تحریک انصاف کے دفتر پر تالہ لگادیا گیا رئوف حسن سمیت 34 آدمیوں اور عورتوںکو گرفتارکر لیا گیا۔ بہانہ کیا تراشہ گیا کہ اس بلڈنگ میں فائر الارم سسٹم موجود نہیں تھا۔ اس الزام تراشی پر ہنسی آتی ہے خود اسلام آباد میں کتنی سرکاری عمارتیں موجود ہیں جن میں آلارم سسٹم نہیں ہے۔ اگر آپ وزیراعظم ہائوس اور پریزیڈنٹ ہائوس میں بھی تلاش کریں گے تو وہاں پر بھی فائر الارم سسٹم نہیں ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ایک روز پہلے میڈیا کانفرنس کے بعد یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور ریویوپٹیشن ایک کے مقابلے میں دو سینئر ججوں کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد یہ امید ہو گئی تھی کہ اب فوج کی طرف سے تحریک انصاف پر کوئی بڑا اور طاقت ور وار ہو گا وہ ایک روز کے بعد ہی ہو گیا۔ فائز عیسیٰ کی اب مٹی پلیڈ ہونے لگی ہے اس کے ساتھی جج اب اس کے سامنے کھڑے ہونے لگے ہیں جسٹس منصور سمیت دو سینئر ججوں نے تفصیلی فیصلہ آنے تک ریویو پٹیشن سننے سے انکار کر دیا ہے اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں گرمیوں کی چھٹیاں بھی ہو گئی ہیں اور اکثر ججز اپنے اپنے صوبوں اور شہروں میں چھٹیاں منانے چلے گئے ہیں اور 13 ججوں کو اکٹھا کرنا ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے لیکن حکومتی اور فوج کا ساتھ دینے والے چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کو اب اپنا ریٹائرمنٹ صاف نظر آرہا ہے وہ اور حکومت فوج سمیت یہ امید کررہے تھے کہ آئینی ترمیم کر کے قاضی عیسیٰ کو تین سال کی ایکسٹینشن دے دیں گے اس طرح فوج اورحکومت کے تین سال قاضی عیسیٰ کے بددیانت فیصلوں کے ساتھ گزر جائیں گے لیکن آٹھ جج ان کی راہ میں دیوار بن گئے ان ججوں میں 5 مستقبل کے چیف جسٹس ہیں ان کی پروموشن رک جائے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بہت خوفناک اور شرمناک سوالات ہیں جو فوج پر اٹھائے گئے ہیں اب ججوں نے بھی ایک لائن ڈرا کر لی ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی سے ڈرنا نہیں ہے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے عوام کی خاطر اب کھڑا ہونا ہے فوج اب مارشل لاء لگا نہیں سکتی ورنہ وہ اقتدار اپنے ہاتھ میں اب تک لے چکی ہوتی ۔جسٹس افتخار چودھری نے آرٹیکل 6 کو موثر بنا کر فوج کا راستہ بند کر دیا ہے۔ دوسرے نواز شریف نے پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلا کر فوج کے سربراہوں کو آخری وارننگ دے دی ہے کہ قوم اور عدلیہ اب مارشل لاء یا فوجی حکومت قبول نہیں کرے گی۔ عدلیہ عمران خان کو مقدموں میں رہا کرتی جارہی ہے۔ اب فوج کے پاس عمران خان کے خلاف کوئی تگڑا مقدمہ رہا نہیں جس میں ان کو گرفتار رکھا جا سکے تو 9 مئی کے حوالہ سے اب نئے مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں ڈیجیٹل دہشت گردی کا شوشہ چھوڑا گیا۔ تحریک انصاف کے دفتر کو سیل کیا گیا۔ جھوٹا بہانہ بنا کر رئوف حسن کو گرفتار کر لیا پہلے اس کو فوج نے ہجڑوں کے کپڑے پہن کر پیٹا اس کو زخمی کیا اب پولیس نے اپنے پالتو عدالت سے دو دن کا ریمانڈ لیا۔ اب اس کو مارپیٹ کر اس کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمر فاروق نے پولیس کو بلا کر ان کی سخت سرزنش کی۔ کیسے بغیر وارنٹ کے اتنے لوگوں کو دس گھنٹے تک گرفتار کئے رکھا بغیر وارنٹ کے کیوں ان کی گرفتاری ڈالی گئی اگر گرفتار نہیں کرنا تھا توان کو اٹھایا کیوں گیا؟ پولیس کے پاس اس کا جواب نہیں تھا فوج کے ٹائوٹ صحافی عمران خان کے خلاف بیانہ بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ عوام کو عمران خان پر نئے مقدمے کے لئے تیار کررہے ہیں جس میں جاوید چودھری، کامران شاہد، شاہ زیب خانزادہ جیسے لوگ شامل ہیں ان کا کام ہی فوج کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھانا ہے لیکن عوام دور کھڑے ہوئے سب دیکھ رہے ہیں جو مہنگائی کا حال ہے اس نے عوام کو بے حال کر دیا ہے۔ غریب آدمی روٹی کو ترستا رہتا ہے بجلی کا بل دینا اس کے لئے عذاب بنتا جارہا ہے لیکن دفاعی ادارے عمران خان کو سزا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ بنوں میں جو واقعہ ہوا اس نے عوام کو فوج کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ان واقعات کا انجام کیا ہو گا، اس ملک کے ساتھ کیا ہو گا ان فوجی حکمرانوں کا کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا۔
0