0

عید کی مشکل خوشیاں !

رمضان المبارک کا آخری مبارک عشرہ اپنے عروج پر ،بازاروں میں رش زیادہ مگر خریدار گنے چنے سے ۔وجہ اک عام سی ہے جس کے ہم سب عادی ہو چکے ہیں مگر مزاحمت کرنے کی جسارت نہیں کرتے کیونکہ جانتے ہیں کہ اس بیجا مہنگائی پر آواز بلند بھی کی تو وہ ارباب ِ اختیار کی سماعتوں سے ٹکرا کر نامراد لوٹ آئیگی کم خرچی پہ مائل اذہان بھی سستی اشیاء کی کھوج میں مگریہ مایوسیوں کے صحرا میں آب ِ سراب جیسی ہیںجن کی کھوج میں رہنا خود فریبی ہے حقیقت ہر گز نہیںلیکن نااُمیدی کی چادر میں لپٹے اجسام اپنی انا اپنے بھرم کو بچاتے بس ضروری اشیاء کی شکل دیکھنے تک محدود لگتے ہیں لوٹ مار کی اس اشرافیہ کے درمیان چپ سادھ کر غریب کا جینا صبر کی معراج ہے جسے کسی مذہبی رہنما نے بھی کبھی محسوس نہیں کیاکہ اکثریتی عوام اپنی حسرتوں پر صرف ٹھنڈی سانسیں بھر کر خاموش رہ جاتی ہے آج سے کچھ سال پہلے کا ذکر ہے ایک رکشہ ڈرائیور سے رمضان المبارک کے دوران سفر کرتے ہوئے پوچھا کیوں بھائی تم لوگ سخت گرمی میں روزہ رکھتے ہو؟بڑے اطمینان سے رکشہ ڈرائیور نے جواب دیا کہ کیوں نہیں روزہ رکھنے کی پابندی کرتے ہیں اور یہ تربیت بزرگوں کی جانب سے ملی ہے میں نے پوچھا کہ تم لوگ افطاری میں کیا کھاتے ہو کونسا پھل یا فروٹ زیادہ پسند ہے تو رکشے والے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ پھل تو سارے صاحب جی میرے اللہ کا رزق ہیں مگر ہم غریب لوگ سادہ شوربے اور چائے روٹی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ پھل ،فروٹ گوشت یا مرغی وغیرہ کھانے کی اوقات نہیں بس جو ملے اُس پہ شکر کر لیتے ہیںاُس کی حقائق پہ مبنی باتیں سن کر میرا دل پسیج سا گیا کہ ہم لوگوں کے بچے ہزار روپے کا ایک وقت میں پیزا کھا لیتے ہیں مگر یہ رب ِ ذوالجلال کے پیدا کئے ہوئے عام پھلوں سے محروم رہتے ہیں یہ تفریق ،یہ طبقاتی فرق ایک مسلمان ملک میں کن لوگوں کی معاشی پالیسیوں سے پھیلا ہے جس سے عید کی خوشیاں بھی مشکل سے لوگوں کو میسر ہوتیں ہیں مجھے ورطہ ٔحیرت میں ڈال گئی میرے مہربان دوست ملک ریاض اعوان کی بات جو سیاست کو وفا جان کرتے ہیں آئے ہیں اور ایک ہی شخص کو محبوب بنا یا ہوا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میانوالی میں ایک درزی جس کا نام قیصر حسن ہے وہ پچھلے 6سالوں سے یتیم بچوں کے کپڑے مفت سلائی کر کے انھیں دیتا ہے اور 200روپے کی عیدی بھی ان کی نذر کرتا ہے بخدا مجھے یہ غریب پرور شخص قیصر حسن اب تک ستارہ ٔامتیاز لینے والوں میں سب سے امتیازی شخصیت لگا جس نے انسان دوستی کے پاکیزہ رشتے کی لاج رکھ کر دنیا میں جنت کمالی ہے اپنی مالی بساط کے مطابق وہ اسی خدمت کو سامنے لا کر عید کی مشکل خوشیاں آسان کر رہا ہے لیکن میرے ملک کے معاشی ماہرین اس مبارک مہینے میں بھی پھر سے خود کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوا کر اُن کی منشاء کے مطابق ٹیکسوں کی بھر مار اور بجلی پٹرول کی من مانی قیمتوں کو لاگو کرنے جارہے ہیںعوام ذرا سوچ لے کہ کیا حکومت اور اُس کے معاشی ماہرین سودی نظام کو فروغ دے کر اسلا م کی خدمت کر رہے ہیں ؟کیا ان کی ایسی اسلام دشمن معاشی پالیسیوں سے ملک میں خوشحالی ممکن ہو سکتی ہے ؟ میری ایمانی قوت کہتی ہے کہ سودی لین دین اللہ سے جنگ کرنے کے متراداف ہے ایسے نظام میں ہم سب کا خوشحال ہونا ناممکن بلکہ عذاب میں پڑنا یقینی ہے ملک صرف پیسوں میں دیوالیہ نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی اقدار ،حلال ،حرام انصاف ،برداشت اور انسانیت سے بھی دیوالیہ ہوتا ہے آئندہ سال جی ڈی پی کا 3فی صد سے کم رہنا اور مہنگائی میں کمی کی پیشنگوئی کاعندیہ دینا میرے ملک کے خط ِ غربت سے نیچے رہنے مفلوک الحال طبقے کے لئے معنی خیز نہیں ہے کیونکہ راوی یہ باتیں یہ تجزیے سنتے سنتے تھک چکا مگر عملی تصویر دیکھنے سے قاصر ہے اسی لئے مجھے آنے والے وقتوں میں بھیگ مانگنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ہر چوک میں رکنے والی گاڑیوں پر کپڑے صفائی کے ساتھ بھیک طلب کرنا ہماری معاشی پالیسیوں کا آئینہ دار ہے اور ایسی ہی معصوم نسل کا گندگی کے ڈھیر سے چیزیں اُٹھا کر کھانا طبقاتی فرق کی واضح دلیل ہے ناانصافی تو اس ملک کے رائج اُس قانون میں ہے جس میں مختلف اداروں میں عہدوں پر تعینات ورکرز کو ،اعلی عہدیداروں کو بیجا سہولیات سے نواز ا جاتا ہے مفت کی بجلی پٹرول اور قد سے بڑھی پنشن سے نواز کر دیگر کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلناانسانی حقوق کی پامالی نہیں تو اور کیا ہے ؟ کراچی میں سٹریٹ کرائم کا بڑھنا غریبی کا انتقام ہے کچے میں پھیلے ڈاکو اسی کا تسلسل لگتے ہیں گویا غریبی کا صبر دم توڑنے لگے تو جرائم کا آغاز ہونا یقینی ہو جاتا ہے وطن ِ عزیز کے دامن میں شاید کوئی بہتر معاشی پالیسی ساز نہیں جو غربت کے اندھیروں کو دور کر سکے طبقاتی فرق کواور پھیلی محرومیوں کا سدباب کر سکے ابھی تو عید کی خوشیاں مشکل ہو رہی ہیں موجودہ معاشی طرز ِ عمل سے مزید خوشیاں بھی رخصت ہونے کے اندیشے واضح ہونے لگے ہیں اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو مگر کوئی کاوش اس حوالے سے نظر میں نہیں آ رہی ہے بلکہ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ چوری میں گرفتار ایک سیاسی قیدی کے تحفظ پہ 12لاکھ روپے ماہانہ کا خرچ حکومت برداشت کر رہی ہے ایسی معاشی پالیسیوں سے کیسے غربت کا خاتمہ ممکن ہو گا مجھے کوئی یقین دلا دے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں