0

فلاحی ادارے!

ملبے کا ڈھیر
ہے یہ پیغامبر تباہی کا
اب یہ سب ہیر پھیر کیا دیں گے
جانتا کیا نہیں ہے اسرائیل
اس کو ملبے کے ڈھیر کیا دیں گے!

ہر چند کہ دنیا بھر میں فلاحی حکومتوں اور مملکتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کریں یہ فلاحی مملکتیں حتی الامکان اپنے شہریوں کی مدد بھی کرتی ہیں اور انہیں روزگار، صحت اور تعلیم بھی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی مختلف انداز کے فلاحی ادارے موجود ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کے ضرورت مندوں کی بہت سی ضروریات پوری کرنے کے لئے فعال ہیں بلکہ پوری دنیا میں آفات ارضی و سماجی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے اپنی پوری صلاحیتیں وقف کر دیتے ہیں۔ مختلف اخبارات و رسائل خصوصاً ٹیلیفویژن پر ان اداروں کی اپیلیں اور درخواستیں مستقل اور مسلسل نظر آتی ہیں اور صاحب استطاعت ان درخواستوں اور اپیلوں کے جواب میں ان فلاحی اداروں کی مدد کرتے ہیں۔ کچھ صاحبان خیر تو کسی مخصوص فلاحی ادارے کے لئے اپنے بینکوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ ہر ماہ فلاں ادارے کو اتنی مخصوص رقم ادا کی جاتی رہے۔ یہ تو ہے ترقی یافتہ اور اول دنیا کے ممالک کا حال، ترقی پذیر ممالک میں صورت حال مختلف ہے وہاں نہ حکومتوں کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کی ہر ضروری احتیاج کو پورا کر سکیں نہ عوام میں اتنی تنظیمی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بہت سے کارہائے خیر میں حکومت کا ہاتھ بٹا سکیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس سطح کے ممالک میں بہت سے فلاحی اور خیراتی ادارے قائم ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم پاکستان کا ذکر کرتے ہیں اور وہ مختلف جہتوں سے پاکستانی عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ فلاحی اداروں کی تاریخ میں ایک ادارے کی خدمات اظہر من الشمس ہیں اور وہ ہے ’’ایدھی فائونڈیشن‘‘۔ معمولی کرتے، پاجامے اور شکستہ چپلوں کے ساتھ (مرحوم) ضرورت مندوں کی حاجات روا کرنے کے لئے صاحبان حیثیت کو آواز دیتے تھے اور ان کی آواز پر لوگ لبیک بھی کہتے تھے۔ مختلف جگہوں پر ان کے محتاج خانے، بے گھروں کے لئے گھر، مرحومین کو ان کی آخری منزل قبرستان تک پہنچانے اور حادثات میں زخمی ہونے والوں کو اسپتال پہنچانے کے لئے ان کی ایمبولینسز کا دنیا میں سب سے بڑا فلیٹ قوم و ملک کے نادار اور ضرورت مندوں کی امداد کا ورشن باب ہے۔ ہمیں یاد ہے برسوں پہلے لاہور میں ایک بچے کے آپریشن کے لئے سولہ ہزار 16000روپے کی ضرورت تھی اس زمانے میں سولہ ہزار روپے بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔ ایدھی صاحب لاہور کی معروف شاہراہ میکلوڈ روڈ پر جھولی پھیلا کر کھڑے ہو گئے اور اعلان کیا کہ میں اس جگہ سے ہٹنے والا نہیں ہوں جب تک یہ رقم جمع نہ ہو جائے۔ چند گھنٹوں میں یہ رقم جمع ہو گئی۔ اسی طرح پاکستان میں درجنوں فلاحی ادارے کام کررہے ہیں۔ ہم وطن سے دور ہیں لیکن دو تین اداروں کا ذکر کریں گے۔ الخدمت، احساس جماعت اسلامی کا خیراتی ادارہ، شوکت خانم، سیلانی خیراتی ادارہ، انڈس اسپتال، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ وغیرہ اور دیگر فلاحی ادارے تندہی سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی معلومات کی بنا پر عرض کرتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں انڈس اسپتال مریضوں کے لئے واقعی مسیحا بنا ہوا ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مریض اس ادارے کی علاج گاہوں میں صحت اور تندرستی حاصل کر چکے ہیں۔ انڈس اسپتال بلالحاظ مذہب و ملت عوام کو مفت علاج فراہم کررہا ہے۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 3 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اب تک تقریباً ساڑھے آٹھ سو سکولز قائم کر چکا ہے جس میں عام نادار اور معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور طعام و قیام کا عمل جاری ہے۔ معروف اور فعال فلاحی اداروں کی بات چلی ہے تو ہم برطانیہ کی الوہاب فائونڈیشن کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ اس ادارے نے گزشتہ کئی سال سے خود کو عوام کی خدمات کے لئے وقف کررکھا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں، خطوں، شہروں اور گائوں میں الوہاب فائونڈیشن مساجد کی تعمیر، پانی کے نل، مکانات کی تعمیر، مدارس کے قیام، ضرورت مندوں کے لئے روزگار کی فراہمی، سلائی مشینیں، رکشا، موٹر سائیکلیں وغیرہ مہیا کررہا ہے۔ ضرورت مندوں کے لئے خوراک کی فراہمی اور راشن کی دستیابی کے لئے کوشاں ہے۔ ان کے علاوہ اور متعدد فلاحی ادارے انسانیت کی خدمت میں کوشاں ہیں کچھ لوگ وقتی طور پر لوگوں کے جذبات سے کھیل کر ’’فلاح‘ کے نام پر رقومات وصول کرتے بھی نظر آتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایسے وقتی ادارے وقت کی دھول میں کھو جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بوجوہ ہماری حکومت تو اس موقف میں نہیں ہے کہ عوام کے ضرورت مندوں کی جائز ضروریات پوری کر سکے۔ بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان ہم اول دنیا میں رہنے والوں کی ذمے داری ہے کہ انسانیت کی خدمات کے لئے کام کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کریں کہ اس طرح کی مدد صدقہ جاریہ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں