0

شرم ہم کو مگر نہیں آتی !

آج یہ سطور لکھتے ہوئے دل بہت اداس ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آج ہماری کرکٹ ٹیم نے جس “محنت” اور جتن کے ساتھ بھارت کے خلاف اپنے ورلڈ کپ ٹی-20 مقابلہ میں مات کھائی ہے اس نے کروڑوںپاکستانیوں کو دلبرداشتہ اور غمزدہ کردیا ہوگا، ہماری ہی طرح!
میچ پاکستان کی گرفت میں تھا۔ بھارت کی ٹیم کو، جس کی بلے بازی کی مہارت کا دنیا میں چرچا ہے (اور اس کی بڑی وجہ وہ پیسہ ہے جو بھارتی کرکٹ کو با افراط دستیاب ہے) ہمارے شاہین بولرز نے 119 کے اسکور پہ ڈھیر کردیا تھا۔ جواب میں پاکستان نے 14 اوورز کے اختتام تک 80 رنز بنالئے تھے اور اس کے صرف تین کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔ جیت کیلئے صرف مزید چالیس رنز درکار تھے، 36 گیندیں باقی تھیں اور پاکستانی بلے باز سمجھداری کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک یوں لگا جیسے ان پر کسی دشمن نے کوئی منتر پڑھ کر پھونک دیا ہو۔
اس کے بعد جس غیر ذمہ داری کے ساتھ ہمارے شاہینوں نے بلے بازی کی اور جس لاپرواہی کے ساتھ اپنی وکٹیں گنوائیں اس سے ہم جیسے شائقین کو لگا جیسے یا تو وہ ان سٹے بازوں کیلئے کھیل رہے تھے جنہوں نے بھارت کی جیت پر کروڑوں کا جوا کھیلا ہوا تھا یا پھر کسی کا حکم تھا، کوئی جبر تھا کہ میچ ہر حال میں ہارنا ہے !
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ملک پر ننگی فسطائیت کا جو نظامِ جبر یزید عاصم منیر اور اس کے سیاسی گماشتوں نے مسلط کیا ہوا ہے اس کی نحوست کا آسیب کرکٹ ٹیم تک پہنچ چکا ہے، اور کیوں نہ ایسا ہو۔
کرکٹ میں فسطائیت کا نظام یوں در آیا ہے کہ عاصم منیر کا سسرالی محسن نقوی جو اپنے جیجا جی کی ناک کا بال ہے اور اس کے بل بوتے پر وہ پہلے عبوری حکومت کا پنجاب کا چیف منسٹر بن کے مہینوں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے عوام کے سینوں پر مونگ دلتا رہا۔ پھر جب الیکشن میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی جعلسازی کرکے عاصم منیر نے پاکستانی عوام کے مینڈیٹ پر شبخون مارا اور اسکے ذریعہ ان پٹے ہوئے، گلے گلے تک بدعنوان اور کرپٹ، پٹے ہوئے مہروں کو قوم کی گردن پر سوار کیا تو جیجا جی کا لاڈلا محسن نقوی پاکستان کا وزیر داخلہ بن گیا لیکن اس کے سیاہ کارناموں کی داد اور اجر کے طور پر اسے پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ بھی بنادیا گیا!
محسن نقوی اور اس کے جیجا جی کی مشترکہ نحوست کا سایہ پاکستانی کرکٹ ٹیم پر وہاں سے پڑنا شروع ہوا جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹیم کی تربیت پاکستان ملٹری اکیڈیمی، کاکول میں کروائی گئی۔
ہمارے تو کان اسی وقت کھڑے ہوگئے تھے جب سنا تھا کہ کرکٹ ٹیم کی تربیت بھی اس نرسری میں کروائی جارہی ہے جہاں پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والے زہریلے پودوں کی کاشت کی جاتی ہے۔ پاکستان کی تباہی اور بربادی میں ہماری فوج کے جرنیلوں اور افسروں کا جو کردار رہا ہے وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ وہاں سے پاکستانی کرکٹ ٹیم پر نحوست کا آسیب مسلط ہوا جو مسلسل اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ پچھلے ہفتے ہماری وہ ٹیم جسے عمران خان کی قیادت اور رہنمائی نے 1992ء میں ورلڈ کپ جتوایا تھا اب اس کے زوال اور پستی کی تاریخ یوں مرتب ہورہی ہے کہ وہ امریکہ کی اس ٹیم سے بھی ہار گئی جسے اس سے پہلے عالمی سطح پر کرکٹ کے مقابلوں کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اور آج بھارت کے خلاف شرمناک شکست نے اس زوال اور پستی پر وہ مہر تصدیق ثبت کی ہے جسکی نفی کرنے اور مٹانے میں برسوں بلکہ قرنوں لگ جائینگے!
بھارت کے ضمن میں آج کے پاکستان کیلئے مثال بن گیا ہے وہ سلیقہ، وہ قرینہ جس کے ساتھ بھارت نے اپنا حالیہ انتخابی عمل مکمل کیا ہے!
بھارت کا یہ الیکشن ، جس کے نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا گیا اور ان نتائج نے مودی سرکار کی مقبولیت اور پذیرائی کا ملمع جیسے اتارا ہے وہ بھی پاکستان اور اہلِ پاکستان کیلئے ایک نمونہ ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، سات ہفتوں پر محیط تھا۔ نوے کروڑ سے زائد بھارتی الیکشن میں اپنا ووٹ ڈالنے کے حقدار تھے۔ ملک چونکہ بڑا ہے اسلئے الیکشن سات ہفتوں تک وقفے وقفے سے ملک کے مختلف حصوں اور صوبوں میں مرحلہ وار کروایا گیا اور پھر جو عمل گزشتہ 17 اپریل کو شروع ہوا تھا یکم جون کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچا۔
بھارت کو ہم پاکستانی اپنا ازلی دشمن قرار دیتے ہیں اور مودی نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں اپنے عمل سے اس خیال کو مزید تقویت پہنچائی کہ ہمیں اس ایجنڈا سے خبردار اور ہوشیار رہنے کی اشد ضرورت ہے جس پر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی عمل پیرا رہی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مودی، جو اس بار، اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں مخلوط حکومت کی سربراہی کرے گا، اس روش سے باز آجائے اور پاکستان کی طرف صلح اور امن و آشتی کا ہاتھ بڑھائے۔
لیکن ہماری فراخدلی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم دشمن کی بھی اچھی باتوں کا ذکر کریں، انہیں سراہیں اور ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔
تو اس طویل انتخابی عمل کے دوران نہ کہیں دنگے فساد ہوئے، نہ بھارت میں جمہور کو ان کے بنیادی جمہوری حقِ رائے دہی سے محروم کرنے کیلئے کوئی کارروائی ہوئی، نہ وہاں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عائد ہوئی اور نہ ہی نتائج کے اعلان کے بعد کسی پارٹی نے یہ واویلا کیا کہ انتخابی عمل میں دھاندلی ہوئی ہے یا پاکستان کی مانند ووٹوں کی گنتی کے عمل پر ڈاکہ پڑا یا شبخون مارا گیا۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت میں الیکشن کیلئے ووٹنگ مشینیں استعمال ہوتی ہیں، آج سے نہیں بلکہ برسوں سے کاغذی بیلٹ پیپر کا دقیانوسی نظام وہاں ترک کردیا گیا ہے۔ عمران خان بھی پاکستان میں ووٹنگ مشین کا نظام لانا چاہ رہا تھا لیکن اس کی مخالفت شد و مد سے کی گئی اور مخالفت کرنے والے وہی جرنیلوں کے دلبر سیاسی مہرے اور گماشتے تھے جنہیں ووٹنگ مشینوں کے استعمال کرنے میں اپنی دھاندلی اور بے ایمانی کے اس نظام کا جنازہ نکلتا ہوا دکھائی دیا جو پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کو چرانے اور اس پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے ان کا سب سے موثرہتھیار ہے۔
سیاست کے پٹے ہوئے مہروں کی حمایت کرنے میں فوج کے جرنیل بھی پیش پیش تھے اسلئے کہ ووٹنگ مشینوں کا استعمال ان کی ڈاکہ زنی کیلئے بھی تو سد سکندری بن جاتا۔ تو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھنے والے جرنیل کوئی ایسی تبدیلی سیاسی عمل میں، خاص طور پہ انتخابات کے عمل میں، نہیں چاہتے جو ان کی چودہراہٹ کو چیلنج کرتی ہو اور جس طرح وہ ہر الیکشن میں اپنی من مانی کرنے کے عادی ہوچکے ہیں اس میں کوئی رکاوٹ، کوئی رخنہ پیدا ہو۔
ہم ہر بات میں بھارت سے اپنا موازنہ کرتے ہیں، اس کی برائیاں گنوانے میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانا چاہتے ہیں لیکن کبھی کبھار اپنے ضمیر کی پکار پر بھی کان دھرلینے میں کوئی برائی نہیں۔ اچھی بات، چاہے وہ دشمن سے ہی منسوب کیوں نہ ہو، کی تعریف کرنے میں کوئی ہتک، کوئی بے عزتی نہیں۔ تو اس کی تعریف کھلے دل سے کرنی چاہئے کہ بھارت میں جمہوریت اپنی جڑیں ایسی مضبوط کرچکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی، یا سنگھ پریوار یا نریندر مودی جیسا زہریلا سیاستداں، ان جڑوں کو نہ کمزور کرسکتا ہے نہ انہیں اکھیڑ کر پھینک سکتا ہے۔
بھارتی جمہور نے مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ووٹ کے استعمال سے مودی اور اس کے ہمنواؤں کو با آوازِ بلند یہ بتادیا ہے کہ وہ بھارتی جمہوریت کو مذہبی انتہا پسندی کے جنون سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ ان نتائج نے مودی کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے ورنہ وہ اور اس کے ہمنوا تو انتخابی عمل کے دوران یہ ڈینگیں مار رہے تھے کہ اس بار وہ 543 اراکین کے ایوان میں400 سے زیادہ نشستیں جیت جائینگے لیکن نتائج جب سامنے آئے تو مودی جی کی آنکھیں کھلیں یا چندھیا گئیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک بھر میں صرف 240 نشستیں حاصل کی ہیں اور حکومت بنانے کیلئے انہیں دوسری سیاسی جماعتوں کے اشتراک کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں آجتک یوں مضبوط نہیں ہوسکیں کہ وردی والے طالع آزما جمہوریت کی مضبوطی میں اپنی چودہراہٹ کی موت دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی تو، کراچی کی زبان میں، دادا گیری ختم ہوجائیگی جس دن جمہوریت نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔
اسی لئے تو وہ عمران کے مخالف ہوئے کہ وہ پاکستانی عوام کو ان کے ان بنیادی جمہوری حقوق کے متعلق بیدار اور ہوشیار کرنا چاہ رہا تھا جس پر طالع آزما جرنیل ستر برس سے ڈاکہ ڈالتے آئے ہیں اور آج بھی جمہوری عمل کو بے دست و پا کرنے کیلئے شہباز شریف، نواز شریف اور زرداری جیسے ڈاکوؤں اور نوسربازوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔
تو جہاں ایک طرف بھارت جمہوریت کے راستے پر آگے بڑھتا جارہا ہے اور سیاسی استحکام کے بل بوتے پر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کے مراحل کامیابی سے طے کررہا ہے وہیں پاکستان آج بھی یزیدی اور فرعونی جرنیلوں اور ان کے سیاسی مہروں کے رحم و کرم پر گھسٹ رہا ہے اور اپنی زبوں حال معیشت کو بحال کرنے کیلئے در در بھیک مانگ رہا ہے۔
ملک کا بجٹ عام طور سے جون کے پہلے ہفتے میں پیش کردیا جاتا تھا لیکن شہباز چور بجٹ پیش کرنے کے بجائے چین کے پانچ روزہ دورے پر روانہ ہوگیا اور حسبِ معمول وزیروں، مشیروں اور حواریوں کا غول کا غول ہمراہ سیر و تفریح کیلئے گیا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ مریم نواز، بلیک میلر کوئین جو جرنیلوں کی مہربانی سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی چیف منسٹر ہوگئی ہیں ان کا کیا کام تھا کہ وہ بھی وزیر اعظم کے ساتھ گئی ہیں؟
اندھیر نگری کے چوپٹ راج میں جو نہ ہوجائے کم ہے!
سنا ہے کہ اب بجٹ 12 جون کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بجٹ پاکستانی حکومت نے نہیں بنایا بلکہ آئی ایم ایف نے بنایا یا بنوایا ہے۔ حکومت ِ پاکستان کی تو برائے نام اس پہ مہرِ تصدیق لگادی گئی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضہ کے بغیر ملکہ معیشت بیٹھ جائیگی۔ تو قرض دینے والا اپنی شرائط پر ہی تو قرض دیگا۔
ویسے بھی شہباز شریف کا تو ایمان یہی ہے کہ پاکستان بھکاری ہے اور بھکاری محتاج ہوتا ہے کہ جو بھی اس کے کشکول میں ڈال دیا جائے اسے بے چون و چرا قبول کرلے۔
آئی ایم ایف یہ چاہتا ہے کہ ملک میں معیشت کی ترقی اور نمو کی شرح اگلے مالی سال میں 5۔3 فیصد یعنی ساڑھے تین فیصد رہے جبکہ اس مالی سال میں جو 30 جون کو ختم ہوگائے گا معیشت میں نمو کی شرح محض 6۔0 فیصد ، یعنی ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔ عوام کی نظروں سے یہ حقیقت مکمل طور پہ پوشیدہ رکھی جارہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو جب ملت فروش قمر باجوہ اور ان سیاسی مہروں نے جو آج ملک کے حکمراں بنے بیٹھے ہیں گرایا تھا تو معیشت 7۔6 کی شرح سے ترقی کررہی تھی۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 24 کروڑ آبادی میں ایک تہائی عوام غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف نے جو شرائط نیا قرضہ دینے کیلئے عائد کی ہیں وہ کڑوڑوں اور پاکستانیوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دینگی۔
ان شرائط میں گھریلو استعمال کیلئے گیس کے نرخوں میں اضافہ ہوگا، بجلی کے نرخ بڑھیںگے، افراطِ زر میں اضافہ ہوگا اور مجموعی طور پہ مہنگائی کی شرح میں 5۔12 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔
تو آنے والا بجٹ پاکستان کے غریب عوام کی کمر اور زیادہ توڑنے کیلئے ایسا بوجھ لیکر آئے گا کہ اس کے بعد عوام کی چیخیں جو نکل سکتی ہیں ان کا اندازہ انہیں ہے جو دلِ دردمند رکھتے ہیں۔ جرنیل اور ان کے چھٹ بھیے سیاسی گماشتے اس بوجھ سے آزاد رہینگے، آخر کو حاکم اور محکوم میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے؟
یزیدی جرنیلوں کی تمام تر پریشانی تو صرف یہ ہے کہ عمران کو انہوں نے داستانِ پارینہ بنانا چاہا تھا لیکن وہ تو اب بھی پاکستانی عوام کی آنکھوں کا تارا ہے اور ان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ضرور پڑھیں جس میں پاکستان کو دو لخت کرنے والے طالع آزما جرنیلوں کے سیاہ کرتوت کا احوال ہے۔ عمران کی اس جسارت پہ عاصم منیر اور اس کے گماشتے بہت برہم ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کو ان کے اصل دشمنوں کے چہرے دکھانا کیوں چاہتا ہے۔ اس لئے اب وہ عمران کے خلاف اور مقدمات بنانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ اس فسطائیت کے سوا ان کے پاس اور کچھ بھی تو نہیں ہے۔
چلتے چلتے یہ چار مصرعہ سنتے جائیے:؎
اک شیر دل نے سوئے ہوؤں کو کیا بیدار
اس بات پہ ہیں اہل حشم برہم و بیزار
جمہور کہ ہوں واقفِ اسرارِ سیاست
کیوں پھر نہ عدالت کی نظر میں ہوں خطا کار!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں