کھیل
کھیل اب ہو نیاسیاست کا
کوئی اڑچن نہ کھیل میں آئے
بند ہو در ہر ایک زندان کا
کوئی رہبر نہ جیل میں آئے
حکومت اور حزب اختلاف (اگر کوئی حزب اختلاف ہے تو) کے درمیان شروع دن ہی سے رسہ کشی جاری ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ حزب اختلاف کسی طرح مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تاکہ اسے کچھ مراعات مثلاً پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیوں کی سربراہی وغیرہ دے کر مطمئن کر دیا جائے۔ اس رسہ کشی میں اور اس تناتنی میں نقصان ملک کا ہورہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی پوری معاشیات آئی ایم ایف کے قرضوں پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسے یہ بھی اندازہ ہے کہ آئی ایم ایف یہ مانگ کررہا ہے اورکرے گا کہ ملک میں بجلی، گیس، پٹرول مزید مہنگا کیا جائے اور عوام اور مختلف اداروں پر مزید ٹیکس لاگو کیا جائے ہر چیز کے لئے اور ہرشعبے کے لئے ہر طرح کی مراعات ختم کر دی جائیں یا کم کر دی جائیں۔ حکومت اس حقیقت سے خوب واقف ہے کہ مہنگائی کی ایک حد کے بعد اسے عوام کی شدید تنقید کا شکار ہونا پڑے گا اور مہنگائی کے ردعمل کے طور پر جلسے جلوسوں اور دھرنوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس پس منظر میں گزشتہ ہفتے وزیر داخلہ محسن نقوی اور کے پی کے وزیراعلیٰ کو مسکراتے ہوئے اور بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھ کر پاکستانی عوام کو ناامیدی اور مایوسی کے گہرے بادلوںمیں روشنی کی ایک کرن نظر آئی ہے۔ کے پی کے وزیراعلیٰ عجیب و غریب شخصیت کے حامل ہیں کھرے۔ بلا سوچے سمجھے منہ کھولنے والے اور اپنے مافی الضمیر کو سخت ترین الفاظ میں ادا کرنے والے۔ حکومت کے حالیہ رویوں نے انہیں اور بھی سخت اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنےوالا بنا دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں تلخی دراصل موجودہ حالات نے پیدا کی ہے۔ ان کا چہیتا لیڈر جیل میں ہے۔ ان کی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھین لیا گیا اور انتخاب کے لئے ان کی جماعت کو جلسہ ۔ جلوس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ انتخاب کے نتائج فارم 45 اور فارم 47 پر منحصر ہو کر رہ گئے۔ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی ہے کہ کم از کم اس کی 80سیٹیں اس سے چھین لی گئی ہیں اور اقلیتی اور خواتین کی نشستیں بھی جن پر وہ اپنا حق سمجھتی ہے وہ بھی دوسری جماعت کو بخش دی گئی ہیں۔ دردناک صورت حال یہ ہے کہ جب حکومت اور پی ٹی آئی( ایک طرح سے حزب اختلاف) کچھ پس پردہ رابطوںکے ذریعے کچھ قریب آنے لگتے ہیں تو ارباب اختیار پی ٹی آئی پر مزید سختیاں شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً شاہ محمود قریشی صاحب تقریبا رہا ہونے والے تھے کہ ان پر 8 مقدمات اور قائم کر دئیے گئے وہ ہر چند حکومت کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ 9 مئی کوکراچی میں تھے لیکن حکومت یا یوں کہہ دیجیے کہ مقتدرہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ قریشی صاحب اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں اگر وہ آج پریس کانفرنس کے لئے تیار ہو جائیں تو کل وہ جیل سے باہر آجائیں گے اس وقت حکومت اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ عوام کو عمران خان سےبدزن کرنے کے لئے ہر حربہ آزمارہی ہے۔ حکومت کے مختلف عہدیدار ہمہ وقت،عمران خان کے خلاف، عدت میں نکاح، توشہ خانہ، سائفر اور 90 لاکھ ڈالرز کا ذکر کرنے میں مصروف ہیں۔ اب تک مختلف وزرائے اعظم نے توشہ خانے سے جو قیمتی گاڑیاں اور دیگر تحفے حاصل کئے ہیں کوئی ان کا ذکر نہیں کرتا اور عمران خان کے کووڈ کی قیامت میں سرخرو رہنے اور پاکستان میں پہلی بار 10 لاکھ روپے کی مالیت کے صحت کارڈ کے اجراء کی بات نہیں کرتا۔ اگرپی ٹی آئی نے 9 مئی کو ایک تاریخی غلطی کی ہےتو اسےسزا ملنی چاہیے۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے پی ٹی آئی کے مرکزی کیس لٹکے ہوئے ہیں ان کا فیصلہ ہو تو بات آگے بڑھے اب سوشل میڈیا پر شیخ مجیب کا ذکر بھی چل پڑا ہے۔ اس ذیل میں ہمیں پاکستان کی ایک خبر رساں ایجنسی کے سربراہ، صدر ضیاء کے زمانے میں سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر اور مسلم بینکنگ کالج کے روح رواں مرحوم معظم علی یاد آئے۔ ایک مرتبہ ان سے ملاقات کے لئے میں ان کے دولت خانے پر حاضر ہوا تو انہوں نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’دانش صاحب یہ بڑا تاریخی صوفہ ہے اس پر بیٹھ کر کر شیخ مجیب ہچکیوں سے روتا رہا اور یہ کہتا رہا کہ ہم پاکستان سے الگ ہونا نہیں چاہتے ہم اکثریت میں ہیں لیکن مغربی پاکستان ہمیں دیوار سے لگارہا ہے‘‘۔
انقلابات ہیں زمانے کے!
درایں حالات ہم صاحبان اقتدار اور پی ٹی آئی سے بعد ادب گزارش کریں گے کہ اپنی ’’انا‘‘ کو پس پشت ڈال کر مذاکرات کا ڈول ڈالیں تاکہ ملکی استحکام کی بنیاد پڑ سکے۔ اس ذیل میں پہل حکومت کوکرنی ہو گی( حکومت کوپہل کرنی ہے لیکن حزب اختلاف کی کوئی بھی بات نہیں مانتی) خدا کرے کہ محسن نقوی صاحب اور علی امین گنداپور کی یہ ’’چبھی‘‘ موجودہ تعطل کو دور کرنے میں کامیاب ہو سکے اور پگھلتی ہوئی برف پانی بن جائے۔