہورہا ہے، امن و امان کی فضا کیسے قانون توڑنے والوں یا قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے والوں کیلئے سازگار ہوتی جارہی ہے اس سے لوٹ مار کی سرکار یا اس کے کہنے کو طاقتور سہولت کاروں کو کوئی پریشانی نہیں ہے، کوئی تکلیف نہیں ہے۔ تکلیف اس لئے نہیں ہے کہ ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ایک مشترکہ حریف کو نیچا دکھانے یا اس کو گرانے اور مٹانے کا ہے اور یہ ہدف آج کا نہیں ہے بلکہ ڈھائی سال پرانا ہے۔
عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی مذموم کارروائی فوج کے بدمست جرنیلوں کے ایماء پر کی گئی جس کیلئے جی حضوری قسم کے موروثی سیاستدان جرنیلوں کے تابعدار اور تابع فرمان تھے۔ انہیں بساط پر شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کیا گیا۔ استعمال کرنے والے بذاتِ خود ہمارے عہد کی سب سے بڑی عسکری طاقت کے مہرے تھے۔
ملت فروش جرنیلوں کی سامراجی غلامی بھی پاکستان کی حد تک نہ ڈکھی چھپی ہے نہ کوئی آجکل کا قصہ ہے۔ یہ غلامی تو ستر برس سے زیادہ پرانی ہے اور ظاہر ہے کہ پاکستانی جرنیلوں کی نس نس میں اس غلامی کا زہر گردش کر رہا ہے۔
یہ داستان دہرانے کی ضرورت نہیں کہ عمران خان کو کیوں گرایا گیا۔ اصل مسئلہ ہمارے یزیدی جرنیلی ٹولہ کیلئے یہ کھڑا ہوگیا ہے کہ جس کو گرایا تھا وہ تو آج پہلے سے کہیں زیادہ بلند قامت ہوکے ڈٹ کے کھڑا ہوا ہے۔
ہمارے وردی پوش فراعین بارہا سیاستدانوں کی بساط لپیٹتے آئے تھے اور ان کا تجربہ یہ تھا کہ یا تو ان کا گرایا ہوا ملک سے فرار ہوجاتا تھا، جیسے نواز شریف، یا ان کے قدموں میں گر کر ان سے تا حیات وفاداری کی قسم کھاتا تھا، جیسے ڈکیت زرداری۔ اور پھر یہ فرعونی جرنیل اپنے آپ کو ارضی خدا سمجھتے ہوئے اپنے غلاموں کو انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔
اس نوازشِ خسروانہ کے شواہد تو آج بھی پاکستان میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔زرداری جیسا رسوائے زمانہ ڈکیت دوسری بار پاکستان کا صدر بنادیا گیا ہے۔نواز چونکہ جسمانی صلاحیت سے زیادہ ذہنی اور اعصابی صلاحیتوں سے محروم ہوگیا ہے لہٰذا اس کے بجائے اس کے چھوٹے بھائی کو جو بذاتِ خود بھی نامی چور ہے، وزیر اعظم کا منصب عطا کردیا گیا ہے۔ اور بادشاہ گروں نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پر نواز کی اس بیٹی کو مسلط کردیا ہے جس کا واحد ہنر قابلِ اعتراض ویڈیو بناکر معروف لوگوں کو بلیک میل کرنا تھا!
اس عورت کو ایک اور بیماری بھی لاحق ہے اور وہ ہے خود نمائی کا مرض جس کے ثبوت یہ اپنی حرکتوں سے ہر روز پیش کررہی ہے لیکن جرنیلوں کو اس سے کوئی پریشانی نہیں اسلئے کہ یزیدی ٹولہ کا سربراہ عاصم منیر خود بھی اسی مرض میں گرفتار ہے۔ نہ جانے کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن سید ہرگز نہیں ہے مگر مریم نواز کی طرح خود نمائی کے کیڑے نے اسے بھی کاٹا ہوا ہے تو یہ خود کو سید بھی کہلوانے لگا ہے!
یہ جتن اپنی جگہ لیکن اس تمام تشہیر اور خود نمائی کے باوجود نہ شہباز، نہ زرداری، نہ مریم اور نہ ہی عاصم منیر کا قد کاٹھ بلند ہوسکا ہے اور نہ ہی ان کو وہ عوامی پذیرائی نصیب ہوسکی ہے جو سال بھر سے سلاخوں کے پیچھے بند رہنے والے عمران خان یا کپتان کی ہے!
پاکستانی میڈیا کے قلم کار اور بزعمِ خود صحافت کے دعویدار تو جرنیلوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں اپنے ضمیر بیچ چکے۔ لہٰذا ان کے بیانیہ کو تو کوئی بھی ہوشمند سنجیدگی سے قبول نہیں کرسکتا۔ یہ قلم کی بیسوائیں تو یزیدی راگ الاپ کے کہتی رہتی ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت وہ نہیں جو اس کے پرستار بتلاتے ہیں لیکن ہمیں تو اعتبار ان غیر ملکی صحافیوں کے بیانیہ کا ہے جو بہ بانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نہ صرف پاکستانیوں کی آنکھوں کا تارا ہے بلکہ دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں میں وہ سپر اسٹار ہے اور اس کی مقبولیت اور پذیرائی کو دنیا کا اور کوئی رہنما مات نہیں دے سکتا!
تو یزیدی ٹولہ کی تمام تر شیطانی کاوش کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ جس عمران کو انہوں نے ہر حربے کے استعمال سے بھولی ہوئی داستان یا قصہء پارینہ بنانا چاہا وہ ان کے حلق میں اٹکی ہوئی ہڈی بن گیا ہے جسے نہ نگلتے بن رہی ہے نہ اگلتے!
22 اگست کو تحریکِ انصاف کا ترنول میں جو جلسہ ہونے والا تھا اسے شیطانی حربوں سے عین وقت پر ملتوی کروادیا گیا جس سے یہ احساس ہوا ہے کہ تحریکِ انصاف کی اپنی صفوں میں انتشار ہے جو عین ممکن ہے درست بھی ہو اسلئے کہ جس پارٹی کا لیڈر جیل میں ہو جہاں اس سے ملنے جلنے پر ہر طرح کی بندش ہو، پابندی ہو، اس میں قیادت اور رہنمائی کے ضمن میں انتشار یا فکر کی ابتری پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ علیمہ خان، جو عمران کی ہمشیرہ ہیں، یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی پارٹی میں یزیدی جرنیلوں نے اپنے مخبر داخل کردئیے ہیں۔ اگر علیمہ یہ سمجھتی ہیں تو ان کا خدشہ درست بھی ہوسکتا ہے اسلئے کہ یزیدی ہر وہ حرکت کرسکتے ہیں، بلکہ کر رہے ہیں، جس سے تحریکِ انصاف اور عمران کو زک پہنچائی جاسکے۔
ابلیسی حربوں کے روحِ رواں تین وہ شیطان ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کے تین انتہائی مقتدر ادارے ہیں۔
فوج کی سربراہی یزید عاصم منیر کے قبضہ میں ہے۔ عدلیہ پر فائز عیسٰی جیسا ننگِ انصاف فائز ہے اور الیکشن کمیشن ننگِ ملت راجہ سکندر سلطان کی تحویل میں ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اس سے زیادہ ملامتی تثلیث پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی جس کا ہر رکن عمران کے خون کا پیاسا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا کہ کس طرح عمران کا نام و نشان مٹادے!
لیکن یزیدیوں کے اس شیطانی کھیل میں ملک کا برا حال ہوگیا ہے۔ایک طرف دہشت گردوں کو حوصلہ مل رہا ہے اور وہ ریاست کا تار و پود بکھرنے کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
دوسری طرف معیشت کا بقول شخصے بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔ ایک برس میں فیصل آباد میں سو سے زائد کپڑے کی ملیں بند ہوچکی ہیں اسلئے کہ جس نرخ پر انہیں بجلی فراہم کی جاتی ہے اس سے پاکستانی کپڑے کی قیمتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کی مصنوعات سے وہ مقابلہ نہیں کرسکتیں۔پاکستان میں بجلی کا نرخ فی یونٹ 62 روپے ہے جبکہ بھارت میں یہ نرخ 7 روپے ہے۔
کپڑے کی ملیں بند ہوجانے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
ادھر پاکستان کے آڈیٹر جنرل کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ چونکا دینے والا انکشاف ہوا ہے کہ ملک کے حالیہ بجٹ میں، جس کا تخمینہ تقریبا” 39 کھرب روپے ہے، سماجی کاموں کیلئے صرف 4 فیصد رقم دستیاب ہے جبکہ بجٹ کا 93 فیصد دفاع، سرکار اور قرضوں کی ادئیگی پر صرف ہورہا ہے۔
غریب کیلئے تو پاکستان میں کوئی جائے پناہ نہیں ہے لیکن باصلاحیت اور ہنر مند افراد کیلئے بھی گنجائش کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ اسی لئے لاکھوں ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوان بیرونی دنیا کا رخ کر رہے ہیں۔اس ضمن میں تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں سرِ فہرست ہے ان ممالک میں جہاں سے سب سے زیادہ افراد نقلِ وطن کر رہے ہیں۔
پاکستانی معیشت ڈوب رہی ہے تو غیر ملکی سرمایہ کار کہاں پاکستان میں ایک پیسہ بھی لگائینگے۔ عاصم منیر نے گذشتہ برس بڑے طمطراق سے دعوی کیا تھا کہ وہ ایک برس میں پاکستان میں سو ارب ڈالر کا بیرونی سرمایہ لیکر آئے گا لیکن ایک ارب ڈالر بھی نہیں آیا۔ حیادار ہوتا تو ڈوب مرتا۔
پاکستان میں سرمایہ لگانا تو کجا، غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔ برما شیل نے اپنا بوریا بستر پاکستان سے لپیٹ لیا۔ اب فرانس کی مشہورِ زمانہ تیل کارپوریشن، ٹوٹل، بھی پاکستان کو خیر باد کہہ رہی ہے۔ اور بھی درجنوں بین الاقوامی کارپوریشنیں ہیں جو ڈوبتی ہوئی ناؤ سے اتر کر جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈوبتی کشتی میں کون سواری کرنا چاہے گا!
تو یہ وہ احوال ہے وطنِ بیمار کا جس کو دیکھ کر ہر دردمند پاکستانی نوحہ پڑھ رہا ہے۔
غالب کو گلہ یہ تھا کہ دلی کی قیامت خیز گرمی میں ان کے پاس خس خانہ و برفاب نہیں تھے۔ پاکستان پر یزیدی تسلط اور ستم کے مارے غریب روٹی کو ترس رہے ہیں اور اندھیرے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں کہ بجلی کا بل ادا کرنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔
اس دور میں غالب ہوتے تو کیا کہتے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں