یہ ان پاکستانیوں کے نام ایک پیغام ہے جو وطن عزیز میں روزگار حاصل کرنے میں نا کام ہو کر بیرون ملک روزی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ہر سال لاکھوں پاکستانی کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور باہر جا کر کسی نہ کسی روزگار میں مشغول بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس کاروائی پر کچھ لوگ ناراض اور کچھ خوش ہو جاتے ہیں۔ خوش ہونے والوں میں گھر والے ہوتے ہیں جنہیں باہر سے اچھی آمدنی کی امید بندھ جاتی ہے کہ جانے والے کے بھائی بہن سکول جا سکیں گے یا جن کی شادی ہونی ہے ان کے لیے اخراجات کا بند و بست ہو جانے کی امید بندھ جاتی ہے۔اگر جانے والا ماں باپ اور کنبہ کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا تو آس اور بھی بڑھ جاتی ہے اور جانے والے کو ہدایت دی جاتی ہے کہ فوراً نوکری ڈھونڈ کر باقاعدگی سے ہر ماہ کچھ رقم گھر والوں کو بھجوایا کریں۔سب سے زیادہ خوشی ان کو ہوتی ہے جو ان کی آمدنی سے زر مبادلہ وصول کرتے ہیں، جس سے ان کی عیاشیاں ، بیرونی سفر اور درآمدات ممکن ہو تی ہیں۔ افسوس کرنے والا بھی ایک گروہ ہے، وہ سرکاری اہلکار جن کو بھتہ ملنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اور وہ سرمایہ دار جو ان کی سستی مزدوری سے فائدہ نہیں اٹھا سکیںگے۔
اکثر باہر جانے کے شوقین نوجوان تعلیم، ہنر اور پیشے کی دولت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ زیادہ تر امارات اور سعودی عرب میں جانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہاں عربی جانے بغیر بھی گذارا ہو جاتا ہے۔
اکثر آنے والے وہ نوجوان ہوتے ہیں جن کے کوئی عزیز، احباب یا جاننے والے ان کو بلا لیتے ہیں اور کچھ خوش نصیبوں کو عمارتی تعمیر کے منصوبوں پر جسمانی مشقت کی ملازمت بھی مل جاتی ہے۔ کیونکہ امارات میں تیل ، سیاحت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمدنی بہت ہوتی ہے توتعمیراتی کام بہت ہوتا ہے جس میں مزدوروں کی کافی کھپت ہوتی ہے۔اجرت گو کہ کم ہوتی ہے پھر بھی پاکستان سے دوگنی یا تین گنی۔ نو وارد اکثر اپنے جاننے والوں کے ساتھ ہی رات کو سونے کا بند و بست کر لیتے ہیں، جو ایک کمرے میں دو یا تین تلہ بستر پر سوتے ہیں۔یہی طریق کار تقریباً ہر ملک میں ہے۔ پھر یہ نوجوان اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ واپس پاکستان اپنی فیملیز کو بھیجتے ہیں جس سے بہوتوں کا بھلا ہوتا ہے۔گھر والے ان کے بچوں اورچھوٹے بہن بھائیوں کو اچھے سکولوں میں پڑھاتے ہیں، ان کے لیے زمین خریدتے ہیں یا مکان بناتے ہیں۔ بہن بھائیوں کی شادیاں کروائی جاتی ہیں ۔قرضے اتارے جاتے ہیں اور جب سال دو سال کے بعدگھر آتے ہیں تو تحفے لاتے ہیں۔ یا اس موقع پر ان کی شادی کر دی جاتی ہے اور وہ ایک ماہ گزار کر واپس کام پر حاضر ہو جاتے ہیں ۔اس طرح بچوں کی پیدائش میں دو سال کا وقفہ ہوتا ہے جو حکومت کے خاندانی منصوبہ بندی والوں کا مشورہ بھی ہے۔ذرا سوچنے کی بات ہے کہ پانچ چھ دہائیوں سے ایک بالکل نیا معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے جس سے ہمارے ماہرین عمرانیات اور سماجیات تقریباً لا تعلق نظر آتے ہیں۔ البتہ ان کے زر مبادلہ کی ترسیلات پرجو نظر پاکستان کے ماہرین اقتصادیات اوروزارت خزانہ، سٹیٹ بینک اور حاکموں کی ہے ، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اس لیے کہ پاکستان جتنا زر مبادلہ برآمدات سے نہیں کماتا اس سے زیادہ رقم بیرون ملک مزدوری کرنے والے پاکستان کو بھیج دیتے ہیں۔ یہی کوئی تیس بلین ڈالر کے قریب۔
کوئی تیس چالیس سال سے تو بے چارے نوجوان مزدور پاکستانی اداروں اور سفارت خانوں میں دھکے کھاتے رہے پھر حکومت نے کم از کم دکھاوے کے لیے ایک نئے ادارے کا قیام کیا جسے اوورسیز پاکستانیوں کی خدمت کے لیے بنایا گیا۔ غالباً اس لیے کہ مزدوری کرنے والوں کو سب سے زیادہ مسائل پاکستان میں ہوتے ہیں۔ زمینوں، جائدادوں کے مقدمات میں اور ترسیلات زر کے لین دین میں ہزاروں تکالیف پوشیدہ ہیں، جن میں وقت اورروپیہ سب کا ضیاع ہوتاہے ۔اس محکمہ کے سات ڈپارٹمنٹ ہیں۔ ان میں درجنوں افسر ہیں جو لاکھوں پاکستانیوں کے دکھوں کا حتیٰ المقدور مداوا کرتے ہیں۔جیسے باقی کے پاکستانی ادارے۔لیکن وہ بے چارے بھی کیا کریں کیوں کہ ان پاکستانیوں کے مقدمے تو ایسی جگہ پھنسے ہوتے ہیں جہاں اس ادارے کا حکم نہیں چلتا۔البتہ پاکستانی سرکاری ملازم اس معاملے میں بیرون ملک کام کرنے والوں کو مٹھی گرم کر دینے سے ہر دروازہ کھول دیتے ہیں۔ جو نہ دے تو اس کا دروازہ کبھی نہیں کھلتا۔اس طرح ہر سرکاری اہلکار ان بے چارے اوورسیز پاکستانیوں کو جتنا نچوڑ سکتا ہے نچوڑتا ہے۔
پاکستانی ہر سال لاکھوں بچے پیدا کرتے ہیں، اس لیے ان میں سے کچھ باہر چلے جائیں تو پاکستان میں انسانی وسائل میں کوئی نمایاں کمی نہیں ہوتی۔مسئلہ کچھ اور ہے۔ پاکستانی تعلیمی نظام ان نوجوانوں کو ایسے ہنر نہیں دیتا جن سے انہیں بیرون ملک اچھی اور جلدی ملازمت مل سکے۔ پاکستانیوں کے مقابلے میں جب بھارتی امیدوار آتے ہیں تو ان کو سفید کالر والی، اچھی تنخواہ والی دفتری نوکریاں مل جاتی ہیں۔ اور پاکستانی بے چارے اینٹیں ڈھونے اور عام مزدوری کے کام کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ٹیکسیاں چلاتے ہیں یا کوئی زراعتی مشینری۔اگر کوئی ہنر سیکھتے ہیں تو وہ بھی کام پر۔ دن بھر محنت کرنے کے بعد ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ کہ کسی سکول میں جا کر کوئی تعلیم حاصل کریں یا کوئی تربیت لیں۔ نہ ہی وہاں ان کو کوئی صحیح مشورہ دینے والا ہوتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کو اس زر مبادلہ کی فکر تو ہے جو یہ نوجوان وطن بھیجتے ہیں لیکن اس کے علاوہ انہیں اس کام کے لیے تیار کرنے میں شاید ہی کوئی کام کیا جاتا ہو۔ ان کو تو نئے سینیٹری یونٹس استعمال کرنا بھی نہیں سکھایا جاتا۔نہ ہی صحت عامہ کے اصولوں، جیسے جنسی بیماریوں سے بچنے کے طریقوں،سے متعارف کروایا جاتاہے۔ اور نہ ہی انہیں کوئی مالی تعلیم دی جاتی ہے جس سے اپنی کمائی کو بچانے، منافع بخش بینک اکائونٹس میں رکھنے اور ترسیل زر کے محفوظ اور کم خرچ ذرائع کے بارے میںآگاہی ملے۔ اور نہ ہی مہمان ملک کے عام قوانین، رہن سہن کے طور طریقوں کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ وہ یہ سب کچھ اپنے دوستوں اور واقفوں سے سیکھتے ہیں جو ضروری نہیں کہ سب کچھ جانتے ہوں۔
باہر جانے والے وہ نوجوان بھی ہیںجنہوں نے کچھ تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اور تھوڑی انگریزی سمجھ لیتے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں روزگار تلاش کرتے ہیں، جن میں تقریباً دنیا کا ہر ملک شامل ہے لیکن آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ سر فہرست ہیں۔امریکہ جسے ریاستہائے متحدہ امریکہ کہتے ہیں، وہاں آنے کے لیے لوگ کئی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ تو اپنے ہنر کی وجہ سے سیدھے ویزا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جیسے ڈاکٹر، نرسیں، سائینس اور ریاضی کے استاد، یا کوئی اور ایسے ہنر جن کا امریکی لیبر ڈپارٹمنٹ گاہے بگاہے اعلان کرتا رہتا ہے ۔ایک خاص تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو تفریحی ویزا پر امریکہ آتے ہیں اور پھر ان کا دل ایسا لگ جاتا ہے کہ واپسی کا سفر بھول جاتے ہیں۔یا کچھ لوگ ویزے کی قرعہ اندازی میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ طالع آزما بغیر ویزا کے راستوں پر بچ بچا کر غیر قانونی نقل مکانی کرتے ہیں۔
کمپیوٹر سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی ایک کروڑ کے قریب پاکستانی بیرون ملک رہتے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف سے کچھ کم عرب ممالک میں ہیں۔ مثلاً سعودی عرب میں تقریباً ۱۸ لاکھ سے اوپر پاکستانی ہیں۔ بحرین میں ایک لاکھ سترہ ہزار ہیں۔ کینیڈا میں تین لاکھ سے کچھ اوپر پاکستانی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے پاکستان کے کنبے ان کارکنوں کی کمائی پر گذر بسر کر رہے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس 8.6لاکھ پاکستانی حصول رزق کی خاطر وطن چھوڑ گئے، یہ ۲۰۱۵ء سے سب سیبڑی تعداد بتائی گئی ہے۔ جو ملک میں کساد بازاری اور ڈوبتی ہوئی معیشت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں ساڑھے ستائیس لاکھ نوجوان ملک چھوڑ گئے۔لعنت ہو ہمارے قائدین پر جنہوں نے ملک کو ایسے برے اقتصادی حالات سے دو چار کر دیا ہے۔محکمہ کے مطابق، عرب ممالک کے بعد پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد برطانیہ میں ہے اس کے بعد امریکہ میں، جہاں انکی کثرت نیو یارک، نیو جرسی، شکاگو، ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی ایک بہت ا چھی بات بھی سنئے۔ جب بھی پاکستانی ملک سے قدم باہر رکھتے ہیں، بلکہ جب جہاز میں بیٹھ جاتے ہیں تو ان کا رویہ بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔جب غیر ملک میں رہن سہن شروع کر تے ہیں تو ان کا چال چلن بھی ویسا ہو جاتا ہے جسے کہتے ہیں جیسا دیس، ویسا بھیس۔ اگر پاکستان میں انہیں قطعاً ٹریفک کے قوانین کا خیال نہیں ہوتا تو دوسرے ملک میں لال بتی پر رک جاتے ہیں اور سٹاپ سائین پر بھی۔ اس لیے نہیں کہ اچانک وہ فرماں بردار شہری بن جاتے ہیں ، بلکہ اس لیے کہ ان ممالک کے پولیس مین چند سکوں کی خاطر آپ کو چھوڑ نہیں دیتے بلکہ وہ آپ کو سرکاری ملازم کو رشوت دینے پر گرفتار بھی کر سکتے ہیں۔ خیر یہ تو ٹریفک کی بات تھی۔ یہ اپنے کام کی جگہ بھی ایمانداری سے اور محنت سے کام کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنا بھی کم یا ختم کر دیتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں میں نے کم ہی سنا ہو گا کہ کوئی پاکستانی کسی جرم میں ملوث پایا گیا ہو۔ بلکہ یہ سننے میںآتا رہتا ہے کہ کسی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے کسی کا قیمتی سامان، یا بٹوہ یا بیگ مالک کو پہنچا دیا۔ایک اور اچھی بات۔ یہ بازار میں یا شاپنگ مال میں کھڑے عورتوں کو نہیں گھورتے جیسے کہ عام پاکستانی مرد ،گلی محلوں میں ، دوکانوں اور کسی بھی پبلک جگہ پرعورتوں اور لڑکیوں کو تب تک گھورتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتیں۔مغربی معاشروں میں جہاں عورتیں نیم برہنہ بھی اگر گھوم رہیں ہوں تو مرد اور نوجوان ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالتے ہیں کیونکہ گھوررنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے۔اگر کوئی خاتون آپ کو بہت پسند آئے تو بہتر طریقہ ہو گا کہ اس کو جا کر باقاعدہ سلام کریں اور کوئی چھوٹا موٹا سوال کریں، جیسے، معاف کیجئے مجھے مین سٹریٹ جانا ہے کیا آپ مجھے راستہ بتا سکتی ہیں؟ اگر سوال مناسب ہو تو اکثر خواتین شائستگی سے جواب دیں گی۔ اب آپ بات کو بڑھانا چاہیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر خاتون کو آپ میں دلچسپی نہ ہو تو وہ بھی کہے گی۔ معاف کیجئے، میں اس وقت جلدی میں ہوں۔اور اگر آپ شادی شدہ ہیں تو بلا وجہ تعلقات بنانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس کے نتائج غیر متوقع بھی ہو سکتے ہیں۔معاملہ بہت تیزی سے پولیس تک چلا جاتا ہے۔
جب ہمیں یہ حقیقت پتہ چلتی ہے کہ ہمارے ملک کی معاشی اور معاشرتی زندگی کے لیے بیرون ملک کام کرنے والے کتنا اہم کرداد ادا کر رہے ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس اہم شعبہ پر مناسب توجہ دیں۔ نہ صرف ان افراد کے مسائل حل کرنے میں، اس کے ساتھ ساتھ ان افراد کی اہلیت بڑھانے، ان کی اہلیت کو ضرورت کے مطابق ڈھالنے ، مستقبل میں ان کی کھپت کے امکانات روشن کرنے میں ، اور ایسی مارکیٹ کا سراغ لگانے میں جہاں پاکستانی نوجوان بہتر، مثبت اور اہم کردار ادا کر سکیں۔مثلاً عمرانی جائزوں سے یہ ابھی بھی تعین کیا جا سکتا ہے، کہ مستقبل قریب میں یا بعید میں کہا ں کہاں کارکنوں کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ ان حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد پاکستانی نوجوانوں کی مناسب تربیت کے مواقع پیدا کیے جائیںجن میں مختلف ہنر، اور باتیں بھی شامل ہوں۔اور ایسے ملکوں کی معاشرت اور رہن سہن کی معلومات بھی۔کیا ایسا ہو رہا ہے، لگتا تو نہیں پر شاید؟۔ وزارت اوورسیز پاکستانی میں کوئی منصوبہ بندی کا ڈپارٹمنٹ نہیں ہے۔ البتہ پاکستان میں قومی اور صوبائی سطح پر منصوبہ بندی کے محکمے ہیں لیکن یہ ان کے فرائض میں یقیناً شامل نہیں۔ چاہیے تو یہ کہ ملک کی اعلیٰ درس گاہوں میںاوورسیزپاکستانیوں پر ایک کورس رکھا جائے جس میں تحقیقی مقالے لکھے جائیں۔بیرون ملک جا کر تحقیق کرنے پر سکالرشپ دیئے جائیں۔راقم بھی کیا خواب دیکھ رہا ہے؟ ابھی تو ملک میں روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
0