0

رسمِ جفا کامیاب ، دیکھئے، کب تک رہے!

بھئی حسرت موہانی تو بڑے ہی بے خوف اور صاف دل شاعر تھے، کثرت سے سچ بولتے اور مسلسل اس کی قیمت بھی ادا کرتے رہتے تھے۔جس حکومت کے وہ ناقد تھے ، رائل برٹش آرمی اس حکومت کے اشارۂ ابرو کی محتاج رہتی تھی۔ اس دور میں رائل برٹش آرمی پر تنقید کرنے والے کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا۔1930 ء میں اپنے خطبۂ الہ آباد میں علامہ اقبال نے انگریزوں کی دفاعی حکمت عملی اور رائل برٹش آرمی ،جس میں مسلمانوں کا بہت بڑا اور فیصلہ کن حصہ شامل تھا، میں؛ مسلمان کمیشنڈ افسروں کی عدم موجودگی پر سوالات اٹھائے تھے۔ آج کے تناظر میں حیرت ہوتی ہے کہ اقبال نہرو خاندان کے گڑھ الہ آباد میں یہ خطبہ ارشاد فرما کر خیر و عافیت کے ساتھ لاہور واپس پہنچ گئے تھے ،اور انہیں رائل برٹش آرمی کے کسی ادارے نے اٹھا کر غائب کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی ،یہاں تک کے لاہور پولیس نے رات دو بجے اقبال کے گھر کا گیٹ جیپ کی ٹکر مار کر توڑنا بھی ضروری خیال نہیں کیا تھا۔متحدہ ہندوستان کی ایک حد درجہ آزاد و خودمختار روح مولانا حسرت موہانی کا قصہ البتہ دوسرا ہے ۔ وہ شاعر کے ساتھ ساتھ صحافی بھی تھے ۔اس لیے قید و بند اور پرنٹنگ پریس کی ضبطگیوں کا شکار رہے ، دلیر کیمونسٹ تھے ، اس لیے برصغیر کے بیشتر ملاوں کی طرح ؛نہ کبھی گبھرائے ، نہ کسی مالی جھانسے میں آئے ۔ان کی شاعری میں صحافیانہ کمال ، عاشقانہ جمال ، سماجی ملال اور سیاسی جلال ہمیشہ نمایاں رہتا۔ ایک غلام سماج میں حبِ وطن کے معنی عمومی معنی سے بالکل مختلف اور سوا ہو جاتے ہیں؛رسمِ جفا کامیاب ، دیکھئے، کب تک رہےحُبِ وطن، مستِ خواب، دیکھئے، کب تک رہےاس لہجے میں پوشیدہ امید اور “کب تک رہے” کی تحدید زمانی سوال کے ساتھ ہی ایک اعتماد بھی پیدا کر دیتی ہے ۔یہ استفسارات صرف حسرت موہانی ہی کر سکتے تھے کہ؛تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب ضبط کی، لوگوں میں تاب، دیکھئیے، کب تک رہےپردہء اصلاح میں کوششِ تخریب کاخلقِ خدا پر عذاب، دیکھئے، کب تک رہےنام سے قانون کے، ہوتے ہیں کیا کیا ستم جبر، بہ زیرِ انقلاب، دیکھئے، کب تک رہےاکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی حسرت کے اشعار کی معنویت متوجہ کرتی ہے اور ” حب وطن” کے جذبے پر ایک خاص ادارے کی تحویل کا رجحان یا دعویٰ بھی حیرت کا باعث بنتا ہے ۔ستم ظریف کا یہ خیال کہ ہمارے ہاں اب صرف ایک نامدار طبقے کی حب الوطنی ہی مستند شمار کی جاتی ہے ، پوری طرح سے درست نہ بھی ہو ،لیکن پھر بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ہمارے بعض ،بلکہ بیشتر سابق اہلکار یا منصب دار دوست خود کو ہمارے جیسے عام اور کوئی حربی پس منظر نہ رکھنے والوں کو اپنی سطح کا محب وطن نہیں مانتے ۔لیکن اگر ان کے سامنے پاکستان کے بعض حد درجہ محب وطن ڈکٹیٹرز کے چنیدہ کارناموں پر کوئی سوال رکھا جائے تو ان کا طرز عمل مکمل طور پر ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے اس طرز عمل سے ملنے جلنے لگتا ہے ،جس کا ذکر امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے صدر ایوب خان کے روبرو 1961ء میں کیا تھا۔ہمارے سابق اہلکار اور منصب دار دوست دنیا بھر کے موضوعات پر بڑی بے تکلف اور مرصع گفتگو کر لیتے ہیں، بعید از قیاس نکتے نکالتے اور لطائف اچھالتے ہیں۔وہ اپنی عظمت کے قائل اور اپنی حب وطن کے بزعم خود اسیر ہوتے ہیں۔وہ ،اور یہ بات ہے بھی سچ کسی دوسرے کو اپنے جیسا نہیں سمجھتے۔ہاں مگر جونہی بات کرتے کرتے ماضی کے کسی بڑے منصب دار کی کسی کوتاہی کی طرف اشارہ کر کے ان کی رائے طلب کی جائے تو وہ واقعتاً پنڈت جواہر لعل نہرو بن جاتے ہیں۔1961ء میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران موقع پا کر صدر ایوب خان نے امریکی صدر کینڈی سے کہا تھا کہ اگر آپ اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے نہرو کو مسلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ کر لیں تو دونوں ملکوں کے لیے بڑی سہولت پیدا ہو سکتی ہے۔اس کے جواب میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی زور سے ہنسے اور بولے ۔ “مسٹر پریزیڈنٹ، پنڈت جواہر لال نہرو دنیا کے ہر موضوع پر نہایت عالمانہ گفتگو کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن جونہی کشمیر کا ذکر آئے وہ فوراً سر جھکا کر اپنی نگاہیں شیروانی کے کاج میں ٹنگے ہوئے پھول پر گاڑ کر چپ سادھ لیتے ہیں، اور یوگیوں کی طرح آسن جما کر کسی گہرے مراقبے میں ڈوب جاتے ہیں ۔ “(شہاب نامہ، ص916-917) بالکل اسی طریقے اور طرز پر ہمارے سابق اہلکار اور سرکاری منصب دار دوست ایسے سوالوں کے جواب میں آسن جما کر مراقبے میں ڈوب جاتے ہیں،جن کے جوابات ان کے پاس نہیں ہوتے ، یا جن کے جوابات کو تسلیم کرنے کی ان میں ہمت یا جرات نہیں ہوتی۔ایسا ہی ایک سوال پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے اس طرزعمل پر بھی اٹھایا جاتا ہے جو انہوں نے 1962ء میں چین اور ہندوستان کی جنگ کے دوران اختیار کیا تھا اور جس سے نہ صرف کشمیر حاصل کرنے کا ایک نادر موقع گنوا دیا تھا ،بلکہ میری رائے میں پاکستان تین سال بعد ہندوستان کے ساتھ ہونے والی 1965ء کی جنگ بھی پیشگی طور پر 1962ء ہی میں ہار چکا تھا۔ہند چینی جنگ نے جہاں پنڈٹ نہرو کی شخصیت کا کرشماتی ہالہ توڑ ڈالا ،وہیں ان کی غیر وابستگی کی حکمت عملی کا امریکی امداد کے عوض بلیدان بھی کردیا تھا۔ 1962ء میں چین کے ہندوستان پر حملے کے حوالے سے پاکستان کے ایک فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی حکمت عملی ، شہ رگ قرار دیئے گئے کشمیر کی آزادی کے بارے میں عدم سنجیدگی اور امریکہ اور ہمسایہ ملک ایران کے طرز عمل پر غور کرنے کے لیےکلدیپ نائرکی خود نوشت ایک زندگی کافی نہیں کا یہ اقتباس مدد کر سکتا ہے ۔کلدیپ نائر 1962ء میں چین بھارت جنگ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔چین کی طرف سے حملہ 20 اکتوبر کو صبح پانچ بجے مشرقی سیکٹر میں ہوا،جہاں سورج جلدی طلوع ہوتا ہے،اور صبح 7 بجے لداخ کے علاقے میں جہاں دن کی روشنی آنے میں دیر کرتی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو شاہ ایران نے نہرو کو اپنے اس خط کی نقل بھجوائی جو اس نے پاکستان کے صدر محمد ایوب خان کو لکھا تھا اور جس میں اس سے کہا تھا کہ وہ اپنے سپاہی بھجوائے تاکہ وہ ہندوستانی فوج کے شانہ بشانہ سرخ عفریت سے لڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایوب نے ان بیرونی قوتوں کو جو چاہتی تھیں کہ وہ ہندوستان کی مدد کرے ، کہا کہ پاکستان اس وقت ہندوستان کی کمزوری کا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اُٹھا رہا اور یہ بھی ایک قسم کا تعاون ہی ہے اور اسے کافی ہونا چاہیے۔” (کلدیپ نائر ، ایک زندگی کافی نہیں،ص177) اب اسی اکتوبر 1962ء کے اوائل میں چین نے اپنے طریقے اور محتاط سفارتی سلیقے سے صدر ایوب خان تک بھارت پر چین کے حملے اور پاکستان کو اس حملے میں مضمر مواقع سے آگاہ کرنے کے لیے حملے کی رات کے اڑھائی بجے ان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کو نیند سے جگا کر صدر کے لیے یہ پیغام دیاکہ؛” بھارت نے چینی سرحدوں پر پے درپے حملے کر کے چین کو جوابی کارروائی پر مجبور کر دیا ہے اور چینی فوج چند مقامات پر بھارت میں داخل ہو کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اور وہ اس وقت مجھے یہی اطلاع دینے آیا ہے۔میں نے پوچھا “کیا آپ نے یہ بات ہماری وزارت خارجہ تک بھی پہنچا دی ہے؟ چینی مسکرایا اور بولا ہمارا خیال ہے کہ شاید صدر ایوب کو اس خبر میں خاصی دلچسپی اور اہمیت محسوس ہو۔ ہمارے اندازے کے مطابق آپ یہ خبر ان تک فوری طور پر پہنچانے میں زیادہ کام آسکتے ہیں ۔ اسی لیے ہم نے آپ کو ایسے بے وقت جگا کر یہ تکلیف دی ہے ۔ یہ میرا ذاتی فعل ہے ،سفارت خانے کی جانب سے نہیں۔ ( شہاب نامہ، ص 917-918) قدرت اللہ شہاب اپنے شہاب نامے میں اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سفارت کاری کے فن میں چینیوں کا اپنا ہی ایک خاص اور نرالا انداز ہے۔ وہ اپنے دوستوں پر بھی اپنی رائے یا مشورہ یا نصحیت خواہ مخواہ یا برملا ٹھونسنے کے عادی نہیں ہیں ۔ لیکن اشاروں کنایوں میں اپنا عندیہ نہایت خوش اسلوبی سے واشگاف طور پر ظاہر کردینے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں میرا اندازہ ہے کہ رات کے ڈھائی بجے مجھے جگا کر غالبا اپنے مخصوص انداز میں یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ جنگ کے یہی چند ابتدائی گھنٹے انتہائی اہم ہیں ، ہندوستانی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں اور چینیوں کے خوف سے سر پر پاؤں رکھ کر ہر محاذ سے بھاگ رہی ہے۔ اگر پاکستان اس موقع سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، تو ہر گز وقت ضائع نہ کریں ۔ میں نے فوراً لباس تبدیل کیا اور اپنی کار نکال کر تیز رفتاری سے ایوانِ صدر جا پہنچا۔ اس وقت کوئی تین بجے کا عمل تھا ۔ کسی قدر تگ و دو کے بعد مجھے صدر ایوب کی خواب گاہ تک رسائی حاصل ہو گئی ۔ میں نے انہیں چینی کے ساتھ اپنی گفتگو تفصیلاً سنائی، تو انہوں نے بے ساختہ کہا یہ کوئی غیر متوقع خبر ہرگز نہیں، لیکن اتنی رات گئے تمہیں صرف یہ خبر سنانے کے لیے آنے سے اس کا اصل مقصد کیا تھا “میں نے اپنا قیاس بیان کیا کہ شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ ہم ان لمحات کو اپنے حق میں کسی فائدہ مندی کے لیے استعمال میں لے آئیں ۔ مثلاً ؟ صدر ایوب نے پوچھا ۔ مثلاً میں نے اناڑیوں کی طرح تجویز پیش کی ۔ اسی لمحے اگر ہماری افواج کی نقل و حرکت بھی مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں کے خاص خاص مقامات کی جانب شروع ہو جائے ، تو ………..صدر ایوب نے تیز و تند لہجے میں میری بات کاٹ کر کہا۔ ” تم سویلین لوگ فوجی نقل و حرکت کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہو۔ جاؤ اب تم بھی جا کہ آرام کرو مجھے بھی نیند آ رہی ہے۔آج تک میرا یہی خیال ہے کہ اس رات صدر ایوب نے اپنی زندگی اور صدارت کا ایک اہم ترین سنہری موقع ہاتھ سے گنوا دیا ۔ اگر ان کی قائدانہ صلاحتیوں پر نیند کا غبار نہ چھایا ہوتا اور ان کے کردار میں شیوہ دیوانگی اور شیوۂ مردانگی کا کچھ امتزاج بھی موجزن ہوتا ، تو غالباً اس روز ہماری تاریخ کا دھارا ایک نیا رخ اختیار کر سکتا تھا۔( شہاب نامہ، ص 918-919)ایوب خان نے جہاں پاکستان کو پہلے مارشل لاء کی اذیت سے دوچار کیا ،وہیں اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کا خطاب بھی دے ڈالا تھا۔انہیں پاکستان کو مستقل اور پختہ بنیادوں پر امریکہ کا خچر بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔اپنے اسی جرم کی خفت مٹانے کے لیے انہوں نے اپنی سوانح کا عنوان فریندز ناٹ ماسٹر رکھوایا تھا ۔مطلب یہ کہ امریکہ بھائی جان ہمارے آقا ( جو کہ تھے اور ہیں) نہیں ،بلکہ ہم دونوں پکے دوست یار ہیں۔65ء کی پاک بھارت جنگ میں بطور کمانڈر ان چیف ایوب خان کی ہندوستانی وزیراعظم شاستری کے سامنے اعصاب شکنی باور کراتی ہے کہ جنگ جیسے انتہائی اہم معاملات کا آغاز و انجام اہلکاروں اور ان کے منصب داروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس کے لیے سیاسی دانش اور حکمت درکار ہوتی ہے۔یہ صلاحیت اور اہلیت حکم پر بلا چون و چرا عمل کرنے کی پیہم تربیت اور مشق کرنے والوں کے بس سے باہر کی بات ہے ۔ حبِ وطن ایک فطری جذبہ ہے۔اسے کاروباری اشتہار بنانا اس جذبے کی توہین ہے۔اس جذبے کی جانچ پڑتال کا حق کسی کو بھی نہیں دیا جا سکتا ۔اس کا اظہار عمل اور ردعمل سے نظر آتا رہتا ہے۔ہاں مگر یہ بات بالکل درست ہے کہ ؛ اسے مست خواب بالکل نہیں رہنا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں