پاکستانی قوم کو اس کے خود ساختہ محافظ گدھا سمجھتے ہیں اسی لئے اس کی تقدیر سے ان کا کھلواڑ کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتا!
تازہ ترین واردات یہ ہوئی ہے کہ وہ جو ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم جرنیلوں نے اپنے مقبوضہ پاکستان کی مسند اقتدار پر شطرنج کی بساط کے مہرے کی طرح بٹھا رکھا ہے اور جس کا اصل کام دنیا بھر میں کشکولِ گدائی لیکر پھرنے اور بھیک مانگنے کا ہے، شہباز شریف نام کا، اس نے سنیچر کے دن یہ اعلان کیا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں ایک اور فوجی آپریشن، “عزمِ استحکام” کے عنوان سے کیا جائے گا تاکہ وہاں دن بدن بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات اور سانحات کا ، بقول اسکے، سدِ باب کیا جاسکے!
شہباز شریف نے یہ اعلان نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی (یعنی چوٹی کی کمیٹی) کے اجلاس کے بعد کیا جس میں پاکستان کا اصل یزیدی حکمران جنرل عاصم منیر بھی شریک ہوا تھا!
ظاہر ہے کہ یہ منصوبہ فوج کا ہے اور اس کی ضرورت پاکستان کے بے تاج عسکری سلاطین کو یوں محسوس ہوئی کہ جو سیاسی گماشتے انہوں نے عمران خان کا تختہ الٹنے کے بعد سے اس بدنصیب ملک اور قوم پر مسلط کئے ہیں ان سے ملک سنبھل نہیں رہا اور سنبھل یوں نہیں رہا کہ ان کا اصل پیشہ تو چوری ڈکیتی ہے اور سیاست ان کیلئے محض ایک وسیلہ ہے ملک کے وسائل اور خزانے کو لوٹنے کا۔ نہ ان چوروں میں بصیرت ہے نہ وہ فہم و فراست جو ملک کودرپیش مسائل کا ادراک کرسکے۔ وہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے جی ایچ کیو کی سمت دیکھتے ہیں کہ وہاں سے کیا حکم نازل ہوتا ہے اور پھر جو بھی حکم ہو اس پر آنکھ بندکرکے عمل کرنا ہی ان مہروں کے نزدیک اپنی افادیت کو ثابت کرنا ہوتا ہے!
جرنیلوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ستر برس سے یہ غاصب ملک کی سیاست کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں لیکن کارکردگی کے نام سے ان کا ریکارڈ وہ ہے جسے ملک کی تاریخ کا سیاہ باب کہا جاسکتا ہے بلکہ ان کی دخل اندازی ہی ملکی تاریخ کی سیاہی کا اصل سبب ہے۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار بھٹو نے، جو انہیں جرنیلوں کی ملی بھگت سے پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیاب رہا تھا اور خود پاکستان کا تاحیات اور بے تاج بادشاہ، بلکہ شہنشاہ بننے کے خواب دیکھ رہا تھا، جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں سانحہء مشرقی پاکستان کی وجوہات اور عوامل کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا تھا لیکن پھر خود ہی اس کمیشن کی رپورٹ کو سرد خانے میں رکھ دیا تھا اسلئے کہ جو تجاویز اس رپورٹ میں پیش کی گئی تھیں ان پر عمل پیرا ہونے میں بھٹو کو اپنی سیاسی زندگی خطرہ میں نظر آرہی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کی سیاسی اور طبعی زندگی انہیں جرنیلوں کے ہاتھوں ختم ہوئی جو اس کے شریک جرم تھے اور جنہیں وہ یوں بے نقاب کرنے سے کترا رہا تھا کہ ان کے بے نقاب ہونے کے عمل میں اس نے جو قائدِ عوام کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا اس کے بھی اتر جانے کا خطرہ تھا۔
خیر، وہ ایک الگ موضوع ٔبحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں لیکن حمود الرحمان کمیشن کی سفارشات میں جو سب سے نمایاں بات تھی وہ یہ کہ فوج کو سیاست اور دفاع کے علاوہ دیگر معاملاتِ ریاست میں اپنی دخل اندازی بند کردینی چاہئے اسلئے کہ وہ فوج جو سیاست میں پڑجائے پھر لڑنے کے قابل نہیں رہتی!
اور ستر برس کی پاکستانی فوج کی کارکردگی، جو ناکامیوں اور ہزیمتوں کی داستان ہے، حمود الرحمان کمیشن کی اس سفارش کی سچائی کا برملا اظہار اور اعلان ہے۔
چونکہ پاکستان کے اقتدار اور ہوس کے اسیر جرنیلوں کی تمام تر ترجیحات ملکی وسائل میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کی رہی ہیں اسی لئے ان کی سربراہی میں ملکی افواج نے آجتک کوئی جنگ نہیں جیتی۔ وہ جن کا فرضِ اولین ملک کی سلامتی کو یقینی بنانا تھا اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں مسلسل ناکام ہوتے رہے اور اس ناکامی پر مہر تصدیق ہمیشہ کیلئے اس دن ثبت ہوئی جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں اسی فوج نے اپنے بزدل کمانڈروں اور جرنیلوں کی ملک دشمن پالیسیوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بدترین دشمن، بھارت، کے سامنے ہتھیار ڈالے اور یوں بابائے قوم کے پاکستان کو دو لخت ہونے کا سیاہ کارنامہ انجام دیا!
لیکن قوم کی سادہ لوحی تھی جو ان غاصب جرنیلوں کے ہاتھوں بیوقوف بنتی رہی اور ملی نغمے سن سن کر یہ ایمان رکھتی رہی کہ ایک دن دلی کے لال قلعہ پر ان کی سربراہی میں سبز ہلالی پرچم لہرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ قوم کے ساتھ جو بھیانک مذاق ان جرنیلوں نے کیا تو وہی مثل صادق ہوگئی کہ ناؤ کس نے ڈبوئی ؟ خواجہ خضر نے!
لیکن اس حقیقت سے مجرمانہ چشم پوشی کرتے ہوئے ہر عسکری طالع آزما نے قوم کو افیون کی گولی دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور جتنا جتنا وقت گذرتا گیا اور جرنیل سیاست دانوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرکر کے اپنے آپ کو رستمِ زماں اور ہفت اقلیم کے مالک سمجھتے رہے۔
لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ ہر فرعون کیلئے ایک موسیٰ پیدا ہوتا ہے تو جرنیلوں کے قوم کی تقدیر سے مسلسل کھلواڑ کو اگرکسی نے صحیح معنی میں چیلنج کیا تو وہ عمران خان ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج جو یزیدی ٹولہ پاکستانی افواج کی سربراہی کا ناٹک رچا رہا ہے اس کی اول و آخر ترجیح یہ ہے کہ عمران خان کو ان کی عقوبت سے نجات نہ ملنے پائے اور یہ ناٹک کے رسیا طالع آزما اسی طرح قوم کی تقدیر کے ساتھ جوا کھیلتے جائیں!
لیکن ایک کڑوی سچائی کا سامنا ان طالع آزماؤں کو اس صورت آن پڑا ہے کہ عمران نے ان کو جس طرح سے بے لباس کیا ہے تو ملک کا ہر ذی شعور شہری اب حکایت کے معصوم بچے کی طرح بھرے بازار میں دہائی دے رہا ہے کہ شہنشاہِ وقت تو بے لباس ہے، ننگا ہے اور اس کی بے لباسی اب کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے !
عزمِ استحکام کی طرح کے ناٹک پہلے بھی رچائے جا چکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں اسی طرح کا ایک فوجی آپریشن کیا تھا جس کا نام، غالبا” ضربِ غضب” تھا اور جس کی کامیابی کے جھنڈے گاڑے گئے تھے ۔ یوں لگتا تھا کہ پاکستان کی بہادر افواج نے ہمیشہ کیلئے ملک سے دہشت گردی کا جنازہ نکال دیا ہے اور یہ عفریت اب کبھی دوبارہ سر نہیں اٹھا سکے گا۔ لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں جب سے عمران کے زوال کے بعد یہ چوروں کی منڈلی طالع آزما جرنیلوں نے ملک و قوم پر مسلط کی ہے دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔
دہشت گرد کیوں پھر سے سر اٹھا رہے ہیں ؟ اس کا جواب بہت آسان ہے اور وہ یہ کہ ملک میں عمران خان کو اقتدار سے محروم کرکے جو طوائف الملوکی پہلے ملت فروش قمر باجوہ اور اس کے بعد یزید عاصم منیر کی سربراہی میں مسلط کی گئی ہے اس نے سیاسی استحکام کو پارہ پارہ کردیا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ جہاں عدم استحکام ہوتا ہے وہاں غیر قانونی اور دہشت گرد تحریکیں جنم لیتی ہیں اسلئے کہ دہشت گردی کے پروان چڑھنے کیلئے سیاسی اور معاشی عدم استحکام بنیادی خمیر ہوتا ہے۔
پھر ، پاکستان کے پس منظر میں ایک اور عنصر جو دہشت گردی کو ہوا دیتا ہے ، یہ ہے کہ ملک کی بدنامِ زمانہ برائے نام سیکیوریٹی ایجنسی تو عرصہء دراز سے ریاست کے اندر اپنی ریاست بنا کے بیٹھی ہوئی ہے۔ آئی ایس آئی خود کو پاکستان کا مالک و مختار سمجھتی ہے اور اس کے نزدیک، اس کے ایجنڈا میں، اس کی ترجیحات میں جس طرح سیاسی گماشتوں کو اپنے مقصد یا مقاصد کیلئے استعمال کرنا شامل ہے اسی طرح وہ دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتی آئی ہے اور وقتا” فوقتا” ان دہشت گردوں کو بھی اپنے مہروں کے بطور استعمال کرنے کا کھیل بھی کھیلتی آئی ہے جو در اصل قوم اور ملک کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے!
دنیا جانتی ہے کہ طالبان نے آئی ایس آئی کی نرسری میں جنم لیا تھا اور اس رسوائے زمانہ ایجنسی کے کرتا دھرتا اپنے اس کارنامے پہ کھلے عام زکر کیا کرتے تھے کہ انہوں نے ایک ایسی تنظیم کو وجود بخشا ہے جو افغانستان کی آزادی اور نجات کی جنگ لڑنے میں پیش پیش ہے۔
تحریکِ طالبانِ پاکستان نے طالبان کی گود میں آنکھیں کھولیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ ایک بار جب آپ بند بوتل کا منہ کھول دیں تو جو جن اس میں سے نکلتا ہے وہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کی ہر خواہش پوری کردے یا آپ کی ہر فرمائش پر سر جھکا کے کہے، کہ جو مرضی سرکار کی!
تو اب قوم کی آنکھیں کھل چکی ہیں اور بچہ بچہ جان چکا ہے کہ یہ وہ فوج ہے جو کسی دشمن کو تو کبھی زیر نہیں کرسکی لیکن دہشت گردی کو جواز بناکے اپنی ہی سرزمین کو تہس نہس اور اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرتی آئی ہے بلکہ اس کھیل میں ایسی منجھ چکی ہے کہ ہر تھوڑے دن کے بعد کسی نہ کسی بہانے سے قوم کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کیلئے اس طرح کے ناٹک ملک میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے عنوان سے رچایا کرتی ہے۔
لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ آپ چند لوگوں کو ہمیشہ بیوقوف بناسکتے ہیں، ایک پوری قوم یا جمیعت کو کچھ دیر کیلئے بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن کسی بھی قوم یا جمیعت کو ہمیشہ بیوقوف نہیں بناسکتے وہ ہمارے طالع آزما جرنیلوں پر بھی من و عن صادق آتی ہے۔
قوم اب اس چنڈال چوکڑی کے ہاتھوں مزید بیوقوف بننے کیلئے تیار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ چور شہباز کے منہ سے یزید عاصم منیر نے جو اعلان کروایا ہے کہ عزمِ استحکام کے نام سے ایک نیا ملٹری آپریشن شروع کیا جانے والا ہے تو تحریکِ انصاف اور ملک کے دیگر باشعور سیاسی حلقوں اور رہنماؤں نے اس کی مخالفت کا واشگاف اعلان کردیا ہے اور عسکری قیادت کو جتلادیا ہے کہ وہ اب اس کھلواڑ کو برداشت نہیں کرینگے اور اس کی مخالفت میں باضابطہ مہم چلائینگے ! اللہ اللہ خیر صلا!
تو یوں لگتا ہے کہ شطرنج کی یہ بازی جو عاصم منیر نے اپنے مہروں کی مدد سے جمانے کی کوشش کی تھی وہ شروع ہونے سے پہلے ہی مات ہوگئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ماضی کی تاریخ ہی دہرائی جائیگی یا ہوس کے ماروں کی آنکھیں کھل جائینگی؟
سرکار کے تابع جو نیوز میڈیا ہے وہ اس نئے ناٹک کا جواز یہ پیش کررہا ہے کہ ابھی دو دن پہلے جو چین-پاکستان مشاورتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا اس میں چینی وفد کے سربراہ وزیر نے صاف کہہ دیا تھا کہ چین کی اگلی سرمایہ کاری اس شرط پر ہوگی کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ چین سی پیک کے ابتدائی مرحلہ کے اختتام تک پاکستانی معیشت کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط کرنے کے عمل میں 26 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے لیکن پاکستان میں اس کے شہری اور کارکن محفوظ نہیں ہیں لہٰذا وہ اندھا تو نہیں ہے کہ پاکستان میں آنکھ بند کرکے اپنا پیسہ اور سرمایہ لگاتا رہے۔
چین کی شرط سیاسی استحکام ہے جس کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہنما اور قائد کو، جسے یزیدیوں نے دس مہینے سے قید کررکھا ہے، آزاد کیا جائے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف کو اس کا وہ حق دیا جائے جو پاکستانی قوم نے اسے دیا ہے۔ لیکن یزید اور اس کے حواری اب بھی اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے کے فریب میں مبتلا ہیں اور قوم کو دہشت گردی کے نام پر افیم کی ایک اور گولی دینا چاہتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ قوم یہ گولی پھر نگلنے کو آمادہ ہوجائیگی!کیا کیا جائے کہ دنیا میں خوش فہمی کے مرض کا کوئی علاج نہیں ہے!
0