0

جب رہبر ہی رہزن ہوں؟

سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھنے کو ملی جو غالباً کسی ایسے غیر ملکی شخص نے بنائی تھی جس کی پاکستان کی اقتصادی حالت پر گہری نظر تھی۔یہ تجزیہ حقیقت سے قریب ہے اور باوجود بیباک ہونے کے کھل کر پاکستانی اشرافیہ پر وہ الزام نہیں لگا سکا جسکے وہ حقدار ہیں۔خیر مندرجہ ذیل کو پڑھ کر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کن لوگوں نے ہمارے پیارے ملک کو اس حال میں پہنچایا۔تو اس تجزیہ کار کے لفظوں میں:
’’اگر کوئی ہوائی جہاز ایک درجن مرتبہ اڑنے کے بعد گر جائے تو اسکا ایک ہی مطلب ہو گا کہ اس کے ڈیزائین میں کوئی خرابی ہے۔پاکستان کی معیشت ،ایسے جہاز کی مانندہے جو گذشتہ 75 سالوں میں 23دفعہ کریش کر چکا ہے، ہر دفعہ اسے آئی ایم ایف سے امداد لینی پڑی۔ ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔1980کی دہائی میں ایسا نہیں تھا۔فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان انڈیا، چین اور بنگلہ دیش کی نسبت زیادہ مالدار ملک تھا۔لیکن آج پاکستان ان میں سب سے غریب ترین ملک ہے۔اس کی کل پیداوارکا حجم صرف ۲ دوفیصد ہے جو بمشکل اس کی آبادی کے بڑھنے کی رفتار کے برابر ہے۔پاکستان اس وقت انتہائی مشکل حالات میں ہے جس کی وجوحات میں دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ،زراعتی درآمادات اور اقتصادی بد انتظامی۔پاکستان میں سالانہ افراط زر کی شرح 36.5 فیصد ہے جو کہ ریکارڈ ہے۔اب آئی ایم ایف کے ایک اور امدادی پیکیج کے انتظار میںہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کا عادی بن چکا ہے اور آئی ایم ایف پاکستان کا۔پاکستانی معیشت، ایسا لگتا ہے کہ اس کو ٹھیک کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔اور ہر امدادی پیکیج کی نشانیاںتقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔پاکستان میں ڈالرز کی شدید ضرورت پڑتی ہے، جو آئی ایم ایف کچھ شرائط پر دیتا ہے جیسے کہ پاکستان سرکاری مدد سے چلنے والے اداروں کی نجکاری کرے،اخراجات میں کمی لائے اور اپنا ٹیکس اکٹھا کرنے کا دائرہ وسیع کرے۔لیکن ان تدابیر میں سے کوئی بھی پاکستانی معیشت کو ٹھیک کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی، اس لیے کہ پاکستانی اشرافیہ پیداوار نہیں بڑھاتے، اورملک میں فیصلہ سازی کا طریق کار شکستہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ایک امدادی پیکیج کے بعد پاکستان دوسرے کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔اس وڈیو میں ہم ان بنیادی عوامل کی نشاندہی کریں گے جو کہ پاکستان کو آہستہ آہستہ تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں۔
سب سے پہلے ہم دیکھیں کہ کیوں پاکستان اتنی دفعہ آئی ایم ایف کا محتاج بنتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ ڈالروں کا محتاج ہوتا ہے۔وفاقی حکومت بنیادی طور پر دیوالیہ ہے اور ایک لمبے عرصہ سے۔گذشتہ برس،وفاقی حکومت پر جو قرضوں پر سودکی واپسی اورپینشنزکی ادائیگی، کی مجموعی مالیت کل حاصل کردہ مالیہ سے زیادہ تھی۔سرکاری ڈھانچہ جو ضرورت سے زیادہ پھیلا ہوا ہے اس کے خراجات پورے کرنے کے لیے حکومت کو قرضہ لینا پڑتا ہے۔اور یہ قرضہ زر مبادلہ میں لیا جاتا ہے نہ کہ پاکستانی روپوں میں جن کا لین دین آسان ہوتا ہے۔پاکستان پر ۲۵ بلین ڈالر کا قرضہ ہے جو اس کے کل زر مبادلہ کے ذخائر سے تین گنا زیادہ ہے، جو اس پر جولائی سے واجب الادا ہو گا۔پاکستان کی تاریخ میں جو مالیہ اکٹھا ہوتا ہے وہ زیادہ تر قرضوں پر سود کی واپسی ، دفاع اور سول سروس پر خرچ ہوتا ہے۔ان کے علاوہ پاکستان کو خوراک اور تیل کی درآمدات پر خرچ کرنا پڑتا ہے وہ علیحدہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم نہیں ہوتی ہے۔ان میں آبی برقی منصوبے،نہریں اور بجلی بنانے کے پلانٹس، حتیٰ کہ تعلیم اور صحت عامہ پر بھی خرچنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔اس کی صرف ایک فیصد آبادی ٹیکس دیتی ہے۔یہ تفاوت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب آپ دیکھیں کہ زراعت کی آمدنی، جائداد، اور پرچون فروش ،شاید ہی کوئی ٹیکس دیتے ہیں۔ اتنے برسوں میں پاکستان اتنا مالیہ اکٹھا نہیں کر سکا جو اس کی ضرورتوں کے مطابق ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ملک کو بار بار ۔ ہر سال ،اور زیادہ قرضہ اور زیادہ شرح سود پر لینا پڑتا ہے۔اس کے نتیجہ میں ہر چار سال میں پاکستان میں زر مبادلہ کی شدید کمی ہو جاتی ہے اور وہ آئی ایم ایف کی طرف امداد کے لیے بھاگتا ہے۔اور وہ پاکستان کو وہی نصحیت کرتا ہے جو تمام غریب ملکوں کو دی جاتی ہے۔کہ اپنا مالیہ بڑھائو،ا خراجات کو قابو میں کرو، اور جتنی چادر ہے اتنے پیر پھیلائو۔ان پر عمل کرنے سے گو پاکستان کو فائدہ تو پہنچتا ہے لیکن مسئلہ کی جڑ کو ختم نہیںکرتا۔اس لیے کہ پاکستان دنیا کا سب کم پیداوار کرنے والا ملک ہے۔
ہر ملک میں اعلی سطح پر اشرافیہ ہوتی ہے ، جتنی وہ پیداوار کو بڑھانے والی ہوتی ہے ملک اتنا ہی ترقی کرتا ہے۔ جیسے بھارت میں امبانی اور گوتم اڈوانی نے وسیع اور عریض صنعتی سلطنتیں بنائی ہیں۔دوسری جگہ یہ اشرافیہ نئی جرتیں کرتے اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔لیکن پاکستانی اشرافیہ ایسی چیزوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں جن سے پیداوار میں اضافہ نہیں ہوتا، مثلاً زمینیوں اور جائیدادوں اور شکر کے کارخانوںپر۔جیسے نواز شریف جس نے جائیدادوں اور کرپشن سے پیسہ بنایا۔پاکستان کے صنعت کار بھی صرف ملکی کاروبار سے پیسہ بناتے ہیں بجائے یہ کہ برآمدات کر کے زر مبادلہ لائیں۔یہ اشرافیہ حکومت میں جا کر اپنے فائدے کے قوانین بنواتے ہیں۔جیسے ٹیکس سے چھوٹ، سرمایہ کے حصول میں امتیازی سلوک،وغیرہ۔ یو این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی اشرافیہ ملک کا 17.4ارب ڈالرخرچ کرتا ہے جو کہ کل معیشت کا چھ فیصد حصہ ہے۔یہ وہ رقم ہے جو جاگیرداروں، سیاستدانوں اور عسکری قائدین پر خرچ ہوتا ہے۔اس کا طریق کار ٹیکس سے چھوٹ، مرضی کی قیمتیں اور امتیازی سہولتیںہیں۔یہ سارے امتیازی فوائد اس لیے کم نہیں ہو سکتے کہ فیصلہ کرنے والے سیاستدان بھی وہی ہیں جو یہ فائدے اٹھا رہے ہیں۔ان اشرافیہ کی کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری سے سب سے کم منافع ملتا ہے۔جس سے پاکستان کی معیشت سالوں سے تنزل پذیر ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ کوئی سرمایہ کار ایسے حالات میں کیوں نئی مشینیں لگائے گا جب آپ پاکستانی مارکیٹ میں، جہاں مخالفین کو حکومتی زور سے دبایا جاسکتا ہے، آسانی سے روپیہ کما سکتے ہیں ؟اب کاروں کی صنعت کو ہی دیکھ لیں، یہ سخت تحفظات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔لیکن باوجود یکہ ملک میں زر مبادلہ کی کتنی کمی ہے پھر بھی صرف چھ مہینے میں،1.2 ارب ڈالر کی کاریں درآمد کی گئیں۔دنیا میں کاروں کی برآمد میں پاکستان کا 125واں نمبر ہے ، مثلاً ایک سال میں کل ایک ملین ڈالر کی مالیت کی کاریں برآمد کی گئیں۔ملک میں کاروں کے لیے مکمل اجارہ داری ہے۔پاکستان میں اگر کاروں کی درآمد کم بھی ہو، تو کاریں بنانے کی مشینوں اور پرزوں کی درآمد تو زور شور سے ہوتی ہے۔اس کا فائدہ صارفین کو تو نہیں ہوتا۔اور نہ ہی ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں چونکہ یہ کاریں برآمد نہیں ہوتیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری شہری زمین خریدنے پر کی جاتی ہے جس سے اقتصادی صلاحیت نہیں بڑھتی۔ اس پر طرہ یہ کہ ایسی ہاوسنگ سوسائیٹیز بنتی ہیں جن پر، سیاست کی وجہ سے بمشکل کوئی ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔اس لیے اشرافیہ ہاوسسنگ سوسائیٹیز بناتے ہیں، کہ ٹیکس نہ دینا پڑے۔ بجائے اس کے زیادہ فائدہ مند منصوبوں پر پیسہ لگائیں، جن سے درمیانی طبقہ کے لیے روزگار اور مواقع بنیں۔لیکن یہ سیاستدانوں کی ترجیح نہیں ہے۔اندازہ لگائیں کہ پنجاب کی شہری جائیدادوں پر کل ٹیکس اتنا بھی اکٹھا نہیں ہوتا جتنا بھارت کے شہر چنائے میں۔شہری جائیداد خریدنے کا بھوت صرف اشرافیہ تک محدود نہیں ہے۔ مڈل کلاس کو بھی یہی شوق ہے۔ جو صرف وقت کا انتظار کرتے ہیں کہ جب قیمتیں چڑھ جائیں۔سرمائے پر اضافے کی صورت میں ٹیکس نہیں لگتا یہ بھی ایک وجہ ہے۔ان طبقوں کا معیشت میں پیداواری صلاحیت کو کم رکھنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔اشرافیہ اور ان کے کنبے، سامان تعیش درآمد کرتے ہیں۔جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے اوردرآمدات کا حجم بڑھتا ہے۔ صرف اس سال آٹھ ارب ڈالرغیر ضروری سامان تعیش کی درآمد پر خرچ کیے گئے۔ دنیا کے دولتمند لوگ نئی الیکٹرک کاریں بنا رہے ہیں اورچاند پر کمند ڈال رہے ہیں،حیرت انگیز ایجادات پر سرمایہ لگا رہے ہیں اور پاکستان کے سرمایہ دار ہاوسنگ سوسائیٹیز بنانے پر لگا رہے ہیں۔جن سے کوئی پیداوار نہیںبڑھتی۔یہ وہ کام ہے جو پاکستان کو آہستہ آہستہ زہر ہلاہل سے مار رہا ہے۔
ان سب مسائل کی وجہ وہ سیاسی نظام ہے جو مکمل طور پر ٹوٹ چکا ہے۔سیاسی پارٹیاں غیر پیشہ ور ہیں۔ نہ ان کے پاس لمبے عرصہ کے منصوبے ہیں اور نہ ہی منشور اور نہ ہی مڈل کلاس کی شمولیت۔ان کی قومی اسمبلی جاگیر داروں، سیاسی خاندانوںاور کاروباری امراء سے مزین ہے۔وہ بجائے معیشت کو سدھارنے کے آسان حل ڈھونڈتے ہیں جیسے گوادر کی بندر گاہ، سی پیک اور تیل کی تلاش وغیرہ۔پاکستانی فوج کی ملک کی حکومت میں شرکت کی لمبی تاریخ ہے، خواہ آمرانہ قبضہ اور خواہ در پردہ حالات کو اپنی مرضی سے چلانا۔فوج بھی کرپٹ سیاستدانوں کی ایک جماعت کو دوسری ویسی ہی جماعت سے بدل دیتی ہے، اور اپنی طاقت کے بحال رکھتی ہے۔پاکستان کا ایک مختصر تاریخی جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔۔۔‘‘
صاحبو!اس وڈیو سے ایک اور وڈیو کا ملتا جلتامواد بھی ملاحظہ ہو جس میں پاکستان میں بجلی کے سکینڈل کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ صاحب فرماتے ہیں: پاکستان میں 71فیصد بجلی کے بل اس بجلی کے لیے دئیے جاتے ہیں جو کبھی پیدا ہی نہیں کی گئی۔اس طرح ہر سال 600ارب روپے لیے جاتے ہیں جو شریف برادران اور انکے ساتھی امراء کی جیبوں میں جاتے ہیں۔اگر پاکستانیوں کو خیریت چاہیے تو کبھی بھی ان بھائیوں کو کوئی منصوبہ منظور کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔یہ پاکستان کے لیے نا اہل ہیں اورصرف اپنے آپ اور بجلی کی کمپنیوں میں دولت بانٹتے ہیں۔ اس بجلی کے منصوبے سے شریف برادران، عسکری افسران اور کچھ دوسری اشرافیہ نے اربوں ڈالر عام پاکستانیوں سے لیکر اپنی تجوریاں بھریں۔اس لیے کے انہوں نے بجلی بنانے والی کمپنیوں سے ایسے ناقص معاہدے کیے جن میں وہ بجلی بنائیں یانہ بنائیں، ان کے پلانٹس کی کپیسیٹی کے حساب سے انھیں اُجرت دی جائے گی ،بجائے اس کے کہ صرف اس بجلی کی ادائیگی ہو جو بیچی گئی ہو۔جب لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو وہ اس لیے کہ ان پرائیویٹ پرڈیوسرز نے بجلی بنائی ہی نہیں۔لیکن اس کے بل پاکستانیوں کو بھرنے پڑتے ہیں۔یہ ہے وہ فراڈ جو اشرافیہ اور فوجی افسران ملکر پاکستانیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ظلم یہ ہے کہ اس دھوکہ دہی کے خلاف کچھ کیا بھی نہیں جا رہا۔اب قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ نئی مخلوط حکومت انہیں لوگوں نے بنائی ہے جو چھ سو ارب روپے کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اس حکومت کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
پاکستان پر اداروںکا قبضہ کسی حال میں سیاستدانوں کو نہیں دیاجانا چاہیے، یہی ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔یہ ادارے اورسیاستدان مل جل کرجو چاہتے ہیں، سیاہ یا سفید ، کرتے ہیں۔ ہیں۔حتیٰ کہ فوج کو بھی یہ طاقت دے دی گئی ہے کہ وہ اداروں کے بڑے افسروں سے جو کام چاہیں کروا لیں۔ اگر ادارے مضبوط ہوتے تو اس قسم کی لوٹ مار نہیں کی جا سکتی تھی۔اور تو اور، ملک کے منصف اعلیٰ بھی سیاسی طرفداری میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اللہ بس ، باقی ہوس۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں