آج صحافی دوست عبدالقدوس سے اپنے آفس آتے ہوئے ملاقات ہوئی تو انھوں موجودہ موسم کو عذاب ِ نار کہتے ہوئے مستنصر حسین تاڑر کی کہی بات دہرائی کہ کیا پتہ قیامت آ کے چلی بھی گئی ہو اور ابھی ہم دوزخ کے عذاب سے گزر رہے ہوں اس ذو معنی بات کی حساس نشیبی کیفیات کا تذکرہ اپنی جگہ لیکن جن حالات سے ہم دوچار ہیں وہ تاڑر صاحب کے خیال ِ زریں دو شار قدم آگے ہی ہے۔ آئی ایم ایف کو اتنے من پسند ٹیکس لگانے کے بعد بھی یہ بے چینی کھائے جا رہی ہے کہ بجلی گیس پٹرول کی قیمتیں کم کیوں ہیں یعنی حکومت نے بڑھائی کیوں نہیں ؟حالانکہ متذکرہ چیزوں کے علاوہ بھی ہر چیز سفید پوش طبقے کی حد ِ آمدن سے کوسوں دور جا چکی ہے یاد رہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوں کا تعین صرف حکومت نہیں کرتی بلکہ متوازی اختیارات کی حامل اشرافیہ کرتی ہے جنھوں نے اپنے مخصوص ٹولے کو انتخابات میں مسند نشین کرنا ہوتا ہے تا کہ حصول ِ آمدن کے اہداف عام آدمی کی بجائے مخصوص اشرافیہ کو منتقل ہوتے رہیں با خبر اس روایت سے ہر کوئی ہے قانون و انصاف سمیت سب کی آنکھوں پہ پٹی ہے اور سیاسی دعوے تو دیکھو عوامی نمائندہ ہونے کے جمہوری نظام کے لئے ہر قربانی دینے کے کیا ہم اور ہماری عوام اتنی بے شعور ہے کہ اُسے اپنے سیاسی بھائیوں کی خود نمائی، اچھا خاصا وقت گزارنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آرہی،دکھائی نہیں دے رہی ؟ ایسی صورت کو مقام حیرت سے تشبیہ دینا دلی تسکین کا سبب نہیں بنتا البتہ اسے مقام ماتم کہنے سے نہیں ماتم کرنے سے دل کو ذرا راحت ملتی ضرور ہے ملک ایک طرف بدترین بجٹ کی ممکنہ تباہ کاریوں سے پریشاں حال ہے تو دوسری جانب عوامی نمائندے ،سیاسی پہلوان مخصوص نشستوں کے نبرد آزما ہیںانھیں اس حدت والے موسم کی نہ شدت سے آگاہی ہے اور نہ ہی اس بات کا احساس ہے کہ ہم لوگ بجلی گیس کی قیمتیں بڑھنے سے ان کی ادائیگی کیسے کریں گے ؟لیکن ہمارے ان رہنمائوں کو یہ غم ضرور ہے کہ اگر بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو آئی ایم ایف ناراض ہو جائے گا بندہ ہر رات بہت سارے غموں کا بوجھ لیکر سوتا ہے لیکن نئی صبح پھر ایک اور مشکل لئے سامنے کھڑی ہوتی ہے جیسے صبح یہ خبر ملی کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 5روپے 72پیسے کا اضافہ کر کے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت 35روپے 50پیسے مقرر کر دی ہے یہ بات میری سمجھ سے بالا اور عقل کے احاطے سے باہر ہے کہ جو لوگ بیرونی ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنے حماتیوں پہ ظلم و جبر کی مہنگائی نافذ کریں وہ کیسے ہمارے رہنما ہو سکتے ہیں جو اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں 300فی صد اضافہ کریں اور عام ملازمین کو 10 فی صد پر ٹرخا دیںایسی فکر اور ایسی سوچ کے لوگ عوامی مسائل کو بڑھاتے ضرور ہیں مگر کم نہیں کرتے کیونکہ انھیں صرف اپنے مفادات کی آبیاری کرنی ہوتی ہے انھیں اس بات سے غرض نہیں رہتی کہ مخلوق ِ خدا سے محبت خالق ِ کائنات تک پہنچنے کا راستہ ہے جس پر گامزن میرے سمیت کوئی ایک بھی نہیں ہم سب بس خود نمائی کے ہنر ِ عظیم سے آراستہ ہیں اور بیشعور طبقے کی چونکہ اس سرزمین پر بہتات ہے تو ان کو خام مال کی طرح مفادات کی مشینوں میں مفت استعمال کیا جا سکتا ہے بحرانوں میں گھرے اس ماحول میں مجھے فرانس کا معاشی بحران یاد آ گیا جس میں بادشاہ نے دکھاوے کے لئے شاہی گھوڑے بیچ دئیے اس موقع پر فلاسفر والٹیئر نے کہا کہ بہت بہتر ہوتا اگر شاہی گھوڑوں کو بیچنے کی بجائے اسمبلیوں میں بیٹھے گدھوں کو فروخت کر دیا جاتاتو یہ قدم ملک و قوم کے لئے زیادہ سود مند ہوتا یاد رہے کہ ہمارے یہاں بھی تحریک ِ انصاف نے اپنے دور ِ حکومت میں فرانسیسی بادشاہ کی پیروی کرتے ہوئے بڑی بڑی گاڑیوں کو فروخت کیا تھا لیکن نہ معیشت بہتر ہوئی اور نہ ہی کرپشن میں کمی آئی ۔قارئین سے ایک گزارش کہ وہ چاہے جس جماعت سے بھی تعلق رکھتے ہیں ذرا اپنے قائدین کی خودنمائی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو ہو سکتا ہے کہ عوامی چیخ و پکار سے ملکی معیشت کی بہتری کے لئے کوئی راہ نکل آئے اور خود نمائی کی بجائے سچائی کی راہ ہموار ہو۔
0