0

پولیس گردی کے پیچھے کون ہے؟

’’یہ 12جولائی ،سن 2010کا دن تھاکہ اللہ رکھا کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے پولیس کی گولی سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کسی فریق نے اس واقعہ کی حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ پولیس افسروں نے اس دن 24 سالہ شہباز کو قتل کیا۔اگر کسی بات پر اختلاف تھا تو وہ یہ کہ کن حالات میں وہ ہلاک ہوا اور اس کی کیا وجوحات تھیں کہ پولیس نے اس پر گولی چلائی؟ اللہ رکھا کا بیان تھا کہ شہباز بالکل نہتا تھا اور پولیس نے بلا وجہ اس پر گولی چلائی۔پولیس کا کہنا تھا کہ وہ مجرموں کا پیچھا کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے دفاع میں گولی چلائی کیونکہ شہبازنے ان پر حملہ کیا تھا۔اب چھ سال گذر چکے ہیں اور اللہ رکھا کو آج بھی انتظار ہے کہ اس کو انصاف ملے گا۔ اس قتل کے کئی عینی شاہد گواہ ہیں۔نہ صرف پولیس نے میرے بیٹے کا قتل کیا ، انہوں نے اس کو بد نام کرنے کی بھی کوشش کی جیسے وہ کوئی مجرم تھا۔ وہ ہر گز مجرم نہیں تھا۔‘‘
انسانی حقوق کی نگہداشت کے ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق، پولیس کے جائزے لینے والوں اور حکومت کے احتساب اورقانون نافذ کرنیوالے اداروں کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کا محکمہ نہ صرف لوگوں میں خوف و ہراس بڑھاتا ہے، اس کی شکایات بھی سب سے زیادہ ہوتی ہیں اور یہ حکومتی اداروں میں سب سے کم قا بل بھروسہ ادارہ ہے۔اس میں نہ صرف کسی شفاف احتسابی نظام کا فقدان ہے، اس میں کرپشن بھی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ضلعی سطح پر، پولیس اہلکاراکثر مقامی طاقتور سیاستدانوں، جاگیر داروں اور دیگر با اثر حضرات کے تابع ہوتے ہیں۔پولیس کا ملزموں کے غیر قانونی قتال اور زیر حراست ملزمان پر اقبال جرم کروانے کے لیے جسمانی تشدد کرنے کی ، اور ان لوگوں کے خلاف جو قانون نافذ کروانے والے اداروں کے ملازمین پر ہراسیمگی اور رشوت طلب کرنے کے الزامات کی، بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔
گذشتہ دو سالوں میں پاکستان کی پولیس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کی وہ مثال پیش کی ہے جو شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی ہو۔پولیس نے تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں پر بہیمانہ تشدد کیا، ان کو گرفتار کیا اور بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ٹھونس دیا اور اس میں مرد و زن کی کوئی رعایت نہیں کی۔ایسے ایسے شرمناک واقعات سننے کو ملے کہ انسان سوچتا ہی رہ جائے کہ جو ادارہ عوام کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا وہی ان کواذیت دینے کا سبب بن گیا۔اس رپورٹ میں تحریر ہے کہ’’ بہت سے پولیس افسروں نے انسانی حقوق کی نگہداشت کے ادارے سے کھل کر اقرار کیا کہ وہ جھوٹے اور بناوٹی پولیس مقابلے کر کے ہلاکتیں کرتے رہے ہیں، جن میں پولیس نے جھوٹے مسلح مقابلوں کے ڈرامے رچا کر ایسے افراد کو ہلاک کیا جو پہلے ہی پولیس کی تحویل میں تھے۔ایسی ہلاکتیں اکثر اوپر سے یا مقامی با اثر شخصیا ت کے دبائو کے باعث کی گئیں یا اس لیے کہ پولیس ایسے ملزمان کے خلاف شہادتیں اکٹھی کرنے میںنا کام تھے۔ایسی ہلاکتوں پر شاذ و نادر ہی پولیس والوں کی تفتیش ہوتی ہے، اور مقتول کے ورثا کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ خبردارپولیس کے خلاف مقدمہ دائر کرے۔ ورنہ انہیں ہراسان کیا جائے گا یا جھوٹے بیان دینے کا الزام لگایا جائے گا۔‘‘ ’’اس صورت حال کی ذمہ وار اداروں کی نا پختگی، تربیت اور وسائل کی کمی، ضروری رقوم کی کمی، کام کرنے کا ماحول نہ ہونا، اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطہ نہ ہونا، جن کی وجہ سے پولیس میں شفافیت اوراحتساب نہیں ہوتا۔ان سب مسائل کے ساتھ ساتھ بڑے افسران کے بے جا دبائو سے حالات اور بھی خراب ہوتے ہیں۔‘‘
سب سے پہلے ذرا پولیس کی تربیت پر نظر ڈالیں۔ پولیس والوں کی بنیادی تربیت ملک بھر میں بنی ہوئی تربیت گاہیں ہیں جن میں پولیس کی بنیادی تربیت کی جاتی ہے۔اس میں بہت سے مضمون پڑھائے جاتے ہیں، جیسے قانون کے نفاذ کے طریقے، مجرموں کی تفتیش کرنا، محلہ اور علاقے میں پولیس کا طریق کار، انسانی حقوق وغیرہ۔ بنیادی تربیت کے علاوہ، خصوصی تربیت بھی دی جاتی ہے، جیسے دہشت گردی کے خلاف ، ٹریفک کا نظم و نسق، کمپیوٹر سے متعلق جرائم، فورینزک سائینس اور بحران کا مقابلہ، وغیرہ۔ ان کے علاوہ تربیت کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے گاہے بگاہے کورسز ہوتے رہتے ہیں، جن میں پولیس افسروں کو نئے قوانین ، اور کام سے متعلق نئے طریق کار سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
پولیس میں کام کرنے والوں کے لیے قوائد و ضوابط کا ایک ضابطہ کار کردگی موجود ہے، جس کے بنیادی نقاط ہیں: پیشہ کا اخلاق۔ پولیس افسروں کو پیشہ کی اعلیٰ اقدار پر کار بند رہنے، عوام اور ساتھی پولیس والوں سے تعلقات کا طریق کار،اس میں شامل ہیں تمام لوگوں سے عزت و احترام کے ساتھ سلوک کرنا، اور اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دینا۔اور کسی قسم کی کرپشن، رشوت اور بد عملی سے بچنا۔پولیس والوں سے قانون کے نفاذ میں بلا تعصب اور غیر جانبدارانہ سلوک کی توقع کی جاتی ہے۔ انہیں بلا امتیاز مذہب، نسل، ذات اور سماجی رتبہ کے کام کرنا چاہیے۔پولیس افسر اپنے قول و عمل کے احتساب کے لیے تیار رہیں۔ ان پر قانون اورادارے کی حکمت عملی کے خلاف حرکات پر جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔پولیس کی تربیت میں انسانی حقوق کے احترام اور علمبرداری کو ضروری بنایا گیا ہے۔اس میں ملزمان ،زیر حراست افراد، اور جرم کاشکار ہونے والے افراد سب شامل ہیں۔اس کے مطابق، تمام افراد کے ساتھ احترام کا رویہ اور قانون کے مطابق سلوک لازمی ہے۔ ان کے علاوہ اہل علاقہ کے عوام کے ساتھ عزت و احترام کا رشتہ استوار کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔تا کہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار ہوں۔اس سے مثبت اورپُر اعتمادتعلقات بنتے ہیں۔ اس ے پولیس اور عوام میں اعتماد اور تعاون کی فضا بنتی ہے جو جرائم میں کمی اوران کے حل میں مدد دیتی ہے۔
پولیس کے محکمہ میں اندر کا، محکمہ جاتی احتسابی نظام موجود ہے جو پولیس کے قوائد و ضوابط کو توڑنے والے افسروں کا احتساب کرتا ہے۔اس میں نظم و نسق توڑنے پر افسروں کی جوابدہی کی جاتی ہے۔اس میں تفتیش،نظم و نسق، اور سزائیں شامل ہیں جیسے تنبیہ اور نوکری سے برخاستگی۔اس کے علاوہ بیرونی نگہداشت کے محکمے بھی ہیں جیسے پولیس کے خلاف دفتر شکایات، یا امبڈسمین، جو شکایات پر تفتیش کرتے ہیں، اور احتساب کو یقینی بناتے ہیں۔ان سب کے باوجود، پولیس کی مبینہ زیادتیوں پرمحکمہ جاتی احتسابی عمل کا تذکرہ کم ہی سنائی دیتا ہے۔غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پولیس کی زیادتیاں اور قوائد و ضوابط کا توڑنا اوپر سے آنے والی ہدایات پر ہوتا ہے تو نیچے والوں کو کون کچھ کہے گا؟
پاکستان کے قوانین جو فوجداری معاملات پر ہیں، وہ پولیس آفیسروں کے کارناموں کا احاطہ بھی کرتے ہیں۔ان میں عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔اس میں خصوصی شقیں بھی ہیں جن کا اطلاق تشدد اور اپنی قوت کے نا جائز استعمال پر ہوتا ہے۔ مثلاً سیکشن 1330یسے جرائم سے متعلق ہے جو کسی ملزم سے اگلوانے کے لیے، اس پر تشدد کیا جائے۔سیکشن 331 کے تحت کسی کو انتہائی اذیت دے کر الزام قبول کروانا یا اثاثوں کا کھوج لگانا ہے۔ جو پولیس افسر کسی کو انتہائی اذیت دیکر جرم قبول کروائیں تو ان پر اس سیکشن کا اطلاق ہوتا ہے۔سیکشن 342کسی بھی شخص کو بلاجواز نظر بند کرنے پر لگائی جاسکتی ہے۔سیکشن 348خاص اس وقت لگائی جاتی ہے جب پولیس کسی کو جرم قبول کروانے یا اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے مار پیٹ کریں اور قید میں رکھیں تو یہ سیکشن لگتی ہے۔ سیکشن 365کا اطلاق کسی کو چھپا کے اور بلا جواز حراست میں رکھنے کے لیے اغوا کیا جائے تو اس صورت میں پولیس پر چارج لگ سکتا ہے۔ سیکشن 375 پولیس پر کسی پر زنا بالجبر کرنے پر لگتی ہے۔یہ تو صرف کچھ دفعات ہیں ، ان کے علاوہ بھی اور قوانین ہیں جن کا اطلاق انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ہوتا ہے۔
ایک اہم سوال ہے کہ کیا پاکستانی پولیس اپنے حاکم افسروں کے ایسے احکامات کو رد کرنے کی مجاز ہے جو غیر قانونی ہوں؟ جواب ہے کہ ہاں۔ پاکستانی پولیس افسر کا فرض ہے کہ نا جائز احکامات کو رد کریں۔پولیس افسروں کا اولین فرض شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔اگر کسی پولیس افسر کو ایسا حکم ملے جو غیر قانونی ہو، غیر آئینی ہو، یا انسانی حقوق کی نفی کرتا ہو، تو انکا فرض ہے کہ اس کو نہ مانیں۔پولیس آرڈر 2002 کا مقصد ہی پولیس کے نظام کو درست کرنا تھا جس میں ایسی دفعات شامل تھیں جن کے مطابق پولیس کو قانون ، آئین اور اخلاقی حدود میں رہ کر کام کرنا تھا۔ ا ن قوانین کے علاوہ پاکستان پولیس پر بین الاقوامی قوانین بھی لاگو ہوتے ہیں جو انسانی حقوق کی حفاظت پر ہیںاور انہیں غیر قانونی احکامات پر عمل درآمدکو رد کرنے کی توقع کر تے ہیں۔البتہ اس کے لیے ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں اچھے افسروں کی حوصلہ افزائی ہو اور ان کو تحفظ ملے۔
گذشتہ دو تین برسوں میں، پولیس نے پاکستان کے طول و ارض میںاس قدر دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ انہوں نے انسانی حقوق کی پامالی اور ہماری سماجی اقدار کی وہ دھجیاں اڑائی ہیں کہ ہماری سوچ سے باہر ہے۔ خصوصاًجو چادر اور چار دیواری کے ساتھ غیر انسانی اور غیر قانونی سلوک کیا جا رہا ہے وہ نا قابل معافی ہے۔ابھی خبر ہے کہ بھاولنگر کی پولیس نے حسب عادت جا کر ایک گھر پر چھاپہ مارا اور پردہ دار خواتین کو بے عزت کیا، اور ان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ گھر کسی حاضر سروس فوجی کا تھا۔بس کچھ ہی دیر کے بعد بے شمار گاڑیاں فوجیوں کی آ گئیں اور پھر جو انہوں نے پولیس والوں کی وہ دھلائی کی کہ بقول شخصے، مزہ آ گیا ۔ایسا لگتا تھا کہ سانپ اور بچھو کی جنگ ہو گئی ہے۔معاملہ بالآخر صلح صفائی پر ختم کیا گیا لیکن اس واقعہ نے جو دلوں پر نقش چھوڑے ہیں ان کو مٹنے میں عرصہ لگے گا۔اس پولیس گردی کے ذمہ وار، صاف ظاہر ہے ،کہ اوپر والے ہیں۔ اگر ذرا کریدا جائے تو معاملہ سیاسی حکومت اور اس سے بھی آگے جا پہنچے گا، ورنہ پولیس کے اعلیٰ افسران بھی قانون اور آئین کی ایسی کھلی خلا ف ورزی کیسے کر سکتے ہیں؟ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں