0

اندھیر نگری، چوپٹ راج

پاکستان میں جو ہو رہا ہے، اس سارے فساد کی جڑ یہ نون لیگی اور ان کے مفاہمتی سیاستدان، جیسے زرداری وغیرہ ہیں۔ نواز شریف ڈکٹیٹر ضیاالحق کی شناخت اور پرداخت تھا۔ غالباً اس نے اسی وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ فوج کا تابعدار رہے گا اور فوج کو اپنی من مانی کرنے دے گا۔اس کے بدلے میں فوج اس کو کچھ نہیں کہے گی اور اس کی حکومت کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دے گی۔یہ قول وقرار آج تک برقرار ہے۔صحافی لندن پلان کی بات کرتے ہیں، وہ بھی اسی بنیادی اصول کا مظہر ہے۔نواز اور اس کا بھائی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور ان کے ساتھ اس کی حرافہ بیٹی بھی شامل ہے۔2018 کے انتخابات سے پہلے لندن میں بیٹھ کر اس فیملی نے فوجی سر براہ کے ساتھ منصوبہ بنایا کہ کس طرح عمران خان کی حکومت گرائی جائے گی اور کس طرح قاضی عیسیٰ کی مدد سے نواز شریف کو واپس پاکستان لایا جائے گا۔اس کے لیے عارضی حکومت پورا تعاون کرے گی۔ کس طرح اہم محکموں کے سر براہ حاضر اور سابق فوجی جرنیل لگائے جائیں گے ۔ جیسے نیب اور نادرا وغیرہ۔ جب نیب کا چیرمین جرنیل ہو گا تو نواز شریف کے خلاف اور اس کے بھائی کے خلاف تمام مقدمات لپیٹ دیئے جائیں گے۔نادرا کا چیرمین جرنیل لگانے کا سب سے بڑا یہ فائدہ ہو گا کہ کسی بھی پاکستانی جس کا نادرا کا کارڈ سسٹم میں موجود ہے اس کا سارا کچا چٹھا منٹوں میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باپ کا نام ، بھائی بہنوں کا نام اور پتے، تصویریں ، کچھ چھپا نہیں رہے گا۔اسی طرح اب تقریباً ہر سرکاری ادارے پر ایک جرنیل بیٹھا ہے۔ فوج کا قبضہ مکمل ہے۔رہ گیا تھا ایک ادارہ، سپریم کورٹ تو اس پر میاں صاحب کا صدا ممنون چیف جسٹس براجمان ہے۔فوج کو سیاست میں دخل دینے کی ضرورت نہیں، سیاست خود فوج کو سر پر سوار کر رہی ہے۔
زرداری ، جس کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ اس کو گرفتار نہ کیا جائے کیونکہ اس کی کرپشن کے راز آئے دن افشا ہوتے رہتے ہیں، اس نے نون لیگ کے ساتھ ایسے معاہدے کیے ہیں جن سے وہ اب بالکل محفوظ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا ہیجڑہ بیٹا جہاں ضرورت ہو ناچ کر دکھا دیتا ہے۔مسٹرٹین پرسنٹ، اس کرپٹ ریاست کا صدر بن کر دنیا کو باور کروا رہا ہے کہ کرپشن کے بہت فائدے ہیں۔ کیونکہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ اگر پیسہ ہو تو آپ ملک میں کوئی بھی رتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ او رجب رتبہ مل جائے تو کھل کر اورپیسہ بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک جیت اور سُپرجیت والا فارمولا ہے۔زرداری اور نواز میں ایک فرق ہے کہ نواز اپنی حرام کی دولت بھی خرچ نہیں کرتا۔ وہ جب سیاسی عہدہ لے لیتا ہے تو سرکاری خزانے اور اپنے عہدہ کو استعمال کر کے چیدہ چیدہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔اس طرح اس کو بھی وہی فائدے مل جاتے ہیں جو زرداری اپنی لوٹی ہوئی دولت کو استعمال کر کے لیتا ہے۔نواز فیملی خود کرپٹ ہے اور اپنے ماتحتوں کو بھی کرپشن کرنے دیتی ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے۔حالانکہ اپنی جیب سے وہ کسی کو ایک دھیلہ بھی نہیں دیتا۔ البتہ قومی خزانہ خالی ہوتا رہتا ہے۔
ادھر فوج کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، اسے مل جاتی ہے۔ بہترین زمین ، بہترین عہدے، ٹیکسوں سے چھوٹ،اور ہر قسم کی اجازت، جائز یا نا جائز، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ فوج اس وقت پاکستان کی سب سے بڑا ،جائداد کا کاروباری ہے۔ اس کی فیکٹریاں، بینک، ایر لائنز، بغیر کسی سرکاری رکاوٹ کے اور زیادہ سے زیادہ مراعات کے ساتھ اس کو ملک کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ بنا چکی ہے۔جسے انگریزی زبان میں conglomerate یعنی بہت ساری کمپنیوں پر مشتمل ایک عظیم ادارہ۔ہر سال فوج اپنا بجٹ بڑھاتی ہے جسے حکومت بے چوں و چراں مان لیتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ قومی خزانہ اس بجٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پھر وزیر خزانہ در در سے قرض مانگنے جاتا ہے اور حکومت بمشکل کام چلاتی ہے۔ادھر گردشی قرضے بڑھتے جاتے ہیں۔بیرونی قرضہ بھی اور اندرونی بینکوں سے لیے قرضے بھی۔ اب ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کو بینکوں میں بچت کے پیسے رکھنے کی عادت نہیں ہے۔جب بینک میں پیسے ہی نہیں آئیں گے تو حکومت کہاں سے قرض لے گی؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے، سٹیٹ بینک کام آتا ہے ۔ وہ شرح سود بڑھاتا رہتا ہے تا کہ لوگ زیادہ منافع کے شوق میں خوب پیسے جمع کروائیں۔ ابھی کی بات ہے کہ شرح سود بڑھا بڑھاکر ۲۲فیصد تک پہنچا دی گئی تھی۔اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ جب حکومت کو اتنی زیادہ شرح سودپر قرض ملے گا تو اس کو کتنی بڑی رقم قومی خزانے سے ادا کرنی پڑے گی۔یہ ایک شیطانی چرخہ بن جاتا ہے۔ جو کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔
سب سے افسوسنا ک بات یہ ہے کہ اس کہانی کا سب کو پتہ ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔کوئی نہیں کہتا کہ حکومت قرضے لینے بند کرے۔ فوج کو تو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا بجٹ کہاں سے پورا ہوتا ہے؟ اور نہ ہی حکومتی اداروں کو جو اپنی تنخواہیں بڑھانے کے چکر میں رہتے ہیں اور حکومتیں بھی سول سروس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی تنخواہیں بڑھاتی رہتی ہیں۔اگر غور کریں تو اندھیر نگری، چوپٹ راج اسی کا نام ہے۔عوام بے چاروں کو کچھ نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ انہیں کیسے مقروض کیا جا رہا ہے ، اور ان پر اتنا قرض چڑھایا جا رہا ہے کہ ان کی پشتیں دیتے نہیں ختم کر سکیں گی۔یہ ایسے ، اتنی آسانی سے نہیں ہو رہا ہے۔ ہمارے قائدین نے بہت پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ عوام کو تعلیم نہیں دینی۔کم از کم ایسی تعلیم جس سے ان کو شعور آجائے، اور انہیں اپنے حقوق کا ادراک ہو جائے۔اس لیے جہاں تک ممکن تھا ان کے بچوں کو سکول میسر نہیں کیے گئے۔اگر انہیں سکول میں داخلہ مل بھی گیا تو معیار تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔اس لیے جو سکول گئے اور جو نہیں گئے، ایک برابر ہی رہے۔اس لیے عوام کی ملک گیری کی آگاہی بہت محدود رہی۔ ویسے بھی رزق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے عوام کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ وہ سیاستدانوں کے چلتروں کو سمجھ سکیں۔
یہ پاکستانی عوام دھوکے میں مارے جا رہے ہیں۔ اگر ان کو ایک مخلص اور ایماندار قائد مل بھی گیا اب کرپٹ طبقہ اس کی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔کیونکہ اس کرپٹ طبقے نے جو مال بنایا ہے اور بنا رہا ہے وہ اس ایماندار لیڈر کو بر سر اقتدار نہیں دیکھنا چاہتا۔یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کرپشن ہی جیتے گی یا اس کے بائیس کروڑ عوام؟ابھی تک تو کرپشن کا پلڑا ہی بھاری نظر آتا ہے۔
پاکستان میں جس واقعہ نے اتنا طوفان کھڑا کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے ہزاروں معصوم بے گناہ جیلوں میں بند ہیں، جن کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، وہ 9مئی کا واقعہ ہے جس دن تحریک کے کارکن اور چاہنے والے عمران خان کی گرفتاری پر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے تھے۔ کچھ لوگ ان احتجاجیوں کو ورغلا کر مال روڈ پر فوج کے کور کمانڈر کے گھر کی طرف لے گئے۔ اس واقعہ کی وڈیو دیکھیںتو صاف نظر آتا ہے کہ کوئی شخص جو بظاہر ساہ لباس میں فوجی نظر آ رہا تھا، وہ ہجوم کو کور کمانڈر کے گھر گھسنے کی ترغیب دے رہا تھا۔ اسی وڈیو میں آپ دیکھ سکتے تھے کہ تحریک کی قائد ڈاکٹر یاسمین راشد ایک گاڑی کے چھت پر بیٹھی ہجوم کو اندر جانے سے روک رہی تھیں۔کور کمانڈر صاحب کا گھر بالکل بے آسرا تھا۔ وہاں اس گھر کی حفاظت پر معمور گارڈ بھی غائب تھے اور نہ ہی پولیس کا کہیں نام نشان تھا۔کہتے ہیں کہ کور کمانڈر صاحب نے اپنی فیملی کو ہمسایوں کے گھر جانے کا اشارہ دیا اور خود کچھ احتجاجیوں کو چائے کی آفر کی۔لیکن یہ احتجاجی، بظاہر تحریک کے کارکن، تلے ہوئے تھے کہ اس گھر میں دنگا فساد کریں، فرنیچر اور آرائشوں کی توڑ پھوڑ کریں۔ اسی اثنا میں بلڈنگ کو آگ بھی لگا دی گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے اس کی تیاری پہلے سے ہی کی گئی تھی۔عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گھر در اصل قائد اعظم کا تھا، اس کی بے حرمتی کی گئی۔کہتے ہیں کہ اسی وقت کچھ دوسرے شہروں میں بھی احتجاج ہوئے اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔اس سارے ڈرامے کا مقصد واضح تھا کہ ان واقعات کی کل ذمہ واری تحریک اور اس کے قائدین پر ڈالی جائے اور اس طرح تحریک کا قلع قمع کر دیا جائے۔چونکہ زیر عتاب فوجی تنصیبات تھیں، فوج گرفتار شدگان پر اپنی عدالتوں میں مقدمے چلاتی اوران ملزمان کو یا موت کی اور یا لمبی قید کی سزائیں سنا دیتی۔ اس پکڑدھکڑ میں تحریک کے چیرمین عمران خان کو بھی شامل کر کے موت کی سزا سنا دی جاتی۔اور اس طرح ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تتر بتر ہو جاتی اور نون لیگی اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کا راستہ ہموار ہو جاتا۔اس طرح ملک میں مارشل لاء لگانے کی ضرورت نہ پڑتی اور فوج اپنے احسان مند سیاستدانوں کے ذریعے اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کر سکتی۔9مئی کے اس واقعہ کے بعدچاہیے تو یہ تھا کہ ایک انکوئری کمیشن بنتا اور پوری چھان بین کی جاتی اور الزامات صحیح افراد اور اداروں پر لگائے جاتے، اور قرار واقعی سزائیں دی جاتیں، لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا اور نہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ 9مئی کے واقعات سے لا تعداد ایسے سوالات اٹھتے ہیں کہ جو بلا شبہ کسی ایسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں تحریک بالکل شامل نہیں تھی۔کچھ لوگ غالباً لندن پلان کی طرف اشارہ کریں جہاں بیٹھ کر نون لیگ اور عسکری قیادت نے اس ڈارمے کا منصوبہ بنایا۔جو کچھ ہوا اس میں ان دونوں اداروں کی رضامندی اور شمولیت ظاہر ہوتی ہے۔کیونکہ شہباز شریف وزیر اعظم تھے ان کی احکامات پر آئی جی پولیس اور دوسرے صوبوں کی حکومتوں نے پورا تعاون کیا کیونکہ تحریک انصاف سب کے لیے خطرہ تھی اور ہے۔تمام وہ لوگ سازش میں شریک تھے جنہوں نے کرپشن میں بے تحاشا دولت اور اثاثے بنائے تھے۔اور عمران خان کی حکومت بننے سے ان سب کو نہ صرف اپنی نا جائز دولت اور اثاثوں کے جانے کا خوف،گرفتاریوں اور مقدمات میں سزائوں کو خوف تھا، اور حکومت کے خواب چکنا چور ہوتے نظر آتے تھے۔پولیس نے عسکری اداروں کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ ایسی حرکات کیں جو کھلم کھلا ان کے فرائض ِمنصبی سے متضاد تھیں۔سب یہی کہتے تھے کہ ہمیں اوپر سے حکم ملا ہے۔
9مئی کے غبارے کو اتنا پھیلایا گیا کہ جھوٹ سچ لگنا شروع ہو جائے۔ یہ نہایت افسوسناک بات تھی کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین راجہ سکندر سلطان اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، دونوں نے نواز شریف کے ساتھ حلف وفاداری اٹھایا ہوا تھا اور انہوں نے کھُل کر تحریک کے خلاف فیصلے دیئے۔ جن کے نتیجہ میں8 فروری 2024کے انتخابات میں تحریک ہار جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور تحریک کو لوگوں نے دل کھول کر ووٹ دیئے۔ان نتائج نے تو مخالفین کی سٹی گم کر دی۔انہوں نے نتایج کو جعلسازی کے ساتھ بدلا اور ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا۔ ان میں نواز شریف بھی شامل تھے اور ان کی صاحبزادی بھی۔ دونوں جعلسازی سے جتوائے گئے۔اور اتنے زیادہ اور لوگ کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور دوسرے جعلسازی سے جیتے ہوئے امیدواروں کے ساتھ حکومت بنا سکی۔اس سارے وقت عمران خان کو پابند سلاسل رکھا گیا، اور اندھیر نگری چوپٹ راج کا مظاہرہ کیا گیا۔عمران خان پر 200سے زائد ایف آئی آر کاٹی گئیں، اور انہیں اوران کی زوجہ کو عدالتوں میں ایک کے بعد ایک واہیات، بے معنی اور بے سروپا مقدموں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
ادھرپاکستان کی کرپٹ حکومت یہ نہیں سمجھتی کے پاکستان کی لُوٹ مار اور عمران خان کو حراست میں رکھنے سے، اس کی معیشت ڈوب رہی ہے۔بیرونی ترسیلات آنی کم ہو گئی ہیں۔ ملک میں باہر کے سرمایہ کار کاروبار ختم کرکے باہر جا رہے ہیں۔ نئی سرمایہ کاری کے امکانات کم سے کم تر ہو رہے ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہو گئے ہیں کہ جب پاکستان کو بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی واپسی کرنی ہو گی تو ان کے پاس اتنا زر مبادلہ نہیں ہو گا اور مزید قرضوں کی امید بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ہماری پیاری فوج اور پیارے حکمرانوں کو اپنی کھال بچانے کی اتنی فکر ہے کہ وہ جس کشتی میں بیٹھے ہیں اسی میں چھید کیے جا رہے ہیں۔شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ فوج اور وہ ایک و جان اوردو قالب ہیں۔ اب دیکھیں کہ یہ دو قالب پاکستان کے ساتھ اور کیا نہیں کرتے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں