ہمارے سابقہ صدرِ مملکت، ڈاکٹر عارف علوی، پیشے کے اعتبار سے تو دانتوں کے ڈاکٹر ہیں لیکن کسی ماہر نباض کی طرح ان کی انگلی ملک و قوم کی نبض پر رہتی ہے۔ اور ایسا ہونا دلیل ہے اس کی کہ جس منصب سے وہ گزشتہ پانچ برس تک وابستہ رہے ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ انہوں نے ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر جو دیکھا، جس کا انہیں بہت قریب سے تجربہ رہا، اس کی بنیاد پر وہ قوم کے مزاج کی تشخیص کرسکیں اور قوم سے زیادہ ان کی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے صورتِ حالات کا تجزیہ کریں جو اقتدار کی ذمہ داری میں ان کے شریک رہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے حال ہی میں تحریکِ انصاف کے ایک سیمینار سے اپنے خطاب میں جوباتیں کیں وہ چشم کشا بھی ہیں اور ان کیلئے خاص طور پہ ایک بے لاگ پیغام بھی ہے جو ان کی جماعت، تحریکِ انصاف کی حکومت کو اپنے بدیسی آقاؤں کے ایماء اور خوشنودی کی خاطر ایک سازش کے ذریعہ اقتدار سے محروم کرنے کے بعد اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلیوں کو شطرنج کی بساط کے مہروں کے طور پہ استعمال کرتے ہوئے اس ملک کے حاکم بنا بیٹھے ہیں اور جن کے فاسقانہ کردار اور رویے نے پاکستان کو ایک فسطائی ریاست میں تبدیل کردیا ہے جہاں آئین اور قانون بند کمروں میں بیٹھے چند یزیدی جرنیلوں کی انانیت اور فرعونیت کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے اور ملک تیزی سے اس انتشار کی جانب گامزن ہے جسے انگریزی زبان میں انارکی کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے !
علوی صاحب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر جی ایچ کیو کے فراعین اور ان کے سیاسی گماشتوں کو خبردار کیا کہ جس روش پر وہ چل رہے ہیں اور جن پالیسیوںکو انہوں نے گذشتہ دو ڈھائی برس سے ملک پر مسلط کیا ہوا ہے اس سے عوام میں شدید بے چینی پیدا ہوچکی ہے جو نیک فال نہیں ہے، نہ ملک و قوم کیلئے نہ ہی ان حکمرانوں کیلئے جو شاید اس خوابِ خرگوش میں مبتلا ہیں کہ وہ ڈنڈے کے زور پر عوام کی گردنیں ہمیشہ جھکا سکیں گے اور عوام سدا بھیڑ بکریوں کی طرح وردی پوش گدڑیوں اور گلہ بانوں کے چشم و ابرو کے اشاروں پر چلیں گے !
علوی صاحب نے چکنی چپڑی باتوں سے قطعا” اجتناب کرتے ہوئے بہت صفائی اور دلیری سے پاکستانی فراعین اور ان کے بغل بچوں کو متنبہ کیا کہ عوام کی مایوسی اور ان کا بیدریغ استحصال عوام کے غم و غصہ کو ہوا دیتے ہوئے ان کے فرسٹریشن میں اضافہ کررہا ہے۔ ان کے جذبات اندر ہی اندر اس طرح گھٹ رہے ہیں جیسے پریشر کوکر میں کھانا پکتا ہے ۔ پریشر کوکر میں سے بھاپ نکلنے کی رفتار بڑھ رہی ہے ۔ اس کی سیٹی بج رہی ہے اور اگر اسے کھولا نہ گیا تو عجب نہیں کہ بہت جلد اور عنقریب پریشر کوکر مزید برداشت کی حد پار کرتے ہوئے پھٹ نہ جائے !
ہم عارف علوی کی صاف گوئی کی داد تو دیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ داد کے مستحق وہ ’’پریشر کوکر ‘‘کی اصطلاح استعمال کرنے کیلئے ہیں۔
پاکستانی قوم کے معروضی حالات اور مزاج کیلئے اس پریشر کوکر کی اصطلاح سے بہتر کوئی استعارہ نہیں ہوسکتا۔ ہر وہ شخص جس نے کسی پریشر کوکر کو آگ پر چڑھے ہوئے دیکھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس سے بھاپ نکلنے کی علامت یہ کہتی ہے کہ اس کے اندر جو بھی ہے وہ پک رہا ہے اور سیٹی بجنے کا اشارہ یہ ہوتا ہے کہ اب اگر پریشر کوکر کو بند نہ کیا گیا تو بہت جلد اس کا ڈھکنا اندر بنتی ہوئی بھاپ کی شدت سے خود بخود الگ ہوجائے گا اور جو بھی اندر پک رہا ہے وہ باہر آجائے گا۔
پریشر کوکر کی نسبت اس آتش فشاں کی سی ہے جس کے اندر لاوا کھولتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ لاوا پہاڑ کا سینہ چیر کر بہہ نکلتا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کا لگایا ہوا زخم پاکستان پر قابض یزید عاصم منیر اور اس کے گماشتوں کے حلق سے اترا بھی نہیں تھا، اس کے ہضم ہونے کی بات تو دور رہی، کہ عمران خان نے اپنے زندان کی سلاخوں کے پیچھے سے ایک اور چرکہ ان غاصبوں کے سینوں پر لگا دیا، قوم سے یہ التجا کرکے کہ وہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو ضرور پڑھے تاکہ اس کی آنکھیں روشن ہو اور اسے یہ معلوم ہوسکے کہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں جو پاکستان دو لخت ہوا تھا اس کا ذمہ دار شیخ مجیب الرحمان تھا یا وہ عسکری ٹولہ جو آج کی طرح اس وقت بھی پاکستان کا مالک و مختار بنا بیٹھا تھا اور عوام کے فیصلہ پر اپنی پسند اور ناپسند کو مسلط کرنا چاہتا تھا۔
عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں قوم سے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کی روشنی میں وہ یہ فیصلہ کریں کہ ملک و قوم کا غدار شیخ مجیب تھا یا وہ پانچوں عیب شرعی، رنگیلا اور بدمست جنرل یحییٰ جس کی عیاشیوں کی داستان حمود الرحمان کمیشن کے صفحات میں رقم ہے اور جو، اپنے جیسے اور بدمست اور بدکردار جرنیلوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو اپنا یرغمالی بنائے ہوا تھا !
عارف علوی اور عمران کے پے در پے واروں نے جی ایچ کیو کی کمیں گاہوں میں بیٹھے بزدل جرنیلی ٹولہ اور اقتدار کی مسند پر بٹھائے ہوئے مہروں کے تن بدن میں آگ لگادی، ایسی آگ کہ جو بقول مرزا غالب کے بجھائے نہ بجھے !
یہ غاصب جرنیل اور ان کے سیاسی گماشتے کیوں اس بات پر ایسے سیخ پا ہو رہے ہیں کہ عمران نے قوم کو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کی تلقین کی ہے ؟
بات یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ بولنے والا یا والے یہ برداشت نہیں کرپاتے کہ ان کو کوئی آئینہ دکھائے اسلئے کہ آئینہ تو ان کی طرح جھوٹ نہیں بولتا اور انہیں ان کے مکروہ چہرے اور کریہہ خد و خال ویسے ہی دکھا دیتا ہے جیسے ہوتے ہیں۔ یہ غاصب، مکار اور فریبی جو جھوٹ اور مکر و فریب کو اساس بناکر اس سادہ لوح قوم کو بیوقوف بناتے آئے ہیں ان سے وہ سچ کہاں برداشت ہوسکتا ہے جس کا احوال حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ اور سفارشات میں درج ہے۔
آپ ان فریبیوں اور جھوٹوں کا سارا کھیل ہمارے ان چار مصرعوں سے بہت اچھی طرح سمجھ جائینگے :؎
سچ جھوٹوں پر بار گذرتا ہے
جھوٹا اپنے کرتوتوں سے مرتا ہے
کلمہء حق منصور کی سنت ہے
جس کو جی دار ادا کرتا ہے!
آپ کو یاد ہوگا کہ اس ملت فروش، ننگِ قوم ، جنرل قمر باجوہ نے کیا کہا تھا؟ اس نے بڑی اکڑ سے یہ بھاشن دیا تھا کہ پاکستان کے دو ٹکڑے سیاستدانوں کی غلطیوں سے ہوئے تھے جبکہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ملک کو دو لخت کرنے کا تمام تر ذمہ دار جنرل یحییٰ اور اس عیاش عسکری ٹولہ کو قرار دیتا ہے جو پاکستان کو اس مشکل دور میں ایسے ہی اپنا یرغمالی بنائے ہوئے تھا جیسے آج ملت فروش باجوہ کی عسکری باقیات یزید عاصم منیر کی سربراہی میں ملک و قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔
شیخ مجیب تو متحد پاکستان پر حکومت کرنا چاہتا تھا جس کیلئے ملک کی اکثریت نے اسے جمہوری حق دیا تھا۔ اس جمہوری حق کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھانے والا تو یحییٰ اور اس کا فرعونی ٹولہ تھا بالکل ایسے ہی جیسے آج یزید عاصم منیر اور اس کا شیطانی ٹولہ پاکستان کو اپنے باپ دادا کی جاگیر اور وراثت سمجھ پر پاکستانی قوم کے جمہوری حق پر شبخون مارکے بیٹھا ہے اور چور شہباز اور ڈکیت زرداری جیسے ملت فروشوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچا رہا ہے!
یہ یزیدی جرنیلی ٹولہ کیوں اتنا بلبلا رہا ہے؟
عمران نے تو قوم کی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے، اسے یاد دلایا ہے کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ہماری تاریخ کا وہ حصہ ہے جسے پڑھے بغیر آج جو کچھ بھی پاکستان کی جمہوریت اور پاکستانی قوم کے ساتھ کھیل ہورہا ہے وہ سمجھ میںنہیں آسکتا۔
یہ یزیدی جرنیلی ٹولہ اور اس کے سیاسی گماشتے تو قوم کو جہالت کے اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ اپنی من مانی کرتے رہیں، اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہیں اور قوم بھیڑ بکریوں کی طرح ان کے پیچھے دم سادھے ہوئے چلتی رہے۔
جن چوروں اور ڈکیتوں کو ان فراعین نے ملک پر مسلط کیا ہے ان کی لوٹ مار انہیں نظر نہیں آتی لیکن عمران کے خلاف انہوں نے القادر یونی ورسٹی بنانے کو جرم سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کرپشن کا مقدمہ بنا دیا ہے کیوں؟ کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ قوم پڑھے لکھے، تعلیم کی روشنی عوام کے ذہنوں کی دبی ہوئی ، سوئی ہوئی دانش کو آزاد کرے اور علم و آگہی کو فروغ دے۔
یہی وہ ٹولہ ہے جس نے اس مفروضہ کو جنم دیا کہ شیخ مجیب غدار تھا، ملک توڑنے کا ذمہ دار تھا اور یحییٰ محب وطن تھا۔
اب جرنیلی ٹولہ کے اشارے پر کٹھ پتلی حکومت کے چھٹ بھیے عمران پر غداری کا الزام لگا رہے ہیں۔ اور دس بیس مقدمے اس کے خلاف بن جائینگے اسلئے کہ اس غاصب ٹولہ کو یہ یقین ہے کہ فائز عیسیٰ جیسے ننگ عدالت کو اس نے ملک کی عدالت عالیہ پر جو مسلط کیا ہوا ہے تو وہ عمران کے ساتھ نہ انصاف ہونے دیگا نہ ہی قوم کو عدل کا سورج طلوع ہوتے دیکھنا نصیب ہوگا جب تک فائز عیسی جیسا چھٹ بھیا پاکستان کا قاضی القضات ہے۔ اور فائز عیسیٰ اپنے مربیوں کو مایوس ہونے کا موقع بھی نہیں دے رہا۔ ابھی 30 مئی کو عمران کی ویڈیو لنک کے ذریعہ اس غاصب نے عدالت میں پیشی کو تو بادل ناخواستہ قبول کرلیا لیکن اس کارروائی کو عوام کی نظروں سے دور رکھا جبکہ یہ چھٹ بھیا یہ دعوی کرکے عدالت میں بیٹھا تھا کہ عدالتِ عالیہ کی ہر کارروائی ٹیلی وژن پر عوام کو دکھائی اور سنوائی جائیگی
لیکن عمران سے چونکہ اس چھٹ بھیے کو بھی عناد ہے اور اس کے سرپرست عاصم منیر کو بھی لہٰذا عمران کی عدالت کے سامنے پیشی کو بلیک آؤٹ کیا گیا۔یہ بزدلوں کا ٹولہ ہے جو ایک عمران سے اتنا خائف ہے کہ اس کے نام سے ان کی راتوں کی نیند اڑجاتی ہے۔
پاکستانی قوم کے ساتھ اس سے زیادہ سنگین اور کیا مذاق ہوسکتا ہے کہ ایک چور، بھک منگا شہباز شریف نام کا عسکری گماشتہ ملک کا وزیر اعظم ہے جو اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھکاری کہہ چکا ہے۔ صدرِ مملکت بین الاقوامی شہرت کا مالک ڈکیت زرداری ہے۔ ملک کی عدالتِ عالیہ کا سربراہ ایک کم ظرف چھٹ بھیا ہے جس کو عدالت اور عدل سے منسوب کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ صحرا بھی گلاب اُگا سکتا ہے۔ اور پھر ان تینوں کا آقائے نامدار عاصم منیر جیسا غاصب ہے جو چھل اور کپٹ سے پاکستان کا سپہ سالار اور بہ اعتبارِ منصب ملک کا بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے اور یہ چاروں قومِ پاکستان کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں ۔ یہ غاصب، یہ فرعون، یہ یزید، اس وقت تک قوم پر مسلط رہیں گے جب تک اسے ہوش نہیں آتا، جب تک وہ تاریخ کی روشنی میں یہ طے نہیں کر لیتی کہ اس کا ہمدرد کون ہے اور دشمن کون!
غاصب حکمراں چھٹ بھیوں کی فرعونیت پر مرحوم حبیب جالب کا یہ شعر یاد آگیا کہ خود کو خدا سمجھ بیٹھنے والے کس فریب کا شکار ہیں:؎
تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا!
0