0

نیرنگیاں سیاست کی

وزیر
وقت کے انقلاب میں دانش
سرخرو کتنے بے ضمیر ہوئے
آہ نیرنگیاں سیاست کی
کل جو ملزم تھے اب وزیر ہوئے!

دنیا بھر کی عموماً اور برصغیر کی خصوصاً سیاست کی نیرنگیاں اور بوالعجباں بعض اوقات بڑی دلچسپ فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایسا ہی ایک دلچسپ اور چونکا دینے والا واقعہ صوبہ سندھ میں پیش آیا۔ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اور انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ اُردو کے مؤقر روزنامے جنگ کے مطابق ایک کوآپریٹو سوسائٹی کے ایک ذمے دار سندھ کی ایک عدالت میں پیش ہوئے ان پر الزام تھا کہ انہوں نے کچھ لیز پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی تھی۔ دوران سماعت عدالت کے جسٹس صلاح الدین پنہور نے ان رجسٹرار سے دریافت کیا کہ آپ ۱۷ گریڈ کے افسر ہیں۔ یہ فرمائیے کہ آپ نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے۔ موصوف افسر محرم علی ساند نے فرمایا کہ میں نے میتھ( ریاضی) میں بی اے کیا ہے۔ میں لوکل گورنمنٹ میں گریڈ ۱۷ کا افسر ہوں۔ جسٹس صاحب نے فرمایا کہ آپ صرف میتھ کے ہجے بتلادیں۔ ساند صاحب میتھ کے ہجے نہ بتلا سکے جس پر عدالت قہقہوں سے گونج اٹھی۔ منصف محترم نے کہا کہ بی اے تو کالجز میں ہوتا ہے، ساند صاحب نے فرمایا کہ میں نے شاہ لطیف یونیورسٹی سے پرائیویٹ بی اے کیا ہے۔ ساند صاحب اپنی قابلیت سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا شافی جواب نہ دے سکے اور عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔ متاثرین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک اور رجسٹرار کو آپریٹو سوسائٹیز ضمیر عباسی بھی ۱۸ گریڈ کے افسر ہیں لیکن گریڈ ۱۹ میں تعینات ہیں۔ یہ تھی ایک جھلک ہماری حکومت کے عہدیداروں کی۔ یہ نہیں ہے کہ خدانخواستہ ہر افسر سفارشی ہو یا اقرباءپروری سے عہدے پر آیا ہو۔ ہمارے یہاں بہت سے قابل، دیانت دار اور محنتی افسر بھی موجود ہیں۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر سفارشیوں کو بٹھا دیا جاتا ہے وہ لوگ صرف کرسی پر بیٹھ کر کاغذات پر دستخط کرتے ہیں کام ان کے ماتحت سرانجام دیتے ہیں اس طرح عوام کی جو خدمت ہوتی ہو گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ اقرباء پروری، دوستداری اور مفاد پرستی ہر حکومت میں یہی کارنامہ انجام دیتی ہے۔ کوئی بھی حکومت ممبران اسمبلی کی حمایت سے وجود میں آتی ہے۔ نتیجتاً اسے اپنے ہر ممبر کی بات ماننی پڑتی ہ اور جائز یا ناجائز ناقابل افراد کو بھی عہدے دئیے جاتے ہیں۔ ویسے بھی انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے دوستوں، عزیزوں اور معتبر سفارش کرنے والے افسران کے فرستادوں کو مختلف عہدوں پر متمکن کر دے۔ ایسے وقت میں ایمان، انصاف، خوف خدا اور حق پرستی ہی اس کا راستہ روک سکتی ہے۔ ہم خود اس قیامت سے گزرے ہیں۔ پرانی بات یہ ہے کہ ہم اُردو کے ممتحن کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس زمانے میں کراچی سیکنڈری بورڈ کا نظام یہ تھا کہ امتحانی مراکز سے امیدواروں کے پرچے شہر کے ایک کالج میں پہنچا دئیے جاتے تھے وہاں بورڈ کا عملہ ان کے ۲۵، ۲۵ پرچوں کے بنڈل بناتا اور موجود ممتحنوں کے حوالے کر دیتا تھا۔ ۱۰ اساتذہ پر ایک اور استاد نگرانی کے فرائض انجام دیتا تھا اور درجہ اول کے امیدواروں کے پرچے نگران استاد ایک بار دوبارہ دیکھتا تھا۔ ہم نے ایک امیدوار کو اس کی استعداد سے بڑھ کر ۵ نمبر مزید دئیے تاکہ وہ فرسٹ کلاس حاصل کر سکے۔ ہمارے نگران مرحوم پروفیسر حبیب اللہ غضنفر نے ہمیں بلا کر خوب ڈانٹ پلائی۔ ان کے الفاظ آج تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ ’’دانش صاحب اسی ’’غلط بخشی‘‘ نے تو قوم کو اس حال تک پہنچایا ہے۔‘‘ یقینا انسانی فطرت یا حالات کی ستم ظریفی مختلف حکومتوں کو اس غلط بخشی پر اکساتی ہے۔ اکثر مفادات پیوستہ حاکموں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ یہ غلط بخشی کرتے رہیں۔ وہ یہ غلط بخشی کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کر کے عوام کے اعتماد کا خون کررہے ہیں اور معاشرے کو زک پہنچارہے ہیں۔ واضح رہے کہ سفارش یا رشوت کے زور پر عہدہ پانے والے افراد پھر اپنی ’’حیثیت‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ نتیجتاً عوام مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ تمام تعیناتیاں میرٹ اور صرف میرٹ پر ہوں۔ اب سوشل میڈیا اتنا اہم ہو گیا ہے کہ چیزوں کو چھپانا مشکل ہو گیا ہے۔ سفارشی حکام عوام سے ہمدردی تو کجا ان کی بات سننے تک کو تیار نہیں ہوتے ان کے اور عوام کے درمیان ’’رشوت‘‘ یا سفارش ایک پل کا کام دیتی ہے اور یہ ’’وباء‘‘ ہر محکمے میں اپنے پنجے گاڑ دیتی ہے۔ نتیجتاً قانون، دستور، دیانت داری سب اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ خدا ہمیں اس لعنت سے نجات عطا فرمائے۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں