ساٹھ برس پہلے بمبئی کے اس چھوٹے سے تھیٹر کی بڑی سکرین پر وہ اپنے باپ کیساتھ فلمیںدیکھنے جاتا تھا۔ اسی تھیٹر میں اس نے مغل اعظم اٹھارہ مرتبہ دیکھی تھی۔اس فلم کا شاہانہ ماحول‘ اسکے شہزادے‘ شہزادیاں اور طوائفیں‘ اسکے رسیلے گیت اور شاعرانہ مکالمے زندگی بھر اسکے ذہن پر سوار رہے۔ وقت کیساتھ ساتھ بمبئی کے شب و روز بھی بدلتے گئے اور اسکا نام بھی ممبئی ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ انڈین فلموں کی کہانیاں‘ مکالمے اور موسیقی بھی پہلے جیسی نہ رہی مگر وہ چشم تصور میں بمبئی کے النکار تھیٹرز کی سکرین پر پرانی فلمیں ہی دیکھتا رہا۔ وہ فلمیں جو اس نے اپنے باپ کیساتھ دیکھی تھیں۔ اسکا باپ ایک بڑا فلمساز بننا چاہتا تھامگر اسکا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔اتنا ضرور ہوا کہ اسکا بیٹا ایک مشہورو معروف ڈائریکٹر بن گیا۔ اسکی بنائی ہوئی فلمیں انڈیا کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں بھی دیکھی جاتی ہیں۔چند ماہ پہلے سنجے بھنسالی نے ایک انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ اسے آج بھی وہ دن یاد ہے جب اسکا باپ بستر مرگ پر تھا اور اس نے اسے کہا تھا وہ ریشماں کا وہ گیت سننا چاہتا ہے’’ ہایو ربا نیو لگدا دل میرا۔ ‘‘ یہ سنتے ہی وہ بازار سے کیسٹ لینے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اسکا باپ کوما میں جا چکا تھا۔ اسکی ماں نے اسے کہا کہ اپنے باپ کی آخری خواہش پوری کر دو۔ ریشماں کا یہ گیت سنکر اسے بڑا سکون ملے گا۔ سنجے بھنسالی نے کہا ہے کہ وہ گیت آج بھی اسکے کانوں میں رس گھولتا ہے۔ وہ آج بھی یہ سوچتا ہے کہ اسکے باپ کو ریشماں کا یہ گیت کیوں پسند تھا۔ اس سوال کا اس سے بہتر جواب اسے نہیں مل سکتا کہ اسکا باپ کہا کرتا تھا کہ اسکے آبائو اجداد پاکستان سے آئے تھے اور یہ گیت اسے اپنے بزرگوں کی یاد دلاتا ہے۔ اکیاسٹھ سالہ سنجے بھنسالی نے درجنوں شہرہ آفاق فلمیں بنائی ہیں۔ وہ فلمساز اور پروڈیوسر ہونے کے علاوہ میوزک کمپوزر بھی ہے۔ اس نے سات نیشنل فلم ایوارڈ حاصل کیے ہیں جن میں سے پانچ بہترین ڈائریکٹر کے ہیں۔ بھارت کا چوتھا بڑا ایوارڈ ‘ پدما شری‘ بھی اسکے اعزازات میں شامل ہے۔
چند روز پہلے یکم مئی کو سٹریمنگ ویب‘ نیٹ فلیکس پر اسکا آٹھEpisodes پر مشتمل میوزیکل ڈرامہ ’’ ہیرا منڈی‘‘ ریلیز ہوا ۔ امریکہ میں سنجے بھنسالی کے اس شاہکار نے لوگوں کو ” Game of Thrones” کی یاد دلائی ہے تو پاکستان میں پوچھا جا رہا ہے کہ ریڈ لائٹ ایریا تو لکھنؤکا بھی بہت مشہور ہے سنجے بھنسالی نے طوائفوں کا بازار دکھانے کے لیے لاہور کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ ہو نہ ہو‘ بھارت کے دوسرے فلم ڈائیریکٹروں کی طرح سنجے بھنسالی نے بھی پاکستان کا منفی پہلو دکھانے کے لیے لاہور کا انتخاب کیا ہے۔ دلوں کا بھید خدا ہی جانتا ہے مگر سنجے بھنسالی نے چند ماہ پہلے کہا تھا کہ لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں مغلیہ سلطنت کے درباریوں کا آنا جانا رہتا تھا‘ اس اعتبار سے اس شہر کے اس بازار کیساتھ جو شان و شوکت وابستہ ہے وہ ہندوستان کے کسی دوسرے شہر میں نہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لاہور کی طوائفوں نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ انکے بالا خانوں پر نوجوانوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔سنجے بھنسالی نے اس بازار کی خواتین کو تحریک آزادی میں حصہ لیتے ہوے دکھا کر انہیں عام سطح سے بلند کرکے ایک عظیم مقصد سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ بھنسالی نے کہا ہے کہ لاہور میں ان دنوں اتنا کچھ تھا کہ جسکا احاطہ ایک فلم میں کرنا مشکل ہے۔ اسکے لوگوں کا اعلیٰ ذوق ‘ نفیس پوشاک‘ کلا سیکل میوزک اور ڈانس‘ پاور پالیٹکس ‘ حسین و جمیل شہزادے اور شہزادیاں‘ اور طوائفیں بھی ایسی جن پر شہزادیوں کا گمان ہوتا تھا۔بہ الفاظ دیگرلاہور کا بازار حسن مغلیہ دور کی شان و شوکت کا رنگ لیے ہوئے تھا۔ اس لیے آٹھ قسطوں میں بٹی ہوئی سولہ گھنٹے کی اس سٹریمنگ ویب مووی کو صرف لاہور ہی کے بیک ڈراپ میں بنایا جا سکتا تھا۔
بھنسالی نے کہا ہے کہ ممبئی کے سٹوڈیو میں لاہور کی ـ’’ ہیرا منڈی‘‘ کا سیٹ لگانے میں اسے دس ماہ تک مسلسل کام کرنا پڑا۔ انیسویں صدی کے ابتدائی ایام کے لاہور کو آج کے ممبئی میں تخلیق کرنا آسان کام نہ تھا۔ اس زمانے کے بالاخانوں کے درو دیوار‘ انکا مخصوص رنگ روغن‘ کمروں میں لگے ہوے اس دور کے پردے‘ راہداریوں میں آویزاں تصویریں ‘ شہر کی دکانوںکے بورڈ ‘ دیواروں پر لگے پوسٹراور بازاروں میں گھومتے پھرتے اس وقت کے لوگ‘ یہ سب کچھ عدم سے وجود میں لانے کے لیے درجنوں ماہرین اور سینکڑروں ملازمین دن رات اسکے ساتھ کام کرتے رہے۔ سنجے بھنسالی نے کہا ہے کہ اس نے اگر ’’ مغل اعظم‘‘ اٹھارہ مرتبہ نہ دیکھی ہوتی تو یہ فلم نہ بن سکتی۔ اس کہانی کو سکرین پر منتقل کرنے کے لیے اسے بار بار اپنی تصوراتی دنیا میں النکار ٹاکیز جا کر اکبر بادشاہ کے بیٹے شہزادہ سلیم اور اسکی محبوبہ انارکلی کی لافانی محبت پر بنی ہوئی فلم کو دیکھنا پڑا۔
ہر عظیم فن پارے کی طرح ’’ ہیرا منڈی‘‘ میں بھی کئی دور سانسیں لے رہے ہیں‘ کئی دنیائیں اس میں آباد ہیں۔ بادشاہوں‘ شہزادوں‘ شہزادیوں اور طوائفوں کی زندگیاں اس میوزیکل ڈرامے میں گڈ مڈ ہوتی نظر آتی ہیں۔ سنجے بھنسالی کا یہ تبصرہ چونکا دینے والا ہے کہ یہ فلم اسکے گیتوں بھرے ناسٹیلجیا کا پرتو ہے‘ ایسا عکس‘ ایسی کہانی جسکا سلسلہ النکار ٹاکیز کے چھوٹے تھیٹر کی بڑی سکرین سے جڑا ہوا ہے۔
0