0

سچ کا بول بالا، قاضی کامنہ کالا، ساتھی ججوں نے قاضی فائز عیسیٰ کو پسپائی پر مجبور کر دیا

اس ہفتے جب عدالتی فیصلوں میں فوج اور آئی ایس آئی کی بلیک میلنگ کے حوالے سے دی گئی چھ ججوں کی درخواست پر پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے سوموٹو نوٹس پر سماعت شروع ہوئی تو یوں معلوم ہوا کہ قاضی صاحب کے سارے ہم خیال ساتھی ججوں نے بھی بغاوت کر دی ہو۔یہ عدالتی کارروائی پاکستان سمیت پوری دنیا میں براہ راست ٹی وی سکرینز پر دیکھی جارہی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے دعویٰ کیا ہے کہ عدلیہ میں فوج کی خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور دبائو، ان کے چیف جسٹس بننے سے پہلے کی بات ہے حالانکہ ان کی اور پوری دنیا کے سامنے اس وقت بھی اسلام آباد کے جسٹس بابر ستار کے دبنگ فیصلوں سے تنگ آ کر فوج اور حکومت کی ساری خفیہ اور اعلانیہ ایجنسیاں ان کے خلاف بہت ہی غلیظ مہم چلارہی ہیں لیکن قاضی صاحب کو یہ کھلی مداخلت نظر نہیں آرہی۔ قاضی عیسیٰ صرف وہ دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ قاضی صاحب صرف وہ سنتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔ بنچ کی اس پوری کارروائی کے دوران یوں لگا کہ جیسے وہ جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی اور ایف آئی اے کے سرکاری وکیل کی حیثیت سے وکالت کررہے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ان کو ایکسٹینشن کیسے ملے گی۔ اس کارروائی کے دوران تمام ملکی ہائی کورٹس سے کہا گیا تھا کہ وہ بھی اگر کوئی مداخلت ہورہی ہے تو اپنے تحفظات بیان کریں۔ تقریباً تمام پانچویں کورٹس نے بیان کیا کہ ان کے ہاں خفیہ ایجنسیاں مداخلت کرتی ہیں اور اب بھی مداخلت کررہی ہیں مگر قاضی صاحب کی بینائی اسے دیکھ نہیں پارہی ہے کیونکہ وہ حافظ جی کی نظروں کاچشمہ پہنے ہوئے ہیں۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے خط میں کہا گیا ہے کہ فوج کی خفیہ ایجنسیوں اور جنرلوں کے اس بیل کو اب سینگوں سے پکڑنا پڑے گا تاکہ عدلیہ میں مداخلت کا یہ سلسلہ بند ہو۔ اور اس پروپوزل میں آخر میں اکبر الہ یاری کا یہ شعر لکھا گیا ہے جس کے بعد کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ شو ہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
بیچاری بلوچستان ہائی کورٹ کے نوٹ پر ہمیں معروف شاعر سیف الدین سیف کے لکھے ہوئے فلم انجمن اس گیت کا مکھڑا یاد آگیا
اظہار بھی مشکل ہے، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اف اللہ چپ رہ بھی نہیں سکتے
اور یہ حقیقت بھی ہے کہ پچھلے پچھتر سالوں میں فوج کے چند جنرلوں نے عدلیہ، کوٹھے کی اس طوائف کی طرح بنا دیا ہے جو اپنی تنخواہ کی خاطر چند سکوں کے عوض ہیرا منڈی میں مسلسل رقص کرانے پر مجبور ہے۔ جس طرح سے ایک دلال، گاہکوں کو پکڑ پکڑ کر کوٹھے پر لیکر آتا ہے، اسی طرح سے آج عاصم منیر اپنے مخالفین کو پکڑ پکڑ کر عدلیہ کے سامنے پھینکنا ہے تاکہ عدالت سے اپنی مرضی کے فیصلے لئے جاسکیں۔ سب سے خطرناک بات جس کی نشاندہی پشاور ہائیکورٹ کے خط میں کی گئی ہے۔ اس نے دنیا کے سامنے پاکستان کی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کا مشکوک کردار عیاں کر دیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ججز نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی نے ایک کیس میں ان پر سخت دبائو ڈال کر ان کی مرضی کا فیصلہ کرانے کی کوشش کی مگر عدالت نے جو صحیح فیصلہ قانون کے مطابق بنتا تھا وہ ہی دیا۔ اس کے بعد ان ججوں کو افغانستان سے قتل کی دھمکیاں آنا شروع ہو گئیں جو طالبان کی جانب سے دی جارہی تھیں۔ اس بات سے یہ خیال پیدا ہونا لازمی ہے کہ کیا پاکستان کے خفیہ اداروں اور طالبان دہشت گردوں کے مابین ایک قسم کا دوستانہ معاہدا ہوا ہے کہ جب جنرل چاہیں وہ ان کی تابعداری کرتے ہوئے قدم اٹھائیں گے؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طالبان دہشت گردوں اور فوج کے درمیان اسی تعاون کا نتیجہ ہے کہ جب سے ملک میں عمران خان کی حکومت گرائی گئی ہے اور جب سے KPKمیں پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، ملک میں اور خاص طور پر خیبرپختونخوا میں طالبان دہشت گردوں کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اگر فوج نے میڈیا میں آ کر اس کی تردید نہیں کی یا آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس تعاون کی وضاحت نہ کی تو پھر نہ صرف افواج پاکستان کیلئے بلکہ حکومت پاکستان اور ریاست پاکستان کیلئے بھی باعث ندامت ہو گا۔ اس بنچ کی کارروائی کے ذریعے بقول جج اطہر من اللہ جو کہ ایک چارج شیٹ ہے عدلیہ کیلئے، ہمارا قاضی فائز عیسیٰ کو یہ مشورہ ہو گا کہ اب بھی اپنی عاقبت سنوار لیں اور جنرل عاصم منیر کا دھگڑ دلہ بننے کے بجائے انصاف کی طرف توجہ دیں۔ ویسے امید کم ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں نہ کہ عمر رسیدہ کتے کو نئی تراکیب سکھانا مشکل کام ہوتا ہے، مگر آپ کو بتائیں کے چھ ججوں نے نئی ترکیب استعمال کر کے انہیں قوم اور دنیا کے سامنے الف ننگا کر دیا ہے!۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں